لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ جب سے ہوش سنبھالا ہے پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ جو اعتراض پاکستان کے واٹر کمشنر سندھ طاس نے انڈین کمشنر سندھ طاس کے خلاف کیا ہے میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ بھارت نے اپنی غلطی تسلیم کی ہو تو یہ پہلا موقع ہے کہ مجھے کچھ اندازہ ہونے لگا کہ شاید یہ وہی نریندر مودی ہے جس نے حکومت میں آنے کے بعد جو گینگسٹر نظر آ رہا ہے، بدمعاش نظر آ رہا تھا اور مسلمانوں کے پیچھے تو وہ ہاتھ دھو کے پڑا تھا اور بالکل کرکٹروں کی مار پٹائی ہو رہی ہے پاکستانی فنکاروں کو بھارت سے نکال رہا ہے اور جو لوگ پاکستان کے حق میں تو بہت دور کی بات ہے جو کوئی مسلمانوں کے حق میں بھی بیان دے دیتا تھا جو کوئی فلم ایکٹر بھی اس کو اس طرح سے دھمکیاں دی جاتی تھیں تو اس نریندر مودی کو آپ دیکھیں کہ جو ذاتی طور پر اپنے تعلقات بنانے کی کوشش کرتا تھا نوازشریف سے اور اس کے گھر پر بھی جاتا تھا اور پگڑی بھی بدلتا تھا اور تحفے تحائف کے بھی تبادلے کرتا تھا۔ باقی وہ کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتا تھا تو یہ عمران خان کی آمد کے بعد ایک تھوڑی سی تبدیلی ہمیں نظر آتی ہے وہ یہ عام طور پر نہ تو عمران خان نے کوئی بڑھکیں لگائی ہیں بہت کوئی اینٹی انبڈیا اور کشمیر کے بارے میں پانی کے معاملے میں، البتہ یہ انہوں نے کہا کہ ہمیں کوئی کوشش کرنی چاہئے کہ مسائل کو مل بیٹھ کر حل کریں اس کے جواب میں بھارتی رویہ بھی کچھ تھورا سا تبدیل ہوتا نظر آ رہا ہے اور یہ جو موجودہ صورت حال ہے ورنہ اس سے ایک بنا بنایا گھڑا گھڑایا بیان کہ ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہہ کر واپس چلا جائے گا۔ اور پھر معاملہ لٹکتا رہے گا لیکن لگتا یہ ہے کہ کوئی رستہ شاید کھلتا ہوا نظر آتا ہے۔ شاید سیریس معاملات پر بھی گفتگو شروع ہونے کا۔ میں نے ہر گز یہ نہیں کہا کہ بھارت اچانک اچھا بچہ بن جائے گا۔ اور ملکوں کی تاریخ میں اس طرح ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ظاہر ہوا کہ اس واقعہ سے شاید میں نے مانوں والی بات جو ہے ترک کرکے کچھ دو اور کچھ لو کے فلسفے پر شاید عمل درآمد کرنے کے لئے کچھ تیار نظر آتا ہے لیکن میں اب کوئی جب پاکستانی وفد جائے گا تو پھر دیکھیں گے کہ ان کا طرز عمل کیا ہوتا ہے۔ لیکن مجھے عمران خان کے طرزعمل سے بھی ان کے جو دوست ملنے آئے ہوئے تھے سردار صاحب ان کی گفتگو سے بھی اور جو ان کے دوست کے بارے میں وہاں کے انتہا پسندوں نے جو رائے دی تھی اس کو بھی میں نے دیکھا کہ انڈیا میں کسی نے اس کی حمایت نہیں کی۔ اور لگتا ہے کہ اب دونوں ملکوں میں لوگ لڑتے لڑتے تھک گئے ہوں شاید کوئی چانس نظر ااتا ہو تو مل بیٹھ کر کوئی معقول بات کی جائے عمران خان کی بات میں بڑا وزن تھا کہ دونوں ملکوں کے عوام جو ہیں غربت کی چکی میں پستے رہیں گے جب وہ اپنے مابین جو اختلافات ہیں ان کو گفت و شنید کے ذریعے حل کرنے کی طرف نہیں آئیں گے۔ پہلے تو دیکھا گیا تھا کہ پاکستان جو کہتا تھا بھارت اسے مسترد کر دیتا تھا اب اگر فرض کر لیں کہ ہم تھوڑ سے دوسری ملاقات میں ہمارا موقف مسترد کر دیں انڈیا کی سابقہ تاریخ یہی بتاتی ہے لیکن اس کا بھی کوئی چانس ہو سکتا ہے کہ شاید کوئی درمیانی راستہ نکل آئے۔ ہمیں اُمید رکھنی چاہئے کہ نئے بدلے ہوئے حالات میں جب نوازشریف نہیں رہے جو ان کا فیورٹ تھا۔ اور جس کے بارے میں انڈین وزیرداخلہ نے کہا تھا یہ میں اس کے الفاظ کورٹ کر رہا ہوں کہ ہم نے نوازشریف پر بڑی انویسٹمنٹ کر رکھی ہے۔ ہم یہ افورڈ نہیں کرتے کہ نوازشریف کی حکومت ختم ہو جائے۔ دیکھیں اس سٹیج سے وہ شروع ہو کر نیا آدمی آیا ہے پاکستان میں وہ ایک دفعہ دیکھیں گے ضرور کہ ان کے ساتھ کیسے چلنا ہے۔
ضیا شاہد نے کہا ہے کہ بظاہر تو لگ رہا ہے کہ فضل الرحمن اور اعتزاز احسن میدان میں کھڑے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرا کر ختم ہوں گے لیکن زرداری صاحب کی گفتگو سے لگتا ہے کہ انہیں کوئی اُمید ہے کہ شاید فضل الرحمن صاحب اگر بیٹھ جائیں تو پھر نیک ٹو نیک فائٹ ہے۔ اصل میں زرداری صاحب کی سیاست کا اپنا ایک سٹائل ہے لیکن یہ بات صحیح ہے بعض اوقات وہ نہ یقین کرنے والے واقعات بھی ان سے منسوب ہوئے ہیں ان سے آج تک اور عین وقت پر کوئی گمک (کرشمہ) دکھاتے ضرور ہیں۔
اصل میں گزشتہ روز وزیراعلیٰ کا مشکل دن تھا اس لئے کہ ڈی پی او پاکپتن والے واقعہ میں سپریم کورٹ نے کافی حد تک کھنچائی کی ہے اور جو چیزیں سامنے آئی ہیں اس میں تو ان کی پوزیشن کافی کمزور ہوئی ہے اب دیکھیں کہ یہ ون ڈے میچ نہیں ہے کہ ٹیسٹ میچ ہوتا ہے اس لئے ابھی آگے بہت وقت ہے اگر وہ اپنی اصلاح کر لیں اور اپنے معاملات پر قابو پا لیں بہرحال اب تک ان کا طرز عمل کوئی زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان میں کوئی تعریف کے پہلو ہیںتو سامنے آ جائیں گے۔ انتظار کریں۔ لیکن ان کی آج جو پٹائی ہوئی ہے سپریم کورٹ میں اور جس طرح سے انہوں نے ثابت کر دیا ہے ڈی پی او صاحب کے بیان سے کہ ان کو کس طرح سے وزیراعلیٰ ہاﺅس میں بلا کر سمجھایا گیا کہ جا کر معافی مانگ لو عمران خان صاحب کو خاموش نہیں رہنا چاہئے بلکہ فوری طور پر اس معاملے میں جو حقیقت حال ہے اس کا ذکر کرنا چاہئے اور ان کو اپنی بیگم صاحبہ کے حوالے سے ان کے سابق شوہر کو جو ہے کلیئر کرتے کرتے وہ خود ایک مشکل میں نہ پھنس جائیں۔ جب ملاقات ہو گی پھر دیکھیں گے۔ ہو سکتا ہے وزیراعلیٰ اچھے ایڈمنسٹریٹر ثابت ہوں۔ آئی جی پنجاب کے تو کان پکڑوا دیئے ہیں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اور ان کو بہت ننگا کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آنے والے ایک دو ماہ میں وزیراعلیٰ کو بہت محتاط رویہ اختیار کرنا پڑے گا گزشتہ دنوں بعض واقعات ایسے ہوئے ہیں کہ وزیراعلیٰ صاحب شاید اپنے آپ کو کلیر کروائیں گے۔ بہر حال ابھی کافی وقت باقی ہے انہیں چاہئے کہ وہ بہت محتاط رویہ اختیار کریں۔ملک محمد علی نے کہا ہے کہ احسن جمیل ان کے دوست ہیں اور اسی حوالے سے انہیں لاہور بلوا لیا گیا لاہور خاور مانیکا کے لئے ابراہیم مانیکا نے جو ای میل بھیجی تھی۔ ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میں تو پہلے بھی حیرت کا اظہار کر چکا ہوں میری سمجھ میں تو بات آئی نہیں ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ اسی گیدڑ سنگھی ہے آصف زرداری کے پاس کہ وہ عین وقت پر مولانا فضل الرحمن کو کس طرح سے بٹھانے میں کامیاب ہو جائیں۔ بظاہر کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ یہ تو زرداری صاحب نے کہا کہ میرا کیس میں نام نہیں ہے اس میں عدالت کیا کہتی ہے عدالت پر منحصر ہے یہ تو کیس آگے بڑھے گا تو پھر ہی فیصلہ ہو گا۔ زرداری صاحب نے بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے ہیں۔ یہ جو موجودہ دعویٰ جو کر رہے ہیں بالآخر اعتزاز احسن ہی صدر بنیں گے بظاہر تو نظر نہیں آتا۔ کچھ آپ ہی روشنی ڈالیں کہ کیا عین وقت پر مولانا فضل الرحمن کو بٹھانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ کیا اعتزاز احسن کیلئے نون لیگ کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ زرداری صاحب نے یہ بیان کیسے دیا کہ اعتزاز احسن صدر بن جائیں گے؟ آپ اس پر کچھ روشنی ڈالیے؟
پیپلزپارٹی کے رہنما قمرالزمان کائرہ نے کہا کہ میں لالہ موسیٰ جبکہ زرداری صاحب کراچی میں، کس ضمن میں بات ہوئی میرے علم میں نہیں لیکن اگر وہ کہہ رہے ہیں تو یقینا ان کے پاس کچھ دلیل یا ریفرنس ہو گا، یہ یقینی بات ہے وہ سیاست کے بڑے اچھے کھلاڑی ہیں۔ ان کے پاس کچھ ہو گا تب ہی کہہ رہے ہیں۔ ضیا شاہد نے سوال کیا یہ ہی تو پوچھ رہے ہیں کہ کیا ہے؟ نون لیگ اعتزاز کی حمایت پر آمادہ نہیں ہو رہی، اگر مولانا صدر بن گئے تو بڑا مشکل ہو جائے گا۔ ان کو دینی نقطہ نظر سے بھی، مذہبی طور پر بھی لوگ ان کے خلاف ہیں؟ کائرہ نے کہا کہ پوری کوشش ہے کہ اعتزاز احسن جیتیں اگر کوئی پتا ہو بھی تو وہ اچانک واضح نہیں کر دیا جاتا، یہ درست نہیں۔ ضیا شاہد نے کہا کہ ایک عربی شاعرکا معروف کردار ہے ”عمر وعیار“ جس کی ”زنبیل“ بہت مشہور ہوا کرتی تھی اس میں سب کچھ ہی آ جاتا تھا، زرداری کا ماضی دیکھیں تو لگتا ہے ان کے پاس بھی کوئی ”زنبیل“ ہے، سابق حکومت کے دور میں وہ بلوچستان گئے تو وہاں اچانک ایسا چکر چلایا کہ دوسرے نمبر پر آ گئے اور پہلے نمبر پر آنے والے نے بھی ان کا شکریہ ادا کیا۔ مولانا فضل الرحمن اور اعتزاز احسن اگر دونوں ہی کھڑے رہے تو پھر کسی کے بھی جیتنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک بیٹھ جائے تو پھر دوسرے کے جیتنے کے امکانات ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بہت خوشی ہوئی جس طرح عمران خان نے کفایت شعاری سے کام شروع کیا ہے۔ وزیراعظم ہاﺅں میں نہ رہنے اور اخراجات کم کرنے کا کہا، اپنی حلف برداری تقریب پر سب سے کم خرچہ کیا جبکہ نواز و گیلانی کی حلف برداری تقاریب پر لاکھوں روپے خرچ کئے گئے۔ نوازشریف کے بچوں نے جو ہیلی کاپٹر استعمال کئے اس کے اخراجات ماہانہ کروڑوں روپے نکلتے ہیں۔ شریف خاندان مغل بادشاہوں کی طرح رہے، ان کے اخراجات کی ایک لمبی فہرست ہے۔ شریف خاندان کے بچوں نے بھی جو ہیلی کاپٹر استعمال کئے، قومی خزانے کو نقصان پہنچایا تو یہ قابل اعتراض تو ہے لیکن بدقسمتی سے یہ روایت بن چکی تھی۔
سابق چیئرمین واپڈا شمس الملک نے کہا کہ پاکستان جب تک انڈین لابی پر اپنے پانی کا انحصار رکھے گا، بھارت کوئی ریلیف نہیں دے گا۔ جب تک پاکستان عوام کی ضروریات کے مطابق اپنے پانے کے حوالے سے عیر جانبدارانہ فیصلے نہیں کرے گا ہم اسی طرح رہیں گے۔ سپریم کورٹ میں بھی کہا تھا کہ پاکستان نے اپنے پانی کے حقوق پر کبھی توجہ نہیں دی، اس پر اب قبضہ ہو چکا ہے۔ انڈین لابی نے اکٹھے ہو کر پاکستان کے ساتھ یہ گیم کھیلا ہے۔ بدقسمتی سے ذوالفقار بھٹو اور ایوب خان کے علاوہ جتنے بھی حکمران آئے ان میں ہمت نہیں تھی کہ پانی کے مسئلے پر بھارت سے ڈٹ کر بات کریں۔ سابق حکمرانوں پر پانی کے حقوق چھورنے پر مقدمے ہونے چاہئیں، باقی معاملات معمولی چیزیں ہیں۔