مظفرگڑھ (خصوصی رپورٹ) مظفرگڑھ کی نوبیاہتا دلہن نصرت بی بی نے جعلی پیر کے تشدد سے تنگ آکر خودکشی کی۔ مقامی ذرائع کے مطابق نصرت کا شوہر مجاہد حسین جھنگ میں کاروبار کرتا ہے اور وہ اس کے ساتھ رہنا چاہتی تھی لیکن ساس رکاوٹ بن گئی۔ گھریلو جھگڑوں سے چھٹکارے کے لئے ساس اسے قاری اقبال نامی جعلی پیر کے پاس لے گئی۔ اقبال نے جنات کا سایہ دور کرنے کیلئے تشدد کا نشانہ بنایا۔ اہل خانہ معاملے کو دبانے کی کوشش کررہے ہیں۔ مقامی ڈاکٹر کے مطابق نصرت کو جب ہسپتال لایا گیا تو اس کے جسم پر تشدد کے نشان موجود تھے۔ مظفر گڑھ شہر کی جنوب مغربی جانب قریباً 35 کلو میٹر کی مسافت پر شاہ جمال کا قصبہ واقع ہے۔ یہ بنیادی طور پر سندھ کی دریائی بیلٹ کا علاقہ ہے۔ شاہ جمال کے نواحی گاﺅں موضع ”گورام بگڑﺅں“ کے رہائشی مجاہد حسین کی ایک ماہ قبل نصرت بی بی سے شادی ہوئی۔ مقامی ذرائع کے مطابق مجاہد حسین کا جھنگ شہر میں اپنا چھوٹا کاروبار ہے اور اسی سلسلے میں وہ زیادہ تر جھنگ میں ہی رہتا ہے۔ شادی کے بعد وہ واپس جھنگ چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد نصرت نے اپنی ساس کے سامنے خواہش ظاہر کی کہ وہ بھی اپنے شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ ساس نے اس بات کی سخت مخالفت کی جس کے بعد گھر میں لڑائی جھگڑے شروع ہوگئے۔ نصرت کا اصرار اور اس کی ساس کا انکار جاری رہا۔ اسی دوران نصرت کو ایک دو بار دورہ پڑا اور اس پر غشی طاری ہوئی تو اس کی ساس چند روز پہلے اس کا روحانی علاج کرانے کے لئے اسے اسی موضع کے رہائشی ایک عامل قاری اقبال کے پاس لے گئی۔ شاہ جمال کے مقامی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ قاری اقبال نے نصرت کی ساس کو بتایا کہ اس کی بہو پر جناب کا سایہ ہے لہٰذا جناب کے اثر سے آزاد کرانے کے لئے اس پر ہلکا پھلکا تشدد بھی کرنا پڑے گا۔ اجازت ملنے پر قاری اقبال نے نصرت کا ”علاج“ شروع کیا تو وہ اسے چھڑیوں سے مارنے پیٹنے کے علاوہ چھری گرم کرکے اس کے جسم کو بھی داغتا رہا۔ نصرت کو بدھ کے روز بھی قاری اقبال کے پاس لے جایا گیا جہاں اس پر پھر تشدد کیا گیا۔ اگلے روز صبح سویرے نصرت نے کالا پتھر پانی میں گھول کر پی لیا۔ جس کے ساتھ ہی اس کی حالت بگڑتی چلی گئی۔ اسی اثنا میں نصرت کے بھائی اجمل کو کسی نے خبر دی کہ اس کی بہن نے کالا پتھر پی لیا ہے تو وہ بھاگابھاگا اس کے گھر آیا اور اسے لے کر مقامی دیہی مرکز صحت شاہ جمال لے گیا۔ ذرائع کے مطابق ہسپتال میں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر اقبال ساجد نے نصرت کی انتہائی تشویشناک حالت کے پیش نظر اسے فوری طور پر نشتر ہسپتال ملتان ریفر کردیا لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہسپتال میں موجود ایمبولینس میں پٹرول نہ ہونے کے باعث اسے ملتان نہ لے جایا جاسکا۔ ذرائع کا اصرار ہے کہ ضلعی انتظامیہ نے دیہی مراکز صحت کے عمومی اخراجات بند رکھے ہیں اس لئے دیہی مرکز صحت شاہ جمال کی انتظامیہ نے ایمبولینس کی فراہمی کے سلسلے میں معذوری ظاہر کی۔ علاقے میں گردش کرن والی اطلاعات کے مطابق جعلی پیر نے دوران ”علاج“ نصرت بی بی کی آبروریزی بھی کی‘ جس سے دلبرداشتہ ہو کر نصرت نے اپنی زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کیا لیکن مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے کہ آیا قاری اقبال نے نصرت پر صرف تشدد ہی کیا یا پھر اس سے زیادتی بھی کی‘ کیونکہ اس کی عمر 80سال کے لگ بھگ ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قاری اقبال اسی موضع کا رہائشی ہے‘ چونکہ اس علاقے میںغربت اور جہالت کی بھرمار ہے۔ لوگ اپنے بچوں اور مال مویشی کو دم کرانے کیلئے قاری اقبال کے پاس آتے رہتے ہیں۔ واضح رہے کہ وقوعہ کے بعد سے قاری اقبال روپوش ہے۔ اس سلسلے میں مقامی رورل ہیلتھ سنٹر کے ڈاکٹر اقبال ساجد نے بتایا کہ نصرت بی بی کی عمر 24سال تھی۔ اسے جب ہمارے پاس لایا گیا تو اس کی حالت انتہائی تشویشناک تھی۔ ہماری ساتھی ڈاکٹر نبیلہ نے ہی اس کا معائنہ کیا۔ انہوں نے بعد میں مجھے بتایا کہ نصرت کے ہاتھوں اور گردن پر جلنے کے نشانات موجود تھے۔ ابھی اس کا معائنہ جاری تھا کہ اسی دوران وہ دم توڑ گئی۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یہ بات درست نہیں کہ نصرت بی بی کو ایمبولینس نہ ملنے کے باعث ملتان لے جایا نہ جا سکا‘ بلکہ کالاپتھر نے اتنی تیزی سے اپنا اثر دکھایا کہ نصرت کو ملتان ریفر کرنے کی مہلت ہی نہیں ملی۔ ڈاکٹر اقبال ساجد کے مطابق ان کیلئے حیران کن بات یہ تھی کہ متوفیہ نصرت بی بی کے اہلخانہ نے اس کی موت پر کوئی واویلا کیا نہ کسی غم و غصے کا اظہار کیا اور نہ ہی اس کا پوسٹمارٹم کرانے میں دلچسپی لی بلکہ خاموشی سے اس کی لاش لے کر گھر چلے گئے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر نصرت کا پوسٹمارٹم ہوتا تو پھر ہی بتایا جا سکتا تھا کہ آیا تشدد کے نشانات صرف ہاتھوں اور گردن پر ہی تھے یا پھر جسم کے باقی حصے پر بھی تھے۔ ڈاکٹر اقبال ساجد کا مزید کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب میں کالاپتھر کے ذریعے خودکشی کرنے کا رجحان بہت زیادہ ہے۔ کالاپتھر پینے والے کے گلے پر سب سے پہلے اثر پڑتا ہے اور گلا غیرمعمولی طور پر سوج جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی سانس کی نالی بند ہو جاتی ہے۔ اسے پینے والا آدمی دو گھنٹے کے اندردم توڑ دیتا ہے۔ میں گزشتہ دو سال سے رورل ہیلتھ سنٹر شاہ جمال میں تعینات ہوں‘ ہر مہینے کالاپتھر پینے والے تین سے چار افراد صرف ہمارے اس سنٹر میں لائے جاتے ہیں۔ ان دو برسوں میں ہمارے پاس جتنے لوگ لائے گئے‘ ان میں سے کوئی ایک بھی زندہ نہیں بچ سکا۔ جن مریضوں کو ہم نے نشتر ہسپتال ملتان ریفر کیا وہ بھی راستے میں دم توڑ گئے۔ دوسری طرف شاہ جمال سے مقامی ذرائع نے بتایا کہ نصرت کے گھر والے اس سارے معاملے کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ اسے صرف خودکشی قرار دیتے ہیں جبکہ جعلی پیر کی کارستانی اور تشدد سے انکار کر رہے ہیں۔ نصرت کے لواحقین نے گزشتہ روز پولیس حکام کو دفعہ 164کے تحت باقاعدہ بیان ریکارڈ کرایا ہے‘ جس میں کہا گیا ہے کہ ہم نصرت کو علاج کیلئے کسی پیر یا عامل کے پاس لے کر نہیں گئے۔ جبکہ علاقہ ڈی ایس پی عرفان بٹ نے رابطے پر بتایا کہ ابھی تک اس کیس میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی اور نہ ہی پولیس کے پاس مقدمے کے اندراج کیلئے کوئی درخواست آئی ہے۔