تازہ تر ین

موئنجودڑو سے بھی پرانی ثقافت دریافت کرلی گئی

کراچی (ویب ڈیسک ) لاڑکانہ سے 30 کلومیٹر کی دوری پر رتوڈیرو قصبے کے مضافات میں ایک مقبرہ واقع ہے۔ سترھویں صدی عیسوی میں ایک ٹیلے پر تعمیر کردہ یہ مقبرہ مقامی ا?بادی میں ” بھانڈو جو قبو“ کے نام سے مقبول ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اس مقبرے میں رتو ڈیرو کے بانی رتوخان جلبانی کی باقیات دفن ہیں جنھوں نے بیرونی حملہ ا?وروں سے اپنی سرزمین کا دفاع کرتے ہوئے جان قربان کردی تھی۔ عین ممکن تھا کہ یہ مقبرہ اور اس سے وابستہ داستان مقامی ا?بادی ہی تک محدود رہتی تاہم دو عشرے قبل رونما ہونے والے ایک حادثے کے نتیجے میں یہاں قدیم انسانی ساختہ اشیائ و نوادرات دریافت ہوئے، جن سے اندازہ ہوتا تھا کہ یہ مقبرہ مقامی ا?بادی کے لیے صدقابل احترام ہستی کی ا?خری ا?رام گاہ ہی نہیں بلکہ کسی قدیم تہذیب کا بھی مدفن ہے۔
ماہرین ا?ثار قدیمہ کے مطابق ”بھانڈو جو قبو“ میں دریافت ہونے والے ا?ثار وادی? سندھ کی تہذیب سے بھی قدیم ہیں۔
شاہ لطیف یونی ورسٹی کے شعبہ ا?ثاریات کے چیئرمین ڈاکٹر غلام محی الدین ویسار نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس مقام پر کھدائی کے دوران ہم نے جو دستکاریاں دریافت کی ہیں جو کوٹ ڈیجی کی ثقافت سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی ہیں، جن کے بارے میں مقامی اور عالمی ماہرین ا?ثار قدیمہ کو یقین ہے کہ وہ وادی سندھ کی تہذیب سے زیادہ قدیم ہیں اور ممکنہ طور پر اس خطے کی سب سے قدیم ثقافت ہے۔
ڈاکٹر غلام محی الدین نے بتایا کہ کوٹ ڈیجی کی 2800 قبل مسیح قدیم ثقافت پیچیدہ سماجی اقتصادی نظام کے ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے 2500 قبل مسیح میں وادی سندھ کی تہذیب کی صورت اختیار کرگئی، جہاں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت قصبے تعمیر کیے جاتے تھے اور جہاں باقاعدہ تحریری زبان موجود تھی۔ موہن جو دڑو کے ا?ثار قدیمہ میں بھی یہی بات سب سے نمایاں ہے۔
ڈاکٹر غلام محی الدین ویسار کے مطابق جو ” بھانڈو جو قبو“ پر ا?ثار قدیمہ دریافت کرنے والی ٹیم کے رکن تھے، ماہرین ا?ثار قدیمہ کے علم میں یہ جگہ 1998ئ میں ا?چکی تھی تھی جب سندھ کو ملک کے باقی حصوں سے ملانے والی انڈس ہائی وے تعمیر کی جارہی تھی۔ انھوں نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ ہمیں اس ٹیلے کا ہائی وے کے حکام سے پتا چلا تھا۔ شاہراہ کی تعمیر کے دوران تعمیراتی کارکنان نے 400 میٹر چوڑے ٹیلے کا نصف حصہ کھود ڈالا تھا۔ انھوں نے یہاں قدیم ا?ثار کی موجودگی کی اطلاع دی۔
ڈاکٹر غلام محی الدین کے مطابق جلد ہی انھوں نے اپنی ٹیم کے ہمراہ اس جگہ کا دورہ کیا اور بہت جلد کھدائی کا ا?غاز کردیا گیا۔ ڈاکٹر ویسار کہتے ہیں کہ ہم نے کھدائی شروع کی تو ہمیں جو اشیائ اور دستکاریاں ملیں وہ کوٹ ڈیجی کی ثقافت سے بہت مشابہت رکھتی تھیں۔ ”بھانڈو جو قبو“ سے نکالی گئی کچھ دستکاریاں اور برتن وغیرہ پر ویسے ہی نقش و نگار بنے ہوئے تھے جو موئن جو دڑو سے دریافت شدہ دستکاریوں پر موجود تھے۔
”بھانڈو جو قبو“ دریافت ہونے والی دستکاریوں میں مٹی کے شکستہ ظروف، جانوروں کی ہڈیاں، سنگی باٹ اور کوئلہ وغیرہ شامل ہیں۔ ماہرین ا?ثار قدیمہ کو ا?تش دانوں کی باقیات بھی ملیں۔
”بھانڈو جو قبو“ کے حوالے سے تازہ ترین پیش رفت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ویسار نے کہا کہ ایک عالمی جریدے میں مضمون شایع ہونے کے بعد دنیا بھر سے ماہرین ا?ثار قدیمہ نے تحقیق کے لیے خیرپور یونی ورسٹی سے رابطہ کیا۔ چناں چہ 21سال کے بعد اس مقام پر یونی ورسٹی ا?ف بارسلونا اور ٹوکیو کی میجی یونی ورسٹی کے 5 ماہرین ا?ثار قدیمہ کی مدد سے کھدائی کا عمل دوبارہ شروع کردیا گیا ہے۔ اس ٹیم میں غیرملکی ماہرین کے علاوہ خود ڈاکٹر ویسار اور ڈاکٹر قاصد ملاح بھی شامل ہیں۔
تحقیقی ٹیم میں شامل ڈاکٹر ملاح نے ایکسپریس ٹریبیون سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اب ہم 4 میٹر کی گہرائی تک کھدائی کر چکے ہیں۔ اب ہم یہاں سے نکالی گئی ہڈیاں اور کوئلے کو ریڈیوکارین ڈیٹنگ کے لیے اسپین بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں تا کہ اس مقام کی صحیح عمر کا بالکل درست تعین ہوسکے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv