تازہ تر ین

سینٹ الیکشن میں پیسہ چلا ہے تو چیئرمین کے لیے بھی چلے گا

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ چودھری سرور مجھے کئی مرتبہ برطانیہ میں ملتے رہے۔ یہ گلاسگو سے منتخب پارلیمنٹیرین تھے اس کے بعد مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں انہیں گورنر پنجاب کیلئے بلایا گیا تو گورنر بننے سے پہلے یہ میرے پاس دفتر میں تشریف لائے۔ میں نے پہلا سوال یہ کیا آپ کے پاس تو برطانوی شہریت تھے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ اس کا پرابلم ہو گا۔ لہٰذا میں نے وہاں کی شہریت ختم کر دی ہے۔ اس وقت کی اپوزیشن نے مسئلہ بہت اچھالا تھا۔ اگر ایسا مسئلہ ہوتا تو یہ گورنر نہیں رہ سکتے تھے۔ باقی تین لوگوں میں ہارون اختر، سعدیہ عباسی اور نزہت صادق ہیں۔ سنیٹر بننے کے بعد دوہری شہریت پر اس کے لئے مسئلہ ہو گا۔ لیکن ہو سکتا ہے انہوں نے کچھ نہ کچھ بندوبست کر لیا ہو۔ برطانوی شہریت چھوڑنا تا کہ پاکستانی شہریت واپس مل جائے یہ کوئی طویل کام نہیں ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز کا اقامہ سامنے آیا تو وہ حیران کن تھا، مریم نواز کے پاس گھریلو ورکنگ وومن کا اقامہ تھا۔ وہ یہ کام کر ہی نہیں سکتی۔ کسی نے کہا ہو گا کہ یہ فارم پر کر دو۔ انہوں نے کر دیئے۔ میں نے اس عربی کو دیکھا جس نے کہا کہ مریم نواز میرے پاس اقامے پر تھیں۔ ہمارے ہاں یہ ”کمپلیکس“ ہے۔ احسن اقبال، سعودی عرب کے اقامہ ہولڈر نکلے۔ خواجہ آصف دبئی کے نکلے۔ نوازشریف دبئی کے ملازم نکلے یہ سب لوگ ”مالی خولیا“ کے مرض میں مبتلا ہیں۔ شاید ان سب کو یقین نہیں ہے کہ یہ اچھے چال چلن کی بدولت پاکستان میں رہ نہیں پائیں گے اور کسی وقت بھی باہر جانا پڑے گا۔ لہٰذا انہوں نے پہلے سے بندوبست کر رکھا ہے۔ اقامہ کا فائدہ یہ ہے کہ اسے ویزہ نہیں لینا پڑتا۔ وہ ایئرپورٹ جاتا ہے اور فلائیٹ پر بیٹھ جاتا ہے اور وہاں جا کر لائن میں بھی نہیں لگتا۔ ان لوگوں کو یہاں اہم سیٹ مثلاً گورنر شپ، سنیٹر، وزیر وغیرہ مل جائے تو پاکستان کو اہمیت دیتے ہیں۔ ورنہ یہ اپنا اقامہ کیوں چھوڑیں گے۔ کوئی کینیڈا کا شہری ہے کوئی عرب ممالک کا شہری ہے کیا طاہر القادری کینیڈا کی شہریت چھوڑتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ہر کھاتا پیتا دوسرے ملک کا بھی شہری ضرور نکلتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی اکثریت ہے اصولاً تو ان کا ہی چیئرمین سینٹ بننا چاہئے۔ پہلے نام مشاہد حسین کا آیا پھر پرویز رشید کا نام آیا۔ پھر راجہ ظفر الحق صاحب کا نام آیا۔ چیئرمین سینٹ صدر کی غیر موجودگی میں قائم مقام صدر بھی ہوتا ہے۔ یہ ایک بڑے اعزاز کی بات ہے۔ ممکن ہے یہ قرعہ راجہ ظفرالحق کے نام نکلے۔ آصف زرداری جوڑ توڑ کے بادشاہ ہیں، وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔
راجہ ظفر الحق بہت اچھے، قابل اور ذہین آدمی ہیں، وہ وزیراطلاعات بھی رہ چکے ہیں۔ قانون بھی خوب جانتے ہیں۔ ہمارا ووٹ تو راجہ ظفر الحق کے حق میں ہے۔ ان سے ہی پوچھ لیتے ہیں کہ آیا وہ چیئرمین سینٹ بننے جا رہے ہیں یا نہیں۔ موجودہ سینٹ الیکشن نے ایک طریقہ سے سب کو ننگا کر دیا ہے، کسی جگہ پندرہ لوگ آزاد کامیاب ہو رہے ہیں لاہور میں چودھری سرور صاحب جن کے ووٹ بھی پورے نہیں ہوئے تھے۔ مسلم لیگ ن کے لوگوں نے انہیں ووٹ دے دیئے۔ زبیر گل صاحب جو لندن میں ہماری آﺅ بھگت کرتے تتھے۔ وہ نوازشریف کے معاملات سارے یورپ میں دیکھتے ہیں۔ وہ ہار گئے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کا تختہ ہو گیا۔ 4 میں سے ایک سیٹ ملی۔ پارٹیوں کے پابند رہنے کا کوئی قانون نہیں۔ ایک آواز یہ بھی آ رہی ہے کہ سینٹ کا الیکشن بھی اوپن ہونا چاہئے کہ خفیہ بیلٹ کا طریقہ کار ختم ہونا چاہئے۔ یہ تو جمہوری اصولوں کی خلاف ورزی ہے؟ کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ سیکرٹ بیلٹ ختم کر دیا جائے؟ کیا قوانین میں تبدیلی ہونی چاہئے؟ تا کہ یہ پیسوں کے ذریعے ووٹ نہ خریدے جا سکیں؟؟
عمران خان نے کیوں ووٹ نہیں ڈالا؟ اس کا جواب تو خود وہی دے سکتے ہیں ووٹ دینے والا جب یہ سمجھ لے کہ اگلے ووٹ ڈالنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ مثال کے طور پر ایم این ایز نے اسلام آباد کے دو سنیٹر منتخب کرنے تھے۔ دونوں سنیٹر مسلم لیگ ن کے تھے۔ عمران خان وہاں جا کر کس کو ووٹ دیتے۔ الیکشن میں ہارنا کوئی بے عزتی نہیں ہوتی۔ انہیں چاہئے تھا کہ اپنے امیدوار کھڑے کر دیتے۔ صدر کے لئے مقابلے کے وقت اپوزیشن اپنا امیدوار کھڑا ضرور کرتی ہے بیشک اسے 46 ووٹ ملیں۔ الیکشن کے انعقاد کے لئے امیدوار کو کھڑا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اپوزیشن کی غلطی کہ انہوں نے اسلام آباد کی سیٹیں پلیٹ میں رکھ کر مسلم لیگ (ن) کو پیش کر دیں۔ جب میں نوائے وقت میں ملازم ہوتا تھا۔ راجہ ظفر الحق اسلام آباد میں ہمارے وکیل ہوا کرتے تھے۔ ضیاءالحق کے دور سے قبل وہ ہمارے کیسز لڑا کرتے تھے۔ وہ شریف انسان ہیں۔ ان کے بارے کسی نے کوئی بری بات نہیں سنی ہو گی۔ کسی نے ان کی کرپشن کی بات نہیں سنی ہو گی۔ یہ شریف النفس انسان ہیں اگر یہ چیئرمین سینٹ بن جائیں تو ہمیں بہت خوشی ہو گی۔ سینٹ کی سیٹ کے لئے پیسہ چلا ہے تو یقینا چیئرمین کیلئے بھی پیسہ چلے گا۔ آصف علی زرداری اگر مل جائیں یعنی پی ٹی آئی + پی پی پی تقریباً مسلم لیگ ن کے برابر ووٹ بن جائیں گے۔ اس کے بعد میدان کھلا ہے۔ باقی گروپ کون اپنے ساتھ ملاتا ہے۔ کن شرائط پر بناتا ہے۔ اب یہ ”وارآف وٹس“ ہے کسی زمانے میں ایک کہاوت تھی کہ فلاں شخص مارکیٹنگ کا اتنا ماہر ہے یعنی سودے بازی اتنی اچھی کرتا ہے کہ وہ برفانی علاقوں یعنی ”اسکیموز کو فریج تک بیچ سکتا ہے۔ یعنی برفانی علاقوں میں برف بیچ سکتا ہے۔ وہ ایسے طریقے سے مارکیٹنگ کرتا ہے کہ لوگ اس کے شیشے میں اتر جاتے ہیں اور چیز خرید لیتے ہیں۔ خواہ انہیں ضرورت ہی نہ ہو۔ آصف زرداری تو ”جادوگر“ ہیں اور کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ جوں جوں وقت گزر رہا ہے نوازشریف اور مریم نواز کے لہجے میں تلخی اور غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ لگتا ہے کچھ نہ کچھ ضرور ہونے والا ہے۔ مریض جتنا مرض خود جانتا ہے کوئی بھی اتنا نہیں جانتا۔ میاں شہباز شریف کے گرد جس طرح گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ آج بھی پنجاب میں ایم پی ایز میاں شہباز شریف کے بہت وفادار ہیں اور اب بھی ان کا بہت کہنا مانتے ہیں۔ ایک زمانے میں تھیوری یہ چل رہی تھی کہ نوازشریف کے خلاف کارروائی ہوئی۔ اور شہباز شریف کو چھوڑ دیا جائے گا۔ اس وجہ سے شہباز شریف کو نامزد بھی کیا جا رہا تھا۔ کہ وہ پارٹی اور حکومت دونوں چلا سکیں۔ جب تک شہباز شریف سین پر موجود ہیں نواز شریف کو سزا دینے کا کچھ فائدہ نہیں۔ چودھری سرور صاحب آپ کو بڑی مبارک ہو! آپ نے مشکل سیٹ نکالی ہے۔ سب حیران ہیں کہ آپ نے ان کے بندے بھی توڑ دیئے ہیں۔ میں نے بتایا کہ جب گورنر نہیں بنتے میں نے آپ سے سوال کیا تھا کہ برطانوی شہریت کا کیا بنے گا۔ آپ نے کس طرح یہ ”چمت کار“ دکھایا ہے؟ نوازشریف جب پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے تھے تو شہباز شریف کو ”ڈپٹی پی ایم“ کہا کرتے تھے یہ ہروقت موجود رہتے تھے۔ اور اسلام آباد چلے گئے تھے۔ اور ان کے نائب کے طور پر کام کرتے رہے۔ صبح سے شام تک وزیراعظم کے کام بغیر کسی دفتر کے کئے اترتے تھے۔ ان کا بہت تجربہ ہے۔ میرےے خیال میں شہباز شریف جتنی ”پین“ جماعت کی لے سکتے ہیں پارٹی میں کوئی دوسرا نہیں لے سکتا۔ مجھے ایک مرتبہ ڈینگی کے چکر میں اتفاق ہوا ہر صبح سویرے پچاس ساٹھ بندوں کو بلا لیتے تھے جس میں آٹھ دس میڈیا والے بھی ہوتے تھے۔ ناشتہ بھی اپنے پاس کرواتے تھے۔ جس محنت سے اور عرق ریزی سے ان کو کام کرتے دیکھا ہے۔ کسی اور کو نہیں دیکھا۔ صبح سات بجے ہم جاتے تھے۔ اور گیارہ بجے فارغ ہوتے تھے۔ تمام رپورٹیں خود دیکھتے تھے۔ بریف کرتے تھے۔ گزشتہ روز ہونے والے احکامات پر عمل کا خود جائزہ لیتے تھے۔ حتیٰ کہ ایک ایک شخص کو پکڑ کر اس کے کام کے بارے سمجھاتے تھے۔ میں تو سات آٹھ دنوں کے بعد تھک گیا اور میاں صاحب سے کہا جناب میں رات کو دو بجے کے بعد سوتا ہوں، اخبار کا کام ہی ایسا ہے۔ اور صبح چھ بجے آپ بلا لیتے ہیں۔ میں تو تھک چکا اور آپ کو ”سو میں سے ننانوے نمبر دے دیتا ہوں۔“ مسلم لیگ (ن) کے راجہ ظفرالحق نے کہا ہے کہ انہیں چیئرمین سینٹ کے بارے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ قیادت ملکی حالات کو مدنظر ہی یہ اہم فیصلہ کرے گی۔ دوسری جماعتوں سے بھی بات چیت کی جائے گی۔ وقت آ گیا ہے کہ سینٹ ہی نہیں بلکہ قومی اسمبلی میں بھی مل بیٹھ کر بات کرنی چاہئے۔ اس کے علاوہ میڈیا کے لوگ آپ جیسے لوگ جنہوں نے ہر دور دیکھا ہے وہ محسوس کر رہے ہیں کہ پیسے کا اثررسوخ بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ اس سے اداروں کی عزت پر حرف آ رہا ہے۔ اس کا بہتر طریقہ اختیار کرنا چاہئے پیسے کے زور پر لوگوں کو کامیاب کروا لینا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ ان کی عزت احترام میں بھی فرق آ رہا ہے۔ الیکشن پیچیدگی کا سبب بن رہے ہیں۔ اس میں اصلاح کی بڑی ضرورت ہے۔ لوگ اپنے ووٹوں کی تصویریں بنا کر باہر لے جاتے تھے کہ دیکھو میں نے آپ کو ووٹ دیا ہے۔ اور فرض پورا کیا ہے آپ اب اپنا فرض پورا کریں۔ یا جو پیسے ملے تے اس کی قیمت ادا کر دی ہے۔ اب تو موبائل فون بھی اندر لے جانے کی اجازت نہیں۔ پارٹی کی پابندی بھی اب زیادہ موثر نہیں رہی۔ میں اس حق میں ہوں کہ اس پر اوپن بحث کروائی جائے۔ اصلاح کے بہت چانسز ہیں۔ ضرور ایسے اقدام کرنے چاہئیں تا کہ اصلاح ہو سکے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv