لاہور(حسنین اخلاق)دو قومی نظریہ نے ایک بار پھر بھارت میں سر اٹھانا شروع کردیا،ہندوتوا سے تنگ بھارتی مسلمان مسلح جدوجہد سمیت کئی آپشن پر غور کرنے لگے۔ہندوستانی سیکولرازم کا پردہ چاک ہوتے ہی فوج ،سیاست دانوں، کھلاڑیوں اور فنکاروں نے بھی مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کردیاجبکہ بھارتی مسلمانوں نے ”انڈین سپرنگ“کے لیے تیاری شروع کردی۔نوجوان مسلمان،بھارتی حکومت کی بجائے ریاست کے اندر ریاست کے نظریے کو ترجیح دینے لگے۔ہندو غنڈوں ،پولیس اور بھارتی فوج سے خود کو بچانے کے لیے مسلح جتھے بنانے کی کوششوں کا آغاز کردیا گیا۔تفصیلات کے مطابق بعض بھارتی سیاسی جماعتوں اور شخصیات کی جانب سے ہندوستان میں مودی حکومت کی آمد سے قبل ہی مسلم مخالف ماحول بنانے کا آغاز کردیا گیا تھا جس میں پہلے ہی سے کم سرکاری ملازمتوں میں غیر سرکاری طور پر کمی کے ساتھ ساتھ،ہسپتالوں سکولوں ،دفاتر اور معیشت میں بھی انہیں دیوار کے ساتھ لگایا جانے لگا جس کی نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہاگر کوئی مسلمان غلطی سے کسی بھی بڑے سرکاری عہدے پر ممتکن ہوجاتا ہے تو اس کی سرکاری طور پر تذلیل کی جاتی ہے اور ہندو رہنماﺅں کی جانب سے سرکاری ملازمین کو اس بات پر اکسایا جاتا ہے کہ مذکورہ افسر کے احکامات منانے سے انکار کردیا جائے جس کے حوالے سے امریکا کی معروف یونیورسٹی ”کولمبیا یونیورسٹی “ کی طرف سے چند ہفتے قبل ایک تھیسس ”دا مسلم پرابلم ان انڈیا“کے عنوان سے تحریر کیا گیاجس میں واضع طور پر اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو بالاخر اس حد تک دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا ہے کہ اب ”سول نافرمانی“ سے لیکر ”مسلح جدوجہد “ تک ہر قسم کے آپشن پر غور کرنے لگے ہیں ۔ماضی قریب میں ہندﺅں کی جانب سے کبھی” لو جہاد“جیسے فرضی تحریک کو بنیاد بنا کرتوکبھی”گاﺅ رکھشا“ کے نام اور کبھی اذان سے تنگ ہونے کی وجہ بیان کر کے مسلم آبادیوں کو نشانہ بنایا گیاجس میں ہزاروں مسلمانوں کو شہید کردیا گیا ۔اب صورتحال یہ ہے کہ ہندو یووا واہنی(ایچ یو وی)کویو پی،سی پی،گجرات سمیت کئی ریاستوں میںمسلح تربیتی کیمپ بنانے کی اجازت دئیے جانے کے بعدکچھ عرصہ قبل مقبوضہ کشمیر میںبھی کیمپ بنانے کی اجازت دے دی گئی۔جس کے مطابق پہلے مرحلے میں جموں میں آباد پنڈتوں کو مسلح لڑائی کی تربیت فراہم کی جائیگی اور اس کے لیے بارہ سے چالیس برس کے ہندو جوانوں کی بھرتی کا کام شروع کردیا گیا ہے۔اس حوالے سے پہلا حملہ کچھ روز قبل جمعہ کی شام ریاسی قصبہ سے چند کلو میٹر دور تلواڑا کے زیرو موڑ علاقہ میں خود ساختہ گاﺅ رکھشکوں نے مویشی پالنے والے مسلمانوں پرحملہ کر کے 9سالہ بچی سمیت6افرادکوزخمی کردیا جن میں نسیمہ بیگم ، عابدہ بیگم، نزاکت علی اور صابر علی شامل ہیںجبکہ ہندو دہشتگرد انکے مویشی لیکر فرارہوگئے ۔اس دہشت گرد گروہ کی قیادت کے حوالے سے آگاہ ہونے کے باوجود جن کی قیادت شنکارا سنگھ ولد کھجور سنگھ کر رہا تھاپولیس انہیں گرفتار نہیں کررہی ہے۔زخمی افراد کے مطابق وہ اپنے مال مویشی لیکرجارہے تھے کہ اچانک سامنے سے آنے والے ایک گروپ نے انہیں روکا اوربغیرکچھ کئے سنے انہوںنے ہمیں مارناپیٹناشروع کردیا۔یاد رہے کہ کشمیر میں ”ایچ یو وی“ کی سرگرمیوں اور مستقبل میں ان کے ارادوں کے حوالے سے ”روزنامہ خبریں “میں ایک ماہ قبل ہی خبر شائع کی گئی تھی۔ کشمیری خواتین نے یہ بھی بتایا ہے کہ ان کی بے حرمتی کرنے کی بھی کوشش کی گئی تاہم وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئیں ۔ادھر ہندوستان میں مسلم نوجوانوں کی بڑی تعداد نے باقاعدہ مسلح جدوجہد کی تیاری کے لیے خفیہ منصوبہ بندی شروع کردی ہے۔ماہرین کے مطابق بلاشبہ ابھی یہ ایک منظم تحریک نہیں ہے اور آپ لوگوں کے محلوں میں اس کے بینرز یا پوسٹر لگاتے یاارد گرد پرچم لہراتے ہوئے یابراہ راست انقلاب کے لئے بلا نہیں جا رہے تاہم یہ سب خاموشی سے ہو رہا ہے اور مسلم نوجوانوں میں اصطلاح “مسلم بہار یا ہندوستانی بہار” کا استعمال بڑھ گیا ہے۔