اسلام آباد(آئی این پی ) پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے سربراہ وسابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ میاں صاحب کو تھکا کر ہرانا ہے ہیرو نہیں بنانا وہ کافی تھک چکے ہیں مزید ہم تھکائیں گے ،اگلے جلوسوں میں گونوازگوکے نعرے لگیں گے ،میاں صاحب کا مزاج ہے کہ مشکل میں نہ ہوں تو رابطہ نہیں کرتے ، میں نے بھی اس لئے نہیں کیا کہ ڈیل کا الزام لگ جاتا ، (ن) لیگ سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے صرف سیاسی میدان میں ہی پنجہ آزمائی ہوگی ،میرے دوستوں کو اس لئے اٹھایا گیا تاکہ جو میری طرف آرہے ہیں انہیں ڈرایا جا سکے ، میرے دور میں ایجنسیاں سویلین کوہاتھ نہیں لگاتی تھیں ، دوستوں کے اغوا کی ایف آئی آر چوہدری نثار کے خلاف کٹواﺅں گا ، جتنے بھی دوست اغوا ہو جائیں کوئی فرق نہیں پڑتا انتخابی مہم چلائیں گے ،اے ڈی خواجہ اچھاہے توکیادوسرے برے ہیں ،قبل از وقت دھاندلی کرنے کےلئے اے ڈی خواجہ کو آئی جی بحال رکھے جانے کی کوششیں ہو رہی ہیں ،لاڑکانہ میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے ، کراچی کے کچرے کا ذکر کرنے والوں کو لاہور موچی گیٹ پر پڑا کچرا کیوں نظر نہیں آتا ، (ن) لیگ آئندہ سال تو کیا کبھی بھی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ نہیں کرسکتی اس لئے کہ سارے منصوبے ان کے اپنے یا دوستوں کے ہوتے ہیں ،صدر کا امیدوار نہیں ہوں ، وزیراعظم کے امیدوار کا فیصلہ پارٹی کے چیئرمین کریں گے ،کہا تھا کہ آپ تین سال ہم ساری عمر رہیں گے وہی ہوا ، اسٹیبلشمنٹ کو کبھی نہیں چھیڑا ،مودی کی انتہا پسندانہ سیاست زیادہ دیر نہیں چلے گی جب تک بی جے پی کی حکومت ہے پاکستان کو بھارت سے مذاکرات نہیں کرنے چاہیئں۔ وہ نجی ٹی وی کو انٹرویو دے رہے تھے ۔ اس موقع پر چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری ، قمر زمان کائرہ اور دیگر رہنما بھی موجود تھے ۔سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ آج میں صدر ہونے کی نسبت زیادہ آزاد ہوں ، بطور صدر سیکیورٹی رسک کی وجہ سے بڑی پابندیاں تھیں کہ یہاں نہ جاﺅ، وہاں نہ جاﺅ، سریا کے معاملے پر دفتر خارجہ کی اور رائے تھی تاہم میں نے اپنے موقف پر اسٹینڈ لیا، اسٹیبلشمنٹ نے بھی میرے موقف کی تائید کی ، اسٹیبلشمنٹ میری زیادہ تر رائے ما ن لیا کرتی تھی ، پیپلزپارٹی کی حکومت خارجہ پالیسی کے معاملے پر عسکری قیادت سے رائے لیتی تھی، ایسا ہر ملک میں ہوتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ کلبھوشن یادیو کو سزائے موت دینے کا فیصلہ درست ہے ، وہ جاسوس تھا، وہ ہمارے ملک میں کیا لینے آیا تھا، ہم اگر کسی جاسوس کو پکڑیں گے تو بلاشبہ اس کو سزا دیں گے ، جاسوس کی سزا موت ہی ہوتی ہے ، کلبھوشن کراچی اور بلوچستان میں تباہی پھیلانے میں ملوث رہا ہے ، اس کو سزائے موت دینا ہمارا حق بنتا ہے ۔ آصف زرادری نے کہاکہ پیپلزپارٹی کی جنرل پالیسی یہ ہے کہ پھانسی کی سزا نہیںہونی چاہیے تاہم دشمنوں کےلئے ایسا نہیں ہے ، میں نے اپنے زمانے میں 16ہزار پھانسیاں روک دی تھیں تاہم جاسوس اور ملک دشمنوں کو سزائے موت دینے کی مکمل حمایت کرتے ہیں ، بھارت کی موجودہ حکومت گاندھی کو مارنے والوں سے اپنی شناختبناتی ہے ، اس حکومت نے انتہا پسندی کی حد کرتے ہوئے گائے کا گوشت کھانے پر موت کی سزا رکھ دی ہے ، جب بھارت نے طے کر لیا ہے کہ پاکستان کے قانون کو نہیں ماننا تو ایسے ملک سے تعلقات بہتر کر کے کیا کریں گے ، میں نہیں سمجھتا کہ مودی کی انتہا پسند سیاست اور پالیسی زیادہ چلے گی، جب تک مودی کی انتہا پسند حکومت موجود ہے پاکستان کو بھارت سے مذاکرات نہیں کرنے چاہئیں ۔انہوں نے کہا کہ میں ہر ہفتے تقریباً دو کتابیں پڑھتا ہوں ، کتاب پڑھے یا سنے بغیر سو نہیں سکتا، جب تنہائی محسوس کرتا ہوں تو کتاب پڑھنا شروع کر دیتا ہوں ، آج کل”اسٹریٹجی آن وار“ کتاب سن رہا ہوں ۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ بچوں کے بغیر زندگی نہیں ہوتی تاہم کسی بھی چیز سے اتنا زیادہ پیار بھی اچھا نہیں ہوتا، جب بلاول اور بختاور پیدا ہوئے تو میں انہیں اٹھایا نہیں کرتا تھا جس پر بی بی شہید سوال کرتی تھیں کہ اٹھاتے کیوں نہیں ہو ، میں کہتا تھا کہ جتنا ان کو قریب لگاﺅ گے یہ اتنا ہی گلے لگیں گے تاہم جب چھوٹی بیٹی آصفہ پیدا ہوئی تو اسے میں نے بہت گلے سے لگایا ، آج کے دور میں دل کی بات کسی سے نہیں کی جا سکتی ، مولا کا کرم ہے ہر وقت خوش رہتا ہوں ۔انہوں نے کہا کہ بھنڈی ، دالیں ، چاول اور روٹی بچپن سے کھاتا آرہا ہوں ، من پسند کھانے ہیں ، بکری کا دودھ کبھی پیتا تھا ، اب جب کبھی موقع ملتا ہے تو اونٹنی کا دودھ پیتا ہوں ، ہماری شناخت ہی اونٹنی ہے ، میں خود جوانی میں ٹریکٹر اور بیل چلاتا رہا ہوں ، خود کھیتی باڑی بھی کرتا رہا ہوں ، ہمارے دور میں کسان غریب نہیں تھا ، ہم زمیندار کو ان کی فصل کا مناسب معاوضہ دیتے تھے تاہم اب زمیندار غریب ہے ، موجودہ حکومت کو زرعی شعبے کے متعلق ذرا بھی علم نہیں ، بلوچستان کی زمینیں بہت زرخیز ہیں ، صرف پانی کی کمی ہے ، ہمارا ملک زرعی ہے ، پانی کا مسئلہ حل کر کے بلوچستان کی زمینوں کو آباد کیا جانا چاہیے ۔ آصف زرداری نے کہا کہ سرے محل میں حقیقت ہوتی تو ہم اس میں رہا کرتے ، مسلم لیگ (ن) نے اپنی سوچ کے مطابق سرے محل کا اسکینڈل بنایا تھا جو اب ختم ہو چکا ہے ، جن لوگوں نے مجھ پر ماضی میں 9جھوٹے مقدمات بنائے میں نے ان سے جمہوری انداز میں انتقام لیا ، انہیں بطورصدر میرا حلف لینا پڑا، اس سے بڑھ کر کیا بدلہ ہو سکتا تھا ۔آصف علی زرداری نے کہا کہ 2013کا انتخاب ہم ہارے نہیں تھے، آر اوز نے اپنا جادو چلایا تھا ، پیپلزپارٹی کے امیدواروں نے 2013کے انتخابات میں 80,80ہزار ووٹ لیا تاہم80ہزار ووٹوں میں سے ایک صفر کاٹ دیا جاتا تھا ، بشریٰاعتزاز کا لاہور سے متعلق وائٹ پیپر پڑھیں تو تمام حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے ، اگر 2013کے انتخابات کا نتیجہ تسلیم نہ کرتے تو آج جمہوریت نہ ہوتی ، میاں صاحب کو چار سال میں بہت آسانیاں ملیں ، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیںکم ہوئیں لیکن وہ ڈلیور کرنے میں ناکام رہے ۔انہوں نے کہا کہ میں اپنے دوستوں کو کہتا رہا کہ افتخار چوہدری جج نہیں سیاسی جج ہے ، اس نے سیاسی جماعت قائم کر کے میری بات سچ کردی ، وزیراعظم بتائیں کہ چار سالوں میں کہاں اور کتنے بجلی کے کارخانے لگے ، لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے وعدے اب کہاں گئے ، کہا جاتا تھا کہ لوڈ شیڈنگ 7ماہ میں ختم کردیں گے ، (ن) لیگ کی حکومت2018تو دور کی بات تو دور کبھی بھی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ نہیں کرسکتی کیونکہ ان کا ہر پراجیکٹ یا خود لگتا ہے یا ان کے دوستوں کے ذریعے لگتا ہے ، وزیراعظم بتائیں پنجاب میں کتنے کارخانے لگائے۔ سابق صدر نے کہا کہ اگر میں ڈیلنگ کرتا تو ساڑھے 13سال میں نے جیل کیوں کاٹی ہوتی ، ڈیل کی باتیں درست نہیں ، حامد سعید کاظمی چار سال بعد باعزت بری ہوئے ، حکومت نے سابق وفاقی وزیر کو تھرڈ کلاس جیل میں رکھا، جب ہماری حکومت آئی تھی تو ہم نے سب سے پہلے عطااللہ مینگل کے بیٹے کو رہائی دی ۔انہوں نے کہا کہ اگلے جلسے میں ضرور ”گونوازگو“ کا نعرہ لگائیں گے ، ہم دھرنا دینا نہیں چاہتے ، (ن) لیگ کو سیاسی شکست دیں گے ، اگر ہم نے دھرنا دیا تو مولانا سمیع الحق بھی دو لاکھ بندے لا کر اسلام آباد میں بیٹھ سکتا ہے تو کیا اس کی بات بھی مان لی جائے ، بہت سے سیاسی پارٹیاں موبلائز کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ، میں نے کبھی اسٹیبلشمنٹ کو نہیں چھیڑا ، کہا تھا کہ آپ نے تین سال رہنا ہے ہم نے ساری عمر رہنا ہے اور وہی ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے وزیراعظم کو تھکا کر ہرانا ہے ،انہیں ہیرو نہیں بنانا ، باہر اس لئے گیا تاکہ خلا پیدا ہو سکے اور باقی فورسز میدان میں آکر وزیراعظم کوتھکائیں،میرا خیال ہے وہ کافی تھک چکے ہیں ، مزید ہم تھکائیں گے ، میاں صاحب کی عادت ہے جب تک مشکل میں نہ آئیں رابطہ نہیں کرتے ، میں نے بھی کبھی انہیں پیغام نہیں بھیجا ، ان سے سیاسی محاذ پر ہی لڑائی لڑیں گے ، اگر ان سے ملاقات ہوتی تو انکے لئے اچھی فضا قائم ہوتی ، مجھ پر ڈیل کا الزام لگتا اور میں کارکنوں کو مایوس نہیں کرنا چاہتا ، چاہے میرے جتنے بھی دوست اغوا ہو جائیں بھرپور طریقے سے لیکشن مہم چلائیں گے ، میرے دوستوں کے اغوا میں وفاقی حکومت ملوث ہے ، میں ایف آئی آر وزیر داخلہ پر کٹواﺅں گا ، اگر چوہدری نثار بے بس ہیں تو عہدہ چھوڑ دیں ، ہمارے دور میں ایجنسیاں اس طرح من مانیاں نہیں کرتی تھیں ، نہ سویلین کو ہاتھ لگایا جاتا تھا، صرف ملک دشمنوں کو ہاتھ لگایا جاتا تھا ، جو دوست میرے پاس آنا چاہتے ہیں انہیں ڈرانے کےلئے دوستوں کو اٹھایا جا رہا ہے ، پولیس ملوث نہیں جنہوں نے اٹھایا ان کا حلیہ سندھ پولیس جیسا نہیں اور طرح کا بنایا جاتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ آئی جی پولیس کے معاملے پر 18ویں ترمیم کے بعد صوبے کا حق ہے کہجسے چاہے رکھے جسے چاہے نہ رکھے ، وفاق سے مشاورت کرنا ایک فارمیلٹی ہے ہم نے نام تجویز کئے لیکن وفاقی حکومت نے قبول نہیں کئے،اے ڈی خواجہ کے معاملے پر وہ کام کررہا ہے جس کو اس کو اس کا فائدہ ملنا ہے اور وہ کراچی میں کھیلنا چاہتا ہے ، اے ڈی خواجہ اچھے تو دوسرے برے تو نہیں ، دھرنے کے دوران اسلام آباد کے آئی جی کو پانچ دفعہ تبدیلکیا گیا، لاہور میں بھی تبدیل کیا گیا ، پھر کیا وجہ ہے کہ سندھ حکومت اپنا آئی جی نہیں لگا سکتی ، قبل ازوقت دھاندلی کےلئے اے ڈی خواجہ کوآئی جی برقرار رکھے جانے کی کوشش ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر لاڑکانہ میں ترقیاتی کام نہ ہوتے تو کیوں عوام ہمیں ووٹ دیتے ، ترقیاتی کام ہوئے ہیں صرف وہی جگہ دکھائی جاتی ہے جہاں گڑھے ہوں ، ترقیاتی منصوبے نہیں دکھائے جاتے ، لاہور میں بھی موچی گیٹ پر کچرے کے ڈھیر پڑے ہوئے ہیں ، کراچی کی تین کروڑ آبادی ہے ، کیسے شہر کو ترقی دوں ، کیسے پانی دوں ، کیسے سڑکیں بنائیں ، وفاقی حکومت نے کبھی کراچی کے لئے کوئی ترقیاتی فنڈ نہیں دیے گئے، تھر میں جو واٹر پلانٹ لگ رہے ہیں ، اس میں 51فیصد ہمارے شیئرز ہیں تاہم وفاقی حکومت کہتی ہے کہ ہم نے لگائے ، نوازشریف تو نیوکلیئر ٹیکنالوجی کا کریڈٹ بھی خود لیتے ہیں ، چین کےسا تھ سی پیک معاہدہ میں نے سائن کیا۔ا ٓصف علی زرداری نے کہا کہ ہماری کراچی میں پراپرٹی ہے جو بہت پہلے خریدی گئی ، کراچی میں دو بلڈنگ 60کی دہائی میں بنائی گئیں ، لاڑکانہ میں بچوں کی زمین منیجرڈیل کرتا ہے ، میرا وہاں صرف ایک ایکڑ ہے ۔ بی بی شہید کی زمینوں سے اسلامی تقسیم کے مطابق حصہ ملا تھا تاہم اپنا حصہ بیٹیوں کو دے دیاصرف ایک ایکڑ زمین اپنے نام پر رکھی ، شیئرنگ پر کنٹریکشن کا بزنس ہے ، زینوں کی آمدنی سے سالانہ اخراجات پورے ہوتے ہیں جبکہ پراپرٹی بزنس سے آنے والا پیسہ انویسٹمنٹ میں لگاتا ہوں ۔انہوں نے کہا کہ بی بی شہید کی نصیحت کے مطابق بلاول کو چیئرمین بنایا گیا ، بلاول بھٹو کیجان کی بہت فکر ہے ، بلاول بھٹو کو گاڑی سے باہر نکلنے سے روکتا ہوں ، بلاول کو سیکیورٹی رسک کی وجہ سے روکتا ہوں لیکن وہ نہیں مانتا ۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ صدر کا امیدوار پارٹی میں سے ہوسکتا ہے ، وزیراعظم کے امیدوار کا فیصلہ چیئرمین کریں گے ، میں صدرکا امیدوار نہیں ہوں ۔انٹرویو میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم باپ بیٹے میں اختلاف کبھی کبھی ہوتا ہے ، زیادہ نہیں ہوتا ، میرے والد بڑے بہاد تھے ، آمروں کے سامنے ڈٹ جاتے تھے جس پر بے حد فخر محسوس ہوتا ہے ، والد اور والدہ سے بہت کچھ سیکھا ہے ۔ آصف علی زرداری کے دور میں سویلین حکومت نے پہلی مرتبہ آئینی مدت پوری کیہر وقت مل کر کام کرتے ہیں ایک دوسرے کو مشورے دیتے رہتے ہیں ۔