اسلام آباد(خصوصی رپورٹ)وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے مابین ملاقات ممکنہ طور پر بدھ کو کسی بھی وقت متوقع ہے، جس میں ڈی جی آئی ایس پی آر کے حالیہ متنازع ٹوئٹ سے پیدا ہونے والی صورتحال پر بے تکلفانہ تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ باخبر ذرائع کو توقع ہے کہ ملاقات سے مسئلے کو حل کرنے میں مدد ملے گی کیونکہ دونوں فریقوں میں سے کوئی بھی صورتحال کو مزید خراب کرنے کا خواہش مند نہیں ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے ٹوئٹ نے نہ صرف اندرون ملک سول اور ملٹری کو تنازع میں گھسیٹ کر سنگین تنازع پیدا کر دیا ہے بلکہ اس سے غیرملکی میڈیا خاص طور پر بھارتی میڈیا کو بھی پاکستان کے خلاف پروپگنڈا کرنے کا موقع ملا ہے۔ فوج کے ترجمان کی جانب سے متازعہ ٹوئٹ کے بعد فوج کی جانب سے ان مسائل پر کوئی سرکاری بیان نہیں آیا ہے، جس کی وجہ سے میڈیا میں سرخیاں بننے کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومت کی جانب سے وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے ٹوئٹ کے چند گھنٹوں کے اندر کہا تھا کہ ٹوئٹ جمہوریت کے لئے ہلاکت خیز ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ اداروں کو ٹوئٹ کے ذریعے ایک دوسرے سے بات نہیں کرنی چاہیے۔وزیراعظم نے سرعام اس مسئلے پر بات کرنے سے گریز کیا ہے۔ زیادہ تر لیگیوں کی طرح وزیراعظم بھی کہا جاتا ہے کہ ٹوئٹ پر پریشان ہیں لیکن وہ اپنا ردعمل عوام کے سامنے نہیں دینا چاہتے۔ گزشتہ اتوار کو وزیراعظم نواز شریف نے لاہور میں ایک اعلی سطح کا اجلاس طلب کیا تھا تاکہ ڈان لیکس کے اعلامیے سے متعلق تنازع پر تبادلہ خیال کیا جاسکے۔ گزشتہ ہفتے کے روز وزیراعظم کے دفتر نے ایک انتظامی حکم جاری کیا تھا جس میں وزیراعظم کی منظوری دی گئی تھی اور چار وفاقی وزرا کے لئے ڈان لیکس کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کے لئے چار وفاقی وزارتوں کو ہدایت دی گئی تھی۔ وزیراعظم کے آرڈر پر میڈیا کے تبصروں کے چند گھنٹوں کے اندر ہی ڈی جی آئی ایس پی آر نے ٹوئٹ کیا: ڈان لیکس پر اعلامیہ نامکمل ہے اور انکوائری بورڈ کی سفارشات سے مطابقت نہیں رکھتی۔اعلامیے کو مسترد کیا جاتا ہے۔ اس ٹوئٹ نے کئی لوگوں کو حیرت میں مبتلا کر دیا کیونکہ اس میں چیف ایگزیکٹو کے آرڈر کو مسترد کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے یہ مسئلہ میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گیا اور کئی افراد نے اس تشویش کا اظہار کیا کہ سول اور فوج کے درمیان اس طرح کی سنگین کشیدگی سے پاکستان کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اگرچہ چند سیاستدان اپنے چھوٹے سیاسی فائدے کے لئے آگ کو بھڑکانے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن ہوشمند عناصر نے وزیراعظم اور آرمی چیف سے جلد از جلد ملاقات کرنے اور اپنی آئینی حدود کے اندر کام کرنے پر اتفاق کر کے کشیدگی کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔