تازہ تر ین
zia shahid

ارکان اسمبلی پانی کا مسئلہ بھرپور طریقے سے ایوانوں میں اٹھائیں

لاہور (خصوصی رپورٹ) قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان پانی کے مسئلہ کو بھرپور طریقے پر ایوانوں میں اٹھائیں۔ اگر یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو 2030ءتک ہمیں پینے کیلئے بھی پوری طرح پانی میسر نہیں ہو سکے گا۔ یہ بات خبریں گروپ کے چیف ایڈیٹر ضیاشاہد نے سنیٹروں‘ قومی اور پنجاب اسمبلی کے ارکان کے نام ایک خط میں کہی ہے۔ خط کے مطابق پاکستان میں آبی وسائل دن بدن کم ہوتے جا رہے ہیں جس سے زراعت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ سندھ طاس معاہدے کا پس منظر بیان کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ معاہدے کے مطابق تین مشرقی دریا ستلج‘ بیاس اور راوی بھارت کے حصے میں آ گئے۔ ان دریاﺅں کا پانی بند ہونے کی وجہ سے تربیلا اور منگلا کی جھیلوں سے لنک کینالوں کے ذریعے پانی راوی اور ستلج میں ڈالا گیا جس سے پنجاب کے جنوبی حصوں بالخصوص سابق ریاست بہاولپور کے تینوں اضلاع میں پانی کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے اور برسوں سے مشرقی دریاﺅں میں پانی کا بہاﺅ نہ ہونے کے سبب زیرزمین پانی کی سطح بہت نیچے چلی گئی ہے۔ جب تک دریا چلتے تھے‘ پانی 10سے 20 فٹ نیچے مل جاتا تھا‘ اب صرف لاہور میں واسا کے ٹیوب ویل 650 فٹ کی گہرائی سے پانی کھینچ رہے ہیں اور آخری ٹیوب ویل شاید 1300 فٹ کی گہرائی سے بھی نیچے پہنچ گیا ہے۔ ستلج اور راوی میں سیوریج کا پانی چھوڑنے کے سبب ماحولیات میں آلودگی آ گئی ہے اور جا بجا گندے پانی کی صاف پانی میں آمیزش سے یرقان‘ جگر اورگردے جیسی مہلک بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ میں نے اس سلسلے میں گزشتہ دنوں پاکستان کے مختلف متاثرہ شہروں اور علاقوں کے دورے کیے۔ ملتان‘ بہاولپور‘ حاصلپور‘ بہاولنگر اورگنڈا سنگھ قصور کے علاوہ نارووال میں جہاں دریائے راوی پاکستان میں داخل ہوتا ہے‘ خود پہنچا اور ستلج اور راوی کی مکمل بندش سے پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ لیا۔ میرے آبائی علاقے ہارون آباد اور بہاولنگر میں صورتحال خوفناک حد تک متاثر ہو چکی ہے اور عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق 2030ءمیں پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہو گا جو پانی کی شدید کمی کا شکار ہوں گے۔ پینے کا پانی کم ہو جائے گا اور قحط سالی کی کیفیت پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ یہ خیال غلط ہے کہ ہم نے ستلج‘ بیاس اور راوی کا پانی بھارت کو بیچ دیا تھا کیونکہ انڈس واٹر ٹریٹی دریاﺅں کے بیچنے کا نہیں بلکہ دریاﺅں کے زرعی پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہے اور اس معاہدے کے تحت دریائی پانی کے 4 استعمال بتائے گئے ہیں۔ زرعی پانی‘ جس کی تقسیم کے مطابق ستلج بیاس اور راوی بھارت کے حصے میں آئے اور چناب‘ جہلم اور سندھ پاکستان کے حصے میں لیکن پانی کے دیگر 3 استعمال یعنی گھریلو پانی بشمول پینے کا پانی‘ آبی حیات یعنی مچھلیوں وغیرہ کے لیے پانی اور ماحولیات یعنی دریاﺅں کے گرد سبزے ‘ درخت اور پودوں وغیرہ کے لیے جو ہوا کو صاف رکھ سکیں‘ ان تینوں استعمال کے پانی کو نہ تو فروخت کیا اور نہ ہی کوئی ڈیل کی گئی لہٰذا ستلج‘ بیاس اور راوی میں سے زرعی پانی بھارت کے حصے میں آیا تھا مگر پانی کے 3 دیگر استعمال یعنی گھریلو پانی‘ آبی حیات اور ماحولیات کا پانی بھارت 3 مشرقی دریاﺅں کی حد تک 100 فیصد بند نہیں کر سکتا اور اسے ان تینوں استعمال کے لیے 3 پاکستانی دریاﺅں میں پانی چھوڑنا پڑے گا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہم 2 بار عالمی عدالت میں پانی کے سلسلے میں گئے اور دونوں بار ناکام ہوئے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں مقدمے جو ہم نے کیے وہ ہمارے دو دریاﺅں پر چھوٹے ڈیم بنا کر پانی روکنے کے سلسلے میں دائر ہوئے۔ ستلج‘ بیاس اور راوی کا پانی 100 فیصد بند کرنے کے سلسلے میں اورگھریلو استعمال یعنی پینے کے پانی‘ آبی حیات اور ماحولیات کے لیے ضروری پانی کے ضمن میں نہ تو انڈس وائر ٹریٹی 1960ءکے تحت ہم بھارت کیخلاف عالمی عدالت میں گئے اور نہ ہی پاکستان کے خلاف بھارت نے کوئی مقدمہ جیتا۔ آخری گزارش یہ ہے کہ پاک بھارت معاہدہ انڈس واٹر ٹریٹی 1960ءمیں ہوا تھا جبکہ 1970ءمیں دنیا میں ایک بڑی تبدیلی آئی اور انٹرنیشنل واٹر کنونشن منعقد ہوا جس میں یہ طے پایا کہ اگر کوئی دریا ایک سے زائد ملکوں میں بہتا ہے تو بالائی حصے پر قابض ملک زیریں حصے کے قابض ملک کا پانی بند نہیں کر سکتا۔ ان کنونشن میں ماحولیات کی اصطلاح کے تحت پینے‘ آبی حیات اور ہوا کو صاف رکھنے کے لیے نباتات‘ جنگل وغیرہ کے لیے ضروری پانی کے بارے میں قانون بنا کر اسے بند نہیں کیا جا سکتا۔ ہم آج بھی 1970ءکے انٹرنیشنل واٹر کنونشن کے فیصلوں کے مطابق جسے اقوام متحدہ کی منظوری حاصل ہے‘ بھارت سے یہ مطالبہ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ستلج‘ بیاس اور راوی کا پانی 100 فیصد بند نہیں کر سکتا اور اسے پینے‘ آبی حیات اور ماحولیات کے لیے ہمارے حصے کا پانی چھوڑنا ہو گا۔ اگر بھارت حسب معمول کشمیر کی طرح ہماری اس گزارش پر بھی توجہ نہ دے تو ہمیں یہ مسئلہ لے کر حکومتی سطح پر انٹرنیشنل کورٹ میں جانا چاہئے۔ اگر حکومت توجہ نہ دے تو شہریوں کو مل کر عالمی عدالت کا رخ کرنا چاہئے جیسا کہ آئی پی پیز یعنی بجلی پیدا کرنے والے پرائیویٹ اداروں نے حکومت پاکستان سے ادائیگی نہ ہونے پر عالمی عدالت کا رخ کیا تھا۔ انہوں نے ارکان اسمبلی کو نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں بھارت کی آبی دہشتگردی کی نقل بھی بھیجی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ارکان اسمبلی اپنے طور پر پاکستان اور بالخصوص صوبہ پنجاب میں پانی کی بڑھتی ہوئی کمی کے پیش نظر کوئی تجویز یا مشورہ ذہن میں آئے تو ہمیں آگاہ کریں اور پنجاب اسمبلی اور وفاقی اسمبلی میں اس مسئلے کے لیے آواز بلند کریں جو ایک پاکستانی اور منتخب عوامی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے آپ کا فرض بنتا ہے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv