لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ قصور کا عمران علی جو بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کرتا رہا۔ یہ ایک بڑا کیس تھا۔ سپریم کورٹ تک مسئلہ پہ۰نچا۔ میں خود بھی اور دوسرے اخبار نویسوں کے ساتھ سپریم کورٹ حاضر ہوا چیف جسٹس نے جو لاہور میں طلب کیا تھا اس میں انہوں نے پوچھا بھی جس میں ڈاکٹر شاہد مسعود سے بھی پوچھا گیا تھا کہ آپ نے جو خبر دی ہے کہ اس شخص کے پاس تو بہت سارے بینک بیلنس ہیں اس وقت بھی میں نے ایک رنگین ایڈیشن شائع کیا تھا اس کے بعد میں نے ایک درخواست سپریم کورٹ میں دی اور میری درخواست یہ تھی کہ بڑی اچھی بات ہے ملزم پکڑا گیا اور سزا بھی ملے گی اور عدالتیں بہت تیز سن رہی ہیں لیکن میں نے لکھا تھا کہ زینب کے واقعہ کے بعد یہ اس کی سرخی تھی کہ اب تک 79 بچے بچیاں جو ہیں ان کے ساتھ وہی واقعات ہو چکے ہیں جو زینب کے ساتھ ہوا تھا میں نے یہ کہا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو پولیس کے نظام میں تحقیق میں کوئی نقش ہے یا پھر جو سوشل فیکٹرز ہیں وہ ختم نہیں ہونے میں آ رہے یاکہ پولیس اور لوکل انتظامیہ وہ عام طور پر پہلوتہی کرتے ہیں جس وجہ سے ملزم جلدی پکڑے نہیں جاتے۔ یہ زینب والا کیس بھی دیکھیں کہ پورے ملک میں کس قدر طوفان مچا تھا تب جا کر کتنے ٹیسٹوں کے بعد یہ واقعہ پیش آیا تھا اور زینب کا جو ملزم وہ کس طرح سے گرفتار ہوا تھا تو میں اب بھی یہ سمجھتا ہوں کہ یہ اچھی بات ہے بلکہ لوگوں کا مطالبہ تھا کہ جہاں تک ہے یاد پڑتا ہے کہ عمران کو جیل کے احاطے کے اندر پھانسی نہ دی جائے بلکہ علی الاعلان کسی چوک میں پھانسی دی جائے۔ تا کہ لوگوں کے لئے عبرت کا باعث بنے۔ اگرچہ اس کا فیصلہ نہیں ہو سکا اور کسی عدالت نے یہ آرڈر نہیں دیا۔
حاجی صاحب! اب چونکہ ملزم کی سزا کا وقت آ رہا ہے لیکن یہاں مجھے یاد پڑتا ہے اس وقت یہ بات بڑی عام ہوئی تھی کہ اس کو کسی چوراہے میں پھانسی دی جائے تا کہ یہ لوگوں کے لئے عبرت کا باعث ہو۔ کیا وجہ ہے کہ اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ اور پھانسی دی جا رہی ہے آپ کے کیا احساسات ہیں۔
زینب کے والد حاجی امین نے کہا کہ میرا تو آج بھی مطالبہ ہے کہ عمران علی کو سرعام سزا دی جائے۔ صبح پھر رٹ کر رہے ہیں کہ اسے سرعام پھانسی دی جائے اس کے علاوہ آپ کے توسط سے صدر پاکستان کو یہ اپیل کی ہے کہ اسے ایک مثال بنایا جائے اس کو سرعام سزا دی جائے۔ اگر 12,10 بندوں کو سرعام سزا دی جائے گی تو یقینا ملک میں سکون میں ہو جائے گا روزانہ خبریں آ رہی ہیں دیکھ کر بڑی تکلیف ہوتی ہے ہمارا غم تازہ ہو جاتا ہے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ عدالت سے آپ کو آرڈر مل جائے آپ نے بھرپور کوشش کی۔ آپ کو اپنی کوشش جاری رکھنی چاہئے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میری آپ سے ملاقات ہوئی تھی تو آپ نے کہا تھا کہ ہماری بچی کے ساتھ جو ہونا تھا ہو چکا لیکن اب ہم اس لئے چاہتے ہیں کہ ملزم کو عبرتناک سزا ملے کہ کم از کم اس سزا کو دیکھنے والے ان کے ذہن میںیہ خوف پیدا ہو کہ آئندہ وہ اس قسم کی حرکت نہ کر سکیں۔
حاجی امین نے کہا کہ ایسی سزا ملنی چاہئے کہ اس سے خوف پیدا ہو اور ہماری آئندہ نسلیں محفوظ ہو سکیں۔
ضیا شاہد نے کہا کہ انہوں نے کہا ہے کہ یہ ہائی کورٹ میں جا رہے ہیں ہو سکتا ہے ہائی کورٹ ان کی بات کو مان کر یہ آرڈر جاری کرے۔ ہائی کورٹ بااختیار ہے وہ یہ آرڈر جاری کر سکتا ہے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار صاحب نے بہت اچھی کارکردگی دکھائی۔ اب لوگوں نے دیکھا ہے کہ مجھے خود دوچار مرتبہ اتفاق ہوا اور میں نے دیکھا ہے کہ ہائی کورٹ کے باہر جو دروازہ مال روڈ پر کھلتا ہے سو ڈیڑھ سو مرد و خواتین نظر آتے ہیں جو انصاف کے حصول کے لئے درخواست لئے کھڑے ہوتے ہیں سب کی خواہش ہوتی ہے کہ چیف جسٹس ان کی درخواست ایک نظر نہیں ضرور۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ پاکستان کے جتنے بھی معاملات ہوں ان سب کو وہ سن سکیں اس کے باوجود انہوں نے ہسپتالوں، سکولوں، سڑکوں پر ناجائز قبضوں کے سلسلے میں پھر عدالتوں میں زیر التوا کیسز تھے جن کو کوئی پوچھتا نہیں تھا۔ اسی سلسلے میں آج بھی وہ ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے تو میں ان کی پروسیڈنگ سن رہا تھا وہ اس میں کہہ رہے تھے کہ یہ جو سپریم جوڈیشل کونسل میں جو فیصلہ ہوا ہے کل شوکت عزیز صدیقی صاحب کو ہٹا دیا گیا ہے اس سپریم جوڈیشل کونسل کے بارے میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ججوں کو بڑی سہولتیں ملتی ہیں لیکن جج حضرات کو واقعی اپنی سہولتوں کے مطابق ان کو چھٹیاں نہیں کرنی چاہئیں اور انہیں زیادہ وقت دے کر زیادہ مقدمات نمٹانے چاہئیں۔ اب چیف جسٹس صاحب کے پاس بہت کم وقت ہے مجھے یقین ہے کہ جو جسے رفتار کہتے ہیں متعین کر کے جا رہے ہیں وہ عدالتوں کے کیسز کی اگر اس پر 50 فیصد بھی عمل ہوتا رہا تو جوڈیشری کی، عدلیہ کی صورتحال بھی بہت بہتر ہو جائے گی اور ان کے بعد جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب آ رہے ہیں وہ بھی بڑے اصول پسند جج ہی ںاور بڑے ڈسپلن کے پابند ہیں میرٹ پر کام کرنے کی شہرت رکھتے ہیں بڑے دبنگ جرا¿ت مند اور باہمت جج ہیں اپنی کوششوں سے رفتار اور تیز کریں گے۔
ضیا شاہد نے کہا ہے کہ مںی ماہر معیشت نہیں ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ بہت بڑا فیصلہ کل ہوا ہے اور وہ فیصلہ یہ ہوا ہے جس کی آج اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی ہے یہ فیصلہ ہوا ہے کہ پچھلے 10 سال میں 2 ٹرم میں جو غیر ملکی قرضے لئے گئے یہ قرصے کہاں کہاں صرف ہوئے۔ آیا یہ قرضے لینا ضروری بھی تھے یا نہیں۔ کیونکہ کہا جا رہا ہے ان قرضوں کی وجہ سے پاکستان کا ہر فرد و بشر یہاں تک ہر پیدا ہونے والا بچہ بھی مقروض ہے اور اس پر واقعی سختی ہونی چاہئے اور اگر 10 سال کا آڈٹ ہو گیا تو اس سے آنے والے دور میں بڑی اصلاح ہو گی۔ اب جو کہا جا رہا ہے کہ مہنگائی ہو رہی ہے تو جناب اس کی بنیادی وجہ جو یہ قرضے ہی ہیں۔ یہ بڑی ظالمانہ بات ہو گی کہ قرصے لینے والے چلے گئے اب ان کو کس طرح سے سزا دی جائے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ یہ بات کہ چین سے ہم نے قرصہ صحیح لیا یا غلط لیا اس کا فیصلہ میں نہیں کر سکتا اس کا فیصلہ ماہرین معیشت ہی کر سکتے ہیں۔ شاہد حسن صدیقی صاحب سابقہ حکومتوں کو قرصے لینے سزا جمہوریت میں دی جا سکتی ہے وہ یہی ہے کہ اچھی جی اس پارٹی کوووٹ نہ دیں۔ 10 سال کا آڈٹ کروانے کا موجودہ حکومت نے حکم دیا ہے۔ کیا معلوم ہو جائے گا کہ پچھلی حکومتوں نے غلط کیا یا ٹھیک کیا۔
ماہر معاشیات شاہد حسن صدیقی نے کہا ہے کہ قرضوں کے معاملے میں سیاست نہیں ہونی چاہئے مثال کے طور پر اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ ان 10 سالوں میں قرصے 7000 ہزار سے بڑھ کر 30 ہزار ارب ہو گئے ہیں اس کا مطلب ہے کہ 23 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ 23 سو ارب روپے سال یہ کوئی بڑی رقم نہیں ہے موجودہ حکومت نے ایک ماہ کے اندر 11 سو ارب بڑھ گئے۔ اگر اس کو 12 سے ضرب دیں تو بات کہاں تک پہنچے گی۔ دیکھنا یہ پڑتا ہے کہ تجارتی خسارہ 24 سو ارب روپے بجٹ خسارہ تھا۔ بلین ڈالر ہمارا تجارتی خسارہ تھا۔ اٹھارہ ارب ہمارا کنٹ خسارہ تھا۔ جب آپ 24 سو ارب خسارہ دکھائیں گے تو جس پر وفاق اور صوبے چاروں صوبے برابر کے ذمہ دار ہیں۔ جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ اٹھارویں ترمیم میں بہت سی چیزیں صوبوں کے پاس آ گئیں۔ تعلیم، صحت، آ گئی۔ پراپرٹی، انکم ٹیکس اور زراعت پہلے ہی ان کے پاس تھا۔ صوبوں نے بھی وہی کیا جو وفاق نے کیا۔ ذمہ دار دونوں ہیں اب سوال یہ ہے کہ 22 سو ارب روپے یا 23 سو ارب روپے اس سال بڑھا ہے میں تو یہ ریکارڈ پر ابھی بتا دوں کہ اس سال اوسط سے کہیں زیادہ ہمارے قرضے بڑھیں گے۔ ہمیں تو یہ دیکھنا ہے کہ کتنے پیسے پراجیکٹس پر لگے اور کتنے ہم نے ضائع کئے۔ قرصے اس لئے بڑھے کہ کرپشن ہو رہا ہے چوری ہو رہی ہے طاقتور طبقوں پر ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ وفاق اور صوبوں نے ٹیکس نہیں لگائے۔ 16 کروڑ کی پراپرٹی 4 کروڑ میں کراچی، لاہور، اسلام آباد میں رجسٹر ہو رہی ہے اور 12 کروڑ روپیہ آپ کا بلیک منی وائٹ ہو رہا ہے۔ کالا دھن آج بھی سفید ہو رہا ہے دنیا میں واحد ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جہاں چوری کا پیسہ کالا دھن بغیر ایک پیسہ قومی خزانہ میں جمع کرا کے سفید ہو جاتا ہے ان حالات میں جب تک وفاق اور صوبے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں اور سٹیٹ بینک کوئی اصلاح نہیں کرتا یہ تو رہے گا مہنگائی کا جہاں تک تعلق ہے کہ 6 مہینے والی بات غلط بتایا گیا ہے سشاری دنیا اور سٹیٹ بینک کہہ رہا ہے 2019ءمی ںمہنگائی بڑھے گی اور معیشت کی نمو سست ہو گی بلکہ میں اگر آپ سے عرص کروں کہ 30 جون 2020ءتک ہمارا گروتھ ریٹ اس سے کم رہے گا جو ن لیگ چھوڑ کر گئی تھی۔ مہنگائی اس لئے بھی برھے گی کہ روپے کی قدر گرائیں، آئی ایم ایف سے قرضہ لیں گے تو بجلی کے نرخ بڑھیں گے۔ پٹرول، گیس کے نرخ بڑھیں گے شرح سود میں اضافہ ہو گا۔ یہ ساری چیزیں مل کر مہنگائی کا تو طوفان لانے والی ہیں۔ ضیا شاہد نے کہا کہ صدیقی صاحب! یہ بتایئے کہ بہت مشہور شعر ہے کہ
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا
شور مچا کر سعودی عرب پاکستان کو 5 سال تک ادھار تیل دے گا۔ اس سے ہمارے مالی مسائل صحیح ہو جائیں گے۔ یہ خبر سنائی دی کہ چائنا کوئی مزید ہمیں قرضہ دے گا کہ ہم موجودہ بحران سے نکل سکیں۔ کیا سعودی عرب سے ہمیں کوئی ریلیف ملا ہے اور کوئی چائنا سے کوئی امداد ملی ہے یا یہ خالی باتیں ہیں۔ شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ سعودی عرب و چین کی مدد آئی ایم ایف کے قرضوں کا متبادل نہیں۔ دونوں کی مدد کے باوجود آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ اب اگر پاکستان کی خدمت کرنی ہے۔ ملکی سلامتی کو یقینی بنانا ہے تو حکومت آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسنے کے بعد اب فوری طور پر کوئی حکمت عملی طے کرے کہ ایک سال کے اندر اندر آئی ایم ایف کے پروگرام سے باہر نکل آئیں اور اس کی شرائط سے خود کو آزاد کرا لیں۔ یہ امریکی ایجنڈا ہے وہ آئی ایم ایف کو استعمال کر رہا ہے۔ مقصد پاکستان کو غیر مستحکم کرنا معیشت کو کمزور کرنا، مہنگائی میں اضافہ کرنا، عوام و حکومت کے درمیان اعتماد کا بحران پیدا کرنا ہے۔ حکومت نے اگر ایک سال کے اندر اندر آئی ایم ایف سے نجات کے پالیسی نہیں بنائی تو جو تباہی آئے گی اس کے اثراتت 2023ءتک رہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قرض لینے کی ضرورت اس لئے پڑتی ہے کہ 2011ءسے 2017ءتک ہماری ایکسپورٹ گرتی چلی گئی مگر کسی حکومت نے توجہ نہیں دی۔ پٹرول، بجلی، گیس سمیت ہر چیز مہنگی ہوتی گئی۔ سٹیٹ بینک بھی خاموش رہا۔ سرمائے کا فرار آج بھی ہو رہا ہے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ بیرون ملک پاکستانیوں کیلئے سہولتیں دینی بہت ضروری ہیں۔ اوورسیز پاکستانی کمیشن ادارہ پچھلے ادوار میںبھی کام کرتا رہا ہے، پہلے بھی بڑے بڑے دعوے کئے گئے اب امید ہے کہ کمی و کوتاہی کو ٹھیک کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سی پی این ای کا وفد جس میں خود بھی شامل تھا۔ نوازشریف سے تعزیت کیلئے گئے تھے کوئی سیاسی بات نہیں ہوئی۔ میں یہ سمجھتا ہو ںکہ بظاہر ان کو العزیزیہ ریفرنسز پر پریشانی نظر نہیں آتی، لگتا یہی ہے کہ اب عدالت کو 17 نومبر سے پہلے فیصلہ کرنا پڑے گا۔ بڑے فیصلے سامنے آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مجاہد کامران کے حوالے سے حقائق سامنے آنے چاہئیں، اگر الزام ثابت ہوتا ہے تو افسوسناک ہو گا پھر اہل علم کو زیادہ سزا ملنی چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اساتذہ کا طلبا سے خود کو دبوانا سمجھ سے بالاتر ہے، صوبائی وزیر تعلیم سے خود بات کروں گا۔ بچوں سے مشفقت لینے کا رواج ختم ہونا چاہئے، یہ بے ہودگی، ناشائستگی اور ظلم ہے۔ ماہر معاشیات ڈاکٹر لال خان نے کہا کہ ملکی معیشت بیمار ہو چکی ہے جو اسے ٹھیک کرنے آتا ہے وہ خود اسی معیشت کی پیداوار ہیں۔ نوازشریف اور نون لیگ سرمایہ داروں کی پارٹی تھی۔ پی ٹی آئی یہاں کے نئے امیر ہونے والے سرمایہ داروں کی پارٹی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ نظام دس جگہ ٹھیک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جہاں اس کے ٹھیک ہونے کی گنجائش ختم ہو گئی ہے۔ اگر مسائل حل کرنے کیلئے قرصے ہی لیں گے تو وہ تو بہت مہنگے ہیں۔ آئی ایم ایف کا تو سود ہی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس سے نکلنے کیلئے حکومت کو بہت مشکل پروگرام دینا پڑے گا وہ یہ نہیں دیں گے، خود اپنے پاﺅں پر کلہاڑی نہیں ماریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حقیقت یہی ہے کہ نظام کی معاشرے یا سماج کو چلانے کی اہلیت ختم ہو چکی ہے۔ جب تک ملک میں انقلابی تبدیلی سے یکسر معیشت میں منافع خوری انسانی ضروریات میں تبدیل نہیں ہوتی اس وقت تک کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ پی ٹی آئی رہنما اور وائس چیئرمین اوورسیز پاکستانی کمشن وسیم چودھری نے کہا کہ پاکستانی اوورسیز کمیشن سمندر پار پاکستانیوں کے پاکستان میں مسائل حل کرنے کیلئے بنایا گیا ہے۔ ہم نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ان کی شکایات و تحفظات کی درخواستیں لینا شروع کر دی ہیں۔ سمندر پار پاکستانیوں کو پاکستان میں محفوظ ماحول فراہم کرنا چاہتے ہیں تا کہ وہ سرمایہ کاری کرتے ہوئے کسی قسم کا خوف بالائے طاق نہ رکھے۔ سابق نظام میں بہت خرابیاں ہیں۔ وزیراعلیٰ کو سفارشات بھیجی ہیں، اسمبلی میں جلد اس نظام میں تبدیلی کی منظوری مل جائے گی اس کے بعد یہ ون ونڈو حل مہیا کرے گا۔ جس کے بعد ہر تھانے، نادرا و ایئرپورٹ پر اوورسیز کیلئے علیحدہ ڈیسک ہو گا۔ اافس میں ڈی آئی جی و اوورسیز کمشنر بھی بیٹھیں گے۔ اوورسیز کمیشن کی عدالتیں ہر ڈسٹرکٹ میں الگ کر دی ہیں جہاں 3 سے 6 ماہ میں فیصلے ہوں گے۔ پاکستانی اوورسیز کمیشن ادارے کا رسپانس ٹائم 24 گھنٹے رکھا ہے۔ ریذیڈنٹ ایڈیٹر خبریں ملتان میاں غفار نے کہا کہ بینک سے قرضہ لینا لوگوں کے لئے مشکل تھا، اب نیشنل بینک نے سکیم نکالی ہے کہ زیور لے آﺅ اس کی مالیت کی مناسبت سے قرصہ مل جاتا ہے۔ کاشتکار اس قرضے سے کھاد اور اپنی زمین کیلئے چیزیں خرید لیتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے خطے میں 5 سال سے ماسوائے گنے کی فصل کے لوگوں کو پیسے نہیں ملتے۔ ابھی بھی بہت ساری شوگر ملیں ہیں جنہوں نے کریش کر کے چینی فروخت بھی کر دی لیکن گنے کے کاشتکار کو پیسے نہیں ملے۔ کپاس آتی ہے تو کاٹن کا ریٹ گر جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نواز دور میں 5 ارب روپے کی کاشتکار کو سبسڈی دی گئی لیکن کاشتکار کے پاس ایک روپیہ نہیں پہنچا۔
