واشنگٹن(خصوصی رپورٹ)سوشل میڈیا کا مقبول ترین ذریعہ فیس بک کے پاکستان میں 2کروڑ80لاکھ صارفین ہیں نے کہا ہے کہ پاکستان میں ریاست مخالف اور مذہبی منافرت سے متعلق مواد کا بغور جائزہ لے رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے متنازعہ مواد کو ختم کرنے میں حکومت پاکستان کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کرنے کو تیار ہیں۔ فیس بک کے ترجمان نے بتایا کہ کمپنی حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے اور توہین مذہب سے متعلق قوانین پر پوری طرح عملدرآمد یقینی بنانے میں معاونت کر رہے ہیں۔ فیس بک کے سرکاری طورپر جاری شدہ ڈیٹا کے مطابق کمپنی 2013 سے اب تک پاکستان میں توہین مذہب اورریاستی قوانین کے خلاف مواد پرمبنی1864 متنازعہ حصے بلاک کر چکی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ پاکستان نے گزشتہ تین سالوں میں کمپنی سے 3963اکاﺅنٹس کے بارے میں ڈیٹا فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔ بیشتر کیسز میں فیس بک حکام نے پاکستان کو نہ صرف معاونت فراہم کی بلکہ حکام کو ڈیٹا بھی فراہم کیا۔ فیس بک کی ایک سرکاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی(پی ٹی اے)اور ایف آئی اے کی درخواست پر ہم نے مبینہ طور پر ریاست اور مذہب سے متصادم مواد تک رسائی پر پابندی عائد کر دی ہے، فیس بک کے فراہم کردہ تازہ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کی طرف سے2016کے آخری چھ ماہ کے دوران 1002ایسی درخواستیں آئیں جن میں 1431سوشل میڈیا ویب سائٹ کے صارفین کے بارے میں معلومات مانگی گئی تھیں، کمپنی نے اس کے جواب میں دو تہائی درخواستوں پر عمل کیا۔ فیس بک انتظامیہ نے ان چھ ماہ کے دوران مبینہ طور پر توہین مذہب پر مبنی مواد کے 6حصوں پر بھی پابندی لگا دی۔ گزشتہ کچھ سالوں کے دوران حکومت پاکستان کی درخواست پر متنازعہ مواد تک رسائی کے کام میں تیزی آئی ہے۔2013 میں پی ٹی اے اور ایف آئی اے نے 210فیس بک اکاﺅنٹس کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی درخواست بھیجی، جواب میں فیس بک انتظامیہ نے اس پر 50فیصد عمل کیا اور معلومات فراہم کر دی۔2014 میں حکومت پاکستان نے 312فیس بک صارفین کے متعلق معلومات کی درخواستِ کی تاہم کمپنی نے اس بار بھی50فیصد پر عمل کیا۔ کمپنی نے اس سال متازعہ مواد کے 1827حصے بلاک کر دیئے جو گزشتہ چار سالوں میں تعداد کے اعتبار سے سب سے زیادہ تھے۔ 2015میں پاکستان کی حکومت نے فیس بک انتظامیہ سے 981اکاﺅنٹس کے بارے میں معلومات مانگی جس میں کمپنی نے 60فیصد کیسز میں معلومات دی گئی۔ مزید براں یہ کمپنی نے اس سال توہین مذہب سے متعلق60 متنازعہ صفحات بلاک کر دیئے۔2016میں حکومت پاکستان نے 2460صارفین سے متعلق کمپنی سے معلومات مانگی تاہم 66فیصڈ کیسز میں تعاون کیا گیا،اس سال کمپنی نے توہین مذہب اور دیگر متنازعہ مواد پر مبنی31صفحات کو بلاک کردیا۔ فیس بک پر جاری ہونے والے متازعہ مواد پر پابندی کی درخواست کرنے والا پاکستان واحد ملک نہیں ہے پاکستان ان 10ملکوں میں سرفہرست ہے جو سرکاری سطح پر سوشل میڈیا نیٹ ورک پر دباﺅ ڈال کر ریاست یا مذہب سے متصادم مواد شائع کرنے والے صارفین کے بارے میں معلومات طلب کرتا ہے۔2016کے آخری چھ ماہ کے دوران اس نوعیت کی سب سے زیادہ درخواست کرنے والوں میں امریکہ پہلے اور بھارت دوسرے نمبر پر ہے۔ فیس بک انتظامیہ کے مطابق امریکہ نے 41492صارفین کے بارے میں جبکہ بھارتی حکومت نے 9932فیس بک اکاﺅنٹس کے بارے میں معلومات کی درخواست کی تھی۔امریکہ نے کسی بھی طرح کے مواد کو بلاک کرنے کی درخواست نہیں کی تھی جبکہ بھارت نے ریاستی قوانین سے متصادم مواد کے 719حصے بلاک کرنے کی درخواست کی۔ فیس بک انتظامیہ کاعالمی حکومتوں کے ساتھ تعاون کی پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ہم صرف سنجیدہ اور مجرمانہ کیسز پر ہی تعاون فراہم کرتے ہیں ہمیں جو بھی درخواست موصول ہوتی ہے اس کا بغور جائزہ لیتے ہیں جس کے بعد اس کے موزوں یا ناموزوں ہونے کے پیش نظر اسے قبول یا مسترد کر دیا جاتا ہے۔ بیشتر درخواستیں مجرمانہ کیسز سے متعلق ہوتی ہیں عموما یہ ڈکیتی اور اغوا پر مبنی ہوتی ہیں ان میں حکومت اکثر سبسکرائبر انفارمیشن کی درخواست کرتی ہے۔ جس میں یوزر کا نام اور سروس کی طوالت کے بارے میں پوچھا جاتا ہے، عموما صارف کا آئی پی ایڈریس لاگ یا اکاﺅنٹ ایڈریس بھی مانگا جاتا ہے۔ ترجمان نے بتایا کہ کمپنی پاکستان میں اپنے صارفین کو ان طریقوں سے آگاہ رکھتی ہے جن کو بروئے کار لا کر وہ اپنا ڈیٹا محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ کمپنی کا کہنا تھا کہ وہ اپنے پاکستانی صارفین میں فیس بک مواد کے بارے میں پائے جانے والے عدم تحفظ کے احساس سے بھی واقف ہے خاص طور پر مردان یونیورسٹی میں سٹوڈنٹ مشال خان کے مبینہ طور پر توہین رسالت کے الزام میں قتل ہونے کے واقعہ کے بعد یہ بات زیادہ کھل کر سامنے آئی ہے۔کمپنی کامزید کہنا تھا کہ پاکستان میں اپنے صارفین کو پرامن اور تحفظ بھرپور ماحول فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ترجمان فیس بک نے بتایا کہ کسی بھی طرح کا جعلی اکاﺅنٹ کمپنی کے اصولوں کے منافی ہے کمپنی نے اپنے نمائندوں کو جعلی اکاﺅنٹس کی کھوج لگانے کا ٹاسک دیا ہوا ہے اور ایسے تمام مصنوعی اکاﺅنٹس کو فوری طور پر بلا کرنے کے بھی اختیارات دیئے گئے ہیں۔