تازہ تر ین
gam e shah.jpg

عزاداری میں گامے شاہ کا کردار ،آغاز کب ہوا جبکہ ایک مجوسی ہر سال 40ہزار روپے کیوں خرچ کرتا ؟؟

لاہور (خصوصی رپورٹ) اہل اسلام کا سال نو (ماہ غم) جس کو پنجاب میں ”دہے“ کہتے ہیں محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے۔ یکم محرم سے دس محرم تک اہل بیت حالت جنگ میں رہے چونکہ حق و باطل میں معرکہ آرائی خیروشر اور نیکی و بدی کا تصادم ازل سے جاری ہے جو تاقیامت رہے گا اور حق نے ہمیشہ صراط مستقیم کو واضح اور روشن انداز میں پیش کیا۔ حدیث میں ہے کہ ”حسنؓ اور حسینؓ جنتی ناموں میں سے دو نام ہیں۔ عرب کے زمانہ جاہلیت میں دونوں نام نہیں تھے۔تعزیے کی تاریخ:تعزیہ ایک ایسی شبیہہ ہے جو کہ روضہ حضرت امام حسینؓ کی طرز پر تعمیر کی جاتی ہے۔ یہ تعزیے سونے، چاندی ، لکڑی، بانس، کپڑے، کاغذ اور سٹیل سے تیار کیے جاتے ہیں جو کہ محرم الحرام کے مقدس مہینے میں حضرت امام حسینؓ اور شہداءکربلا کے غم میں ایک جلوس کے ہمراہ برآمد کیے جاتے ہیں۔ تعزیہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ عین اوری سے مشتق ہے۔ جس کے معنی مصیبت میں صبر کرنا، دلاسہ دینا، تسلی دینا، پرسہ دینا کے ہیں۔ انہی الفاظ سے تعزیت اور تعزیہ وجود میں آئے۔ تعزیے 29 ذی الحج سے 9محرم تک آراستہ کرکے مخصوص مقامات پر رکھ دیئے جاتے ہیں ان مقامات کے مختلف نام ہیں۔ مثلاً امام بارگاہ عزا خانہ، تعزیہ خانہ، عاشور خانہ، امام خانہ، چبوترہ، چوک امام صاحب وغیرہ۔ تعزیے کے اوپر والے حصہ کو ”خطیرہ” اور نچلے حصہ کو ”تربت“ جبکہ سب سے اوپر والے کو ”علم“ کہتے ہیں۔ ایران میں تعزیے کا رواج نہیں وہاں شبیہہ یا تمثیل رائج ہے، عراق میں تعزیہ کو ”شبیہہ“ کہاجاتا ہے۔ البتہ کشمیر، بھارت، نیپال اور افریقہ میں تعزیہ داری پاکستان انداز میں ہوتی ہے۔ تعزیہ داری کی تفصیلات میں دو انگریز مصنفین کی آرا مشہور ہیں جو درج ذیل ہیں۔ انگریز مصنفہ مسز میر حسن علی اپنی کتاب میں لکھتی ہیں، ہندوستان میں کسی شیعہ مسلمان کا گھر تعزیہ سے خالی نہیں ہوتا۔ ہندوﺅں کو تعزیے سے کافی عقیدت ہے۔ چنانچہ تعزیہ دیکھ کر یہ لوگ مودبانہ جھک جاتے ہیں۔ مجالس میں ہر مذہب و ملت کے لوگ شریک ہوتے ہیں اور مسلمان انہیں بہت محبت سے بٹھاتے ہیں۔ یہ طریقہ اس قدر عام ہوگیا کہ سوائے انگریزوں کے کسی اور سے امام باڑے کے باہر جوتا اتارنے کے کہنا بھی نہیں پڑتا۔ ایک اور انگریز خاتون جن کا نام فینی پارکس تھا، لکھتی ہیں یہ بات قابل ذکر ہے کہ شیعوں کے علاوہ سنی اور ہندو بھی ایام محرم میں اپنے گھروں میں تعزیے رکھتے ہیں۔ میرا باورچی ایک مجوسی تھا وہ بھی محرم میں تعزیے پر کم از کم چالیس ہزار روپے روپے خرچ کرکے ایک پرجوس مسلمان کی طرح عزاداری کے مراسم بجا لاتا تھا۔ عاشورہ کے دن اپنے تعزیے کو کربلا میں دفن کرنے کے بعد پھر وہ اپنے دھرم کی پیروی کرنے لگتا تھا۔ ولیئم نائٹن اپنی کتاب میں لکھتے ہیں، اس زمانے میں امام باڑوں کی بہتات اور روشنی میں کار چوبی چیزوں کی اس قدر چمک دھمک ہوتی ہے کہ انسان کی نگاہیں چندھیا جاتی ہیں۔ علموں کی طلائی و نقرئی پنجوں کی جگمگاہٹ اور ان کے بھاری بھاری پٹکوں کی سجاوٹ، زردوزی کام پر گنگا جمنی کی جھالروں کی زیبائش ان کی وجہ سے درودیوار پر آب و تاب ۔ بس سارا امام بارگاہ بقعہ نور ہو جاتا ہے۔ ایام عزا میں برابر تعزیوں کے گرد بڑی بڑی سرخ اور مومی توغیں روشن رہا کرتی تھیں۔ لاہور میں تعزیہ نکالنے کی ابتدا سید غلام علی شاہ المعروف بابا گامے شاہ سے منسوب کی جاتی ہے ۔ روایت ہے کہ بابا گامے شاہ دنیا سے ماورا زمانے کی نظروں میں دیوانے اور اہل بیت کی نگاہ پاک باز میں عارف کامل تھے۔ ہمیشہ سیاہ لباس زیب تن رکھتے اور دربار حضرت علی ہجویریؒ کے پہلو میں موجود کربلا گامے شاہ قدیم برف خانہ کی جگہ بیٹھے رہتے۔ ان دنوں ایک بڑھیا ”آغیاں مائی“ بھی موچی دروازے سے عاشورہ کے روز سرپیٹتے اور گریہ و زاری کرتے گامے شاہ کے ڈیرہ کی جانب آتی ۔ آہستہ آہستہ باباگامے شاہ کا حلقہ ارادت وسیع ہوتا گیا۔ روایت ہے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد 1799ءتا1839ءمیں بابا گامے شاہ نے لاہور میں سب سے پہلے تعزیہ نکالا (یہ سال راقم کی تحقیق کے مطابق 1828ءبنتا ہے) جس پر مہاراجہ رنجیت سنگھ نے بابا گامے شاہ کو دربار میں طلب کرکے سرزنش کی اور کہا کہ وہ آئندہ تعزیہ نہیں نکالے گا۔ گامے شاہ نے انکار کیا اور کہا کہ وہ ہمیشہ ایسا کرتا رہے گاجس پر رنجیت سنگھ نے اسے گرفتار کرکے شاہی قلعہ لاہور میں قید کر دیا جس پر رنجیت سنگھ ڈراﺅنے خواب دیکھتا رہا اور ساری رات پریشان رہا۔ صبح ہوئی تو فقیر سید عزیز الدین کے ہمراہ بابا گامے شاہ کے زندان میں گیا اور بابا گامے شاہ سے معافی مانگنے کے بعد اسے رہا کر دیا۔ انہی ایام میں بابا گامے شاہ نے وفات پائی۔ انکی تاریخ وفات اور سال تذکروں میں تلاش کے باوجود نہیں مل سکے۔ بعد وفات اسی مقام پر جہاں ان کا ڈیرہ تھا، حجرہ میں دفن کیا گیا۔ بابا گامے شاہ کے مزار کے پاس حضرت امام حسینؓ کی ضریح نصب ہے جوحضرت بابا گامے شاہ کو سب سے بڑا نذرانہ عقیدت ہے۔ اس حوالے سے بیان کیا جاتا ہے کہ ضریح مبارک کی بنیاد میں کربلا (عراق) کے میدان کی مٹی رھی گئی ہے اسی نسبت سے اس درگاہ کو کربلا گامے شاہ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ مزار کے اوپر والے حصہ میں گامے شاہ کا وہ تعزیہ بھی موجود ہے جس کو وہ اپنے سر پر رکھ کر لاہور شہر کے گلی کوچوں میں گریہ و ماتم کرتے تھے۔ بابا گامے شاہ کی وفات کے بعد نواب علی رضا قزلباش اور سرنوازش علی قزلباس وغیرہ نے مل کر یہ رقبہ خرید لیا اور یہاں گامے شاہ کے مقبرہ کے ساتھ کربلا قائم کی اور اس کا نام کربلا گامے شاہ رکھا جو آج لاہور کی تاریخ عزاداری میں بین الاقوامی شہرت کی حامل ہے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv