تازہ تر ین

منٹو نئی نسل کے پسندیدہ رائٹر کیوں ہیں؟آخر منٹو کا جادو سر چھڑھ ہی گیا

لاہور (ویب ڈیسک)جنوری 1948 میں منٹو ممبئی کی فلمی نگری چھوڑ کر لاہور چلے آئے۔ انھوں نے خود اشوک کمار پر لکھے جانے والے خاکے میں لکھا ہے کہ جب انھیں پتہ چلا کہ وہاں تعصب بڑھ رہا ہے تو: ‘میں نے اپنے آپ سے کہا، منٹو بھائی، آگے راستہ نہیں ملے گا، موٹر روک لو، ادھر باجو کی گلی سے چلے جاو¿۔ اور میں چپ چاپ باجو کی گلی سے پاکستان چلا آیا۔’منٹو اس سے قبل 12 سال تک فلمی صنعت سے وابستہ تھے اور اس دوران انھوں نے کئی مشہور فلم کمپنیوں کے لیے کام کیا۔ سینیئر صحافی رفیق بغدادی نے ممبئی کی سیر کا ایک پروجیکٹ شروع کیا ہے جس کے دوران وہ منٹو کی زندگی کی جھلکیاں دکھاتے ہیں۔وہ کہتے ہیں: ‘منٹو کی کہانی گرودت کی فلم ‘پیاسا’ سے ملتی جلتی ہے۔ جب تک زندہ تھے تو کسی نے نہیں پوچھا، جب مر گئے تو سب ان پر بات کر رہے ہیں۔’منٹو کے بارے میں بی بی سی سے مزید’خواہش ہے کہ ’منٹو‘ کی نمائش پاکستان میں بھی ہو‘غالب منٹو کی طوائف کی روشنی میںبغدادی کی یہ ‘منٹو یاترا’ گرانٹ روڈ سٹیشن کے قریب واقع مروان اینڈ کمپنی ہوٹل سے شروع ہوتی ہے اور کینوے ہاو¿س سے شروع ہوتی ہے، اور جناح ہال، کینیڈی پل، جیوتی سٹوڈیوز، الفریڈ ٹاکیز، کماٹھی پورہ سے ہوتےہوئے عرب گلی پر ختم ہوتی ہے۔منٹو کی زندگی اور کہانیوں میں ان سب جگہوں کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ ڈھائی گھنٹے طویل اس منٹو یاترا میں 30 کے قریب لوگوں نے شرکت کی جن کی اکثریت کا تعلق نئی نسل سے تھا۔نئی نسل کو منٹو کے بارے میں اتنا تجسس کیوں ہے؟اس کے بارے میں رفیق بغدادی بتاتے ہیں: ‘پرانی نسل منٹو کو زیادہ نہیں پڑھا کرتی تھی۔ ان کی تحریریں شجرِ ممنوعہ تھیں۔ اس دور میں بہت پابندیاں تھیں جو آج نہیں ہیں۔رفیق بغدادی نے منٹو کی زندگی کے بارے میں دلچسپ باتیں بتائیں’آج تعلیمی نظام بدل گیا ہے۔ آج کی نسل کو سمجھنے میں دقت نہیں ہوتی کہ منٹو نے ایسا کیوں لکھا۔’منٹو یاترا کے بارے میں بتاتے ہوئے بغدادی نے کہا کہ ‘ہم چاہتے ہیں کہ لوگوں کو اس شہر اور اس کی تاریخ کا پتہ چلے۔’



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv