تازہ تر ین

اردو عربی میں ماسٹر ڈگری ہولڈر عظیم قوال

عزیز میاں قوال
پرائیڈ ا آف پرفارمنس عزیز میاں قوال کا 75 واں یوم پیدائش منایا گیاعزیز میاں قوال کا شمارپاکستان کے چند مقبول ترین قوالوں میںہوتا ہے۔سترہ اپریل 1942 کو بھارتی شہر دہلی میں پیدا ہونے والے عزیز میاں قوال کو بچپن سے ہی قوالی شوق تھا۔
ان کا اصل نام عبدا لعزیز تھا۔ “میاں” ان کا تکیہ کلام تھا، جو وہ اکثر اپنی قوالیوں میں بھی استعمال کرتے تھے، جو بعد میں ان کے نام کا حصہ بن گیا۔ انہوں نے اپنے فنی دور کا آغاز “عزیز میاں میرٹھی” کی حیثیت سے کیا۔ میرٹھی کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد عزیز میاں نے بھارت کے شہر میرٹھ سے اپنے وطن کی طرف ہجرت کی تھی۔
عزیز میاں قوال نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے عربی ، فارسی ادب اور اردو ادب میں ماسٹرز ڈگریاں حاصل کیں۔انھوں نے استاد عبدالوحید سے فن قوالی سیکھا اور مختصر عرصہ میں دنیا بھر میں اپنی منفرد شناخت بنانے میں کامیاب ہوگئے
قوالی کو عزیز میاں قوال نے ایک نئی جدت سے روشناس کروایا۔عزیز میاں قوال اپنی بیشتر قوالیاں خود لکھتے اور ان کی موسیقی بھی ترتیب دیتے تھے۔جو سامعین پر گہرا اثر چھوڑ جاتی تھی۔انہیں اپنے ابتدائی دور میں “فوجی قوال”
کا لقب ملا کیونکہ ان کی شروع کی سٹیج کی بیشتر قوالیاں فوجی بیرکوں میں فوجی جوانوں کےلئے تھیں۔ شاید اسی وجہ سے ان کی قوالیوں میں ایک فوجی رنگ بھی نظر آتا ہے۔ ان کی آواز بارعب اور طاقتور تھی۔ لیکن ان کی کامیابی کا راز صرف ان کی آواز نہیں تھی۔ عزیز میاں نہ صرف ایک عظیم قوال تھے بلکہ ایک عظیم فلسفی بھی تھے، جو اکثر اپنے لیے شاعری خود کرتے تھے۔ عزیز میاں نے پنجاب یونیورسٹی، لاہور سے اردو اور عربی میں ایم اے کیااوراستاد عبدالوحید سے فنِ قوالی سیکھی۔ان کی پرفارمنس کے دوران سامعین ان کے کلام کے جادو میں اسے مسحور ہو جاتے تھے کہ انہیںوقت کے گزرنے کا معلوم نہیں ہوتا تھا۔ انکی قوالیوں میں فلسفے کا ایک الگ رنگ ڈھنگ تھا جو ان کی قوالی ایک بار سن لیتا تھا وہ ان کا دلدادہ ہو جاتاتھا۔ جس کے باعث نہ صرف ملک بلکہ بیرون ملک بھی ان کے مداحوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہیں۔ مختلف قسم کے معمولی الزامات پر انہیں کئی دفعہ گرفتار
کیا گیا لیکن بعدازاں بری کر دیا گیا۔عزیز میاں کی قوالیوں میں زیادہ توجہ کورس گائیکی پر دی جاتی تھی جس کا مقصد قوالی کے بنیادی نکتہ پر زور دینا تھا۔ عزیز میاں کو شاعری پڑھنے میں کچھ ایسی مہارت حاصل تھی جو سامعین پر گہرا اثر چھوڑ جاتی تھی۔ ان کی بیشتر قوالیاں دینی رنگ لیے ہوئے تھیں گو کہ انہوں نے رومانی رنگ میں بھی کامیابی حاصل کی تھی۔ عزیز میاں کی مقبول ترین قوالیاں “میں شرابی میں شرابی” (یا “تیری صورت”) اور “اللہ ہی
جانے کون بشر ہے” شامل ہیں۔
عزیز میاں کو اپنی قوالیوں میں دینی اور صوفی مسائل پر بحث کرنے میں مہارت حاصل تھی۔ وہ براہ راست خدا سے ہم کلام ہوتے اور اشرف المخلوقات کی قابل رحم حالت کی شکایت کرتے۔ خدا سے ہم کلام ہونے والی قوالیوں میں وہ زیادہ تر علامہ اقبال کی شاعری استعمال کرتے۔ مثلا عزیز میاں کے مندرجہ ذیل پسندیدہ اشعار پڑھئے:
باغِ بہشت سے مجھے اذنِ سفر دیاتھا کیوں
کارِجہاںدرازہے اب میراانتظارکر
مجھے تواس جہاںمیںبس اک تجھی سے عشق ہے
یامیراامتحان لے یامیرااعتبار کر
صابری برادران نے عزیز میاں کی قوالی “میں شرابی میں شرابی” کو اپنی ایک قوالی “پینا وینا چھوڑ شرابی” میں تنقید کا نشانہ بنایا۔ عزیز میاں نے اس کا ترکی بہ ترکی جواب اپنی ایک اور قوالی “ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں” میں دیا۔ عزیز کے صابری برادران کو جواب کے بعد سے “میں شرابی میں شرابی” اور “ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں” کو ایک ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔1966میں شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے سامنے یادگار پرفارمنس پر انعام و اکرام سے نوازا گیا۔ان کی ابتدائی پرفارمنس فوجی بیرکس میں فوجی جوانوں کے لئے ہونے کے باعث بعض افراد نے ان کو فوجی قوال کا نام بھی دیا۔ 6 دسمبر 2000 کو بیماری کے باعث جہان فانی سے کوچ کر گئے لیکن ان کی قوالیاں آج بھی ان کی یاد تازہ کر دیتی ہیں۔
٭٭٭



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv