اسلام آباد(ویب ڈیسک)سپریم کورٹ نے ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے سے متعلق از خود نوٹس میں وزیر اعلی پنجاب، وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ کے بچوں کے مبینہ گارڈین احسن جمیل گجر اور پنجاب پولیس کے سابق سربراہ کلیم امام کی معافی کو قبول کرلیا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ مستقبل میں دوبارہ مداخلت یا سیاسی اثرو رسوخ استعمال کرنے کا واقعہ پیش آیا تو اس از خود نوٹس کو دوبارہ کھول دیا جائے گا۔وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ کی بیٹی کے ساتھ پولیس کے مبینہ ناروا سلوک پر صوبہ پنجاب کے شہر پاکپتن کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر کے تبادلے سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران اسے قبل چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ وزیراعظم عمران خان کو جا کر بتائیں کہ وہ (چیف جسٹس) ان سے ناخوش ہیں۔ذرائع کے مطابق پیر کو سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم یہ کہتے ہیں کہ جب تک پی ٹی آئی کی حکومت ہو گی پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار ہی ہوں گے۔میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب اپنے دفتر میں بیٹھ کر اختیارات کا ناجائز استعمال کر رہے ہیں، تو کیا ایسا ہوتا ہے نیا پاکستان جس کا دعویٰ پی ٹی آئی کی حکومت اقتدار میں آنے سے پہلے کرتی رہی ہے۔چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سماعت کے دوران نیکٹا کے کوارڈینیٹر خالق داد لک کی طرف سے جمع کروائی گئی تحقیقاتی رپورٹ پر وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ کے بچوں کے مبینہ گارڈیئن احسن جمیل گجر کے اعتراضات کو مسترد کر دیا۔
سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے کہا کہ انکوائری افسر کی رپورٹ مبہم ہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کی نظر میں اصل حقائق وہ ہیں جو پنجاب پولیس کے سابق سربراہ کلیم امام نے اپنی رپورٹ میں لکھے تھے۔بینچ کے سربراہ نے احمد اویس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیسے عدالت عظمیٰ کی طرف سے تحقیقات کے لیے مقرر کردہ افسر کی رپورٹ کو ایک ربڑ سٹیمپ قرار دیا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ ایک ذمہ دار افسر کے خلاف اس طرح کی زبان کیسے استعمال کر سکتے ہیں۔بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عدالت قانون کی حکمرانی کے لیے کام کرریی ہے جبکہ بینچ کے رکن جسٹس اعجاز الااحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جواب میں انکوائری افسر خالق داد لک پر براہ راست حملہ کیا گیا ہے۔بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’کیا ایک ڈی پی او اتنا پلید ہوگیا کہ وزیر اعلی پنجاب نے کہا کہ صبح اس کی شکل نہیں دیکھو ں گا۔‘پنجاب کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں کوئی بدنیتی نہیں تھی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کو تو بدنیتی نظر آ رہی ہے اور اگر وزیر اعلی پنجاب انکوائری افسر کی رپورٹ سے مطمئن نہیں ہیں تو پھر جے آئی ٹی تشکیل دے دیتے ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’یہاں معافی مانگتے، اپنے کئے پر شرمندہ ہوتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ الٹا خالق داد کی رپورٹ پر ناراضگی کا اظہار کیا گیا۔‘ انھوں نے ایڈووکیٹ جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے کو بہت ہلکا لے رہے ہیں۔اس کے بعد ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے وزیرِاعلیٰ پنجاب کی جانب سے جمع کروایا گیا جواب واپس لے لیا اور کہا کہ وہ وزیراعلی کی طرف سے عدالت عظمیٰ سے غیر مشروط معافی مانگتے ہیں۔وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی کے بچوں کے مبینہ گاڈرین احسن جمیل گجر کی معافی کو بھی عدالت نے مسترد کر دیا اور کہا کہ وہ کیسے وزیراعلی کے دفتر میں بیٹھ اکڑ کر بیٹھے رہتے تھے۔پنجاب پولیس کے سابق سربراہ کلیم امام نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے خود کو عدالت کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا تاہم چیف جسٹس نے وزیراعلیٰ پنجاب اور سابق آئی جی پنجاب کو عدالت میں تحریری معافی نامہ جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔
انکوائری رپورٹ کیا کہتی ہے؟
قومی انسداد دہشت گردی کے محکمے کے افسر مہر خالق داد لک نے ڈی پی او کے تبادلے سے متعلق انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب پولیس کے سابق سربراہ کلیم امام نے ’سب اچھا‘ کی رپورٹ دے کر محض ایک ربڑ سٹمپ کا کام کیا ہے۔اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خاور مانیکا کی بیٹی کے ساتھ پولیس اہلکاروں کے ناروا سلوک پر سابق آئی جی نے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی جس کی رپورٹ 30 اگست کو آ گئی جبکہ انکوائری رپورٹ آنے سے پہلے ہی ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کا تبادلہ 28 اگست کو کر دیا گیا۔ کلیم امام نے اس انکوائری رپورٹ کا بھی انتظار نہیں کیا جو ا±نھوں نے خود اپنے حکم پر قائم کی تھی۔مہر خالق داد کی رپورٹ کے مطابق ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ پنجاب کے وزیرِاعلی کے دفتر سے جاری ہوا اور وزیر اعلیٰ کو اس بات کا علم بھی ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کے قریبی دوست احسن جمیل گجر جن کی اہلیہ خاتون اول بشری بی بی کی دوست ہیں، کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ا نھوں نے ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کو وزیر اعلی ہاﺅس میں بلا کرا نھیں خاور مانیکا کے ڈیرے پر جا کر معاملے کو سلجھانے کے بارے میں کہا تھا۔اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ڈی پی او پاکپتن کے اس موقف کو بھی تقویت ملتی ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ احسن جمیل گجر کی طرف سے انھیں خاور مانیکا کے ڈیرے پر جاکر معافی مانگنے کے بارے میں کہا گیا تھا لیکن ا نھوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ احسن جمیل گجر نے پولیس حکام کے ساتھ دھمکی آمیز رویہ بھی اختیار کیا۔