لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے پروگرام” آج پاکستان میں“ گفتگو کرتے ہوئے سابق سفیر برائے افغانستان رستم شاہ مہمند نے کہا ہے کہ چمن حملے میں مردم شماری کی ٹیم کو نشانہ بنانے کا الزام مناسب نہیں،اسکی کوئی اور وجہ ہوسکتی ہے، اس پر ایک جوائنٹ انوسٹی گیشن کمیشن بنانا چاہئے تھا، الزام لگانا آسان ہے، پاک افغان دونوں ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں، نتیجے میں درجنوں لوگ مارے جاتے ہیں، جو افسوسناک ہے، پاکستان وافغانستان دونوں کوملکر ایک دوسرے کے تحفظات دور کرنے چاہئیں، انہوںنے کہا کہ افغانستان کے متنازعہ بارڈرکا مسئلہ کبھی رسمی طور پر کسی عالمی پلیٹ فارم پر نہیں اٹھایا، اگر ایسا کرے تو پاکستان بھی جواب دیگا۔ دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل(ر) محمد جاوید نے کہا ہے کہ بھارت، امریکہ وافغانستان ایجنسیز افغانستان میں موجود ہیں جوپاکستان کو غیر مستحکم کرنے کیلئے منصوبہ بندی کرتی ہیں، عرصہ دراز سے یہ معاملات چلتے آرہے ہیں، پاکستان ایک مضبوط ایٹمی ملک ہے، افغانستان جارحیت کا بھر پور جواب دینا چاہئے، بھارت کی بھی مکمل طور پر پاکستان میں مداخلت موجود ہے، افغانستان کے پاس کچھ نہیں ہے، وہ صرف اپنے منفی رویئے سے بھارت و امریکہ کے کہنے پر دباو¿ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے، پاکستان نے جب سے بارڈر مینجمنٹ میں بہتری لانے کی کوشش شروع کی ہے، افغان مزاج بگڑ رہا ہے، چار دہائیوں سے40 لاکھ افغانستان مہاجرین پاکستان کے مہمان میں اگر افغانستان کو اعتراض ہے تو افغان مہاجرین کو اعتراض کیوں نہیں، بھارت کی افغانستان سے انسبت ہے تو وہ بھی کچھ افغان مہاجرین کو اپنے ملک میں مہمان بنائیں، تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمود شاہ نے کہاہے کہ افغان ہمیشہ سے ناقابل اعتبار رہاہے، ہمیں اشرف غنی کو مدعو کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، افغان رویئے کو سمجھتے ہوئے بہتر پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے، افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے میں مسئلہ کا حل ہے،عالمی سطح پر اس حوالے سے آواز اٹھانی چاہئے، پاکستان کو اتنے منفی رویئے کے بعد مفاہمت کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں، تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل(ر) نعیم خالد لودھی نے کہا ہے کہ افغانستان میں اثرو رسوخ امریکہ وبھارت کا ہے، وہاں عوام کی نمائندہ حکومت نہیں، افغانستان میں زیادہ علاقے پر طالبان کا قبضہ ہے، افغان حکومت وعوام کو ایک نہیں سمجھنا چاہئے، انہوں نے کہا کہ ملک و فوج کیلئے سعودی عرب کا اتحاد فورس کی سربراہی کیلئے جنرل(ر) راحیل شریف کو بلانا فخر کی بات ہے، لیکن ابھی اس فورس کے بارے وضاحت سامنے نہیں آتی کہ وہ کس کا حکم مانے گی اور کس کے خلاف جائے گی، ابھی اسکا فیصلہ ہونا ہے اگر یہ سعودی عرب کے ہاتھ سے نکل کر سنٹرل اسلامک کونسل کے پاس آجائے تو ٹھیک ورنہ راحیل شریف کو جلد سے جلد واپس آجاناچاہئے۔