مشی گن(ویب ڈیسک) بعض سمجھ دار لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر آپ پریشان ہیں تو اپنی پریشانی سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں، تو بہتر ہے کہ اس بارے میں دوسروں سے بات چیت اور تبادلہ خیال کرنے کے بجائے، کاغذ قلم لے کر، اس پریشانی کا پورا احوال لکھ لیجئے۔ ایسا کرنے سے آپ میں نہ صرف پریشانی سے مقابلہ کرنے کی ہمت پیدا ہوجائے گی، بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا کوئی حل بھی نکال لیں۔ماہرینِ نفسیات کے پاس اب تک اس مشورے کے حق میں کوئی واضح اور ٹھوس ثبوت موجود نہیں تھا لیکن ریسرچ جرنل ”سائیکو سائیکالوجی“ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں ثابت کیا گیا ہے کہ اپنی پریشانیوں کا احوال لکھنے سے واقعی دماغ اور اعصاب کو سکون ملتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے سکون آور دوائیں کھانے پر محسوس ہوتا ہے۔یہ تحقیق مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی میں شعبہ اعصابیات (نیورولوجی) میں سابق پی ایچ ڈی فیلو ہانز شروڈر کی سربراہی میں کی گئی ہے۔اس مطالعے میں شریک رضاکاروں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا: ایک گروپ سے کہا گیا کہ وہ اپنی پریشانیوں کی پوری تفصیل، بھرپور انداز سے تحریر کریں جبکہ دوسرے گروپ میں شامل رضاکاروں سے اپنی پریشانیوں کے بارے میں زبانی کلامی گفتگو کرنے کےلیے کہا گیا۔مطالعے کے اختتام پر معلوم ہوا کہ جس رضاکار نے جس خوبی سے اپنی پریشانی کو تحریری طور پر بیان کیا تھا، اس کے اعصابی تناو¿ میں بھی اسی قدر کمی واقع ہوئی تھی۔اس کے برعکس وہ رضاکار جو اپنی پریشانیوں کے بارے میں صرف زبانی گفتگو کر رہے تھے، ان کا اعصابی تناو¿ جوں کا توں برقرار رہا؛ چاہے انہوں نے اپنے مسائل اور پریشانیوں کو کتنی ہی خوبی سے کیوں نہ کہہ دیا ہو۔اس تحقیق کا ل±بِ لباب بہت سادہ اور آسان ہے: اگر آپ کسی شدید پریشانی کے باعث اعصابی تناو¿، ڈپریشن یا اینگڑائٹی وغیرہ جیسی کیفیات کا شکار ہیں تو دوائیں کھانے سے بہتر ہے کہ کاغذ قلم لے کر بیٹھ جائیے اور اپنی پریشانی کو مکمل جزئیات کے ساتھ تحریر کر ڈالیے۔ اس سے آپ کے ذہن کو کہیں زیادہ افاقہ ہوگا جبکہ اس کا کوئی ”سائیڈ ایفیکٹ“ بھی آپ کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔