اسلام آباد (ویب ڈیسک)پاکستان کی سپریم کورٹ نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے خارج کرنے کا حکم دیا ہے۔چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پیر کو جعلی اکاو¿نٹس سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ اگر بلاول بھٹو زرداری کا تعلق اس مقدمے سے نہیں بنتا تو ان کا نام ای سی ایل میں کیوں شامل کیا گیا ہے؟چیف جسٹس نے نیب کو تحقیقات دو ماہ کے اندر مکمل کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔خیال رہے کہ 2015 کے جعلی اکاو¿نٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔پیپلز پارٹی کے وکیلا فاروق ایچ نائیک اور لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ دونوں کمپنیوں میں جو بلاول بھٹو زرداری کا حصہ بتایا جا رہا ہے اس کے مطابق رقم کی ایک منتقلی اس وقت ہوئی جب بلاول کی عمر ایک سال تھی، اور دوسری اس وقت ہوئی جب وہ چھ سال کے تھے۔فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور جے آئی ٹی کی رپورٹ جلد بازی میں تیار کی گئی اور کا کوئی جواز سمجھ نہیں آیا۔اس پر جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ ’ہم نے نیب کے تقدس کو محفوظ رکھنا ہے اور ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ نیب اس طرح کے کیسز نہ لے جن کی بنیاد حقائق پر نہیں ہے۔‘چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر بلاول بھٹو زرداری کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں بنتا تو نہ صرف ان کا نام ای سی ایل سے نکال دیا جائے بلکہ اس جے آئی ٹی سے بھی نکال دیا جائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ ایک اہم عہدے کے مالک ہیں اور اس عہدے کی ہمیں عزت محفوظ رکھنا ہے ورنہ بین الاقوامی طور پر ہماری بدنامی ہوگی کہ یہ کس قسم کا ملک ہے جو وزیراعلیٰ اور دیگر لوگوں کو عدالتوں میں گھسیٹ رہے ہیں۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے ان کا نام ای سی ایل سے یہ کہہ کر ہٹانے کو کہا کہ ’کیا ہم یہ تصور کر کے بیٹھے ہیں کہ وزیر اعلیٰ اپنی کرسی چھوڑ کر بھاگ جائیگا؟ اس سے باہر ممالک میں کیا تاثر جائیگا؟‘فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ ایک ابتدائی تفتیش کے لیے استعمال ہوسکتی ہے لیکن اس کو ’جلد بازی میں لکھا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ رپورٹ حتمی نہیں قرار دی جاسکتی۔‘چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اگر نیب چاہے تو وہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کو اپنی تحقیقات کی بنیاد بنانے کے بجائے ایک اطلاعی رپورٹ کے طور پر پیش کر سکتی ہے۔سپریم کورٹ کے وکیل چوہدری اختر علی نے اس فیصلے کے بارے میں کہا کہ اس سے پیپلز پارٹی کو سیاسی طور پر کافی فائدہ ہوگا۔ ’پوری لسٹ کے بارے میں یہ سمجھا جائے گا کہ یہ میرٹ پر نہیں بنی۔ اس لسٹ کو تیار کرنے میں کوئی خیال نہیں رکھا گیا ہے کہ آیا ہمارے پاس کوئی ٹھوس مواد موجود ہے یا نہیں۔ اسی وجہ سے ایک ایسے شخص کا نام اس لسٹ میں شامل ہے جو اب اس دنیا میں ہے ہی نہیں۔ اس قسم کی لسٹ بنانے سے اس کی قانونی اہمیت بہت کم ہوجاتی ہے۔‘خیال رہے کہ جعلی بینک اکاو¿نٹس کے ذریعے مبینہ طور پر اربوں روپے بیرون ملک بھیجنے کے معاملے پرسپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں اس مقدمے میں ملوث تمام افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی سفارش کی تھی۔ان میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے علاوہ سابق صدر آصف علی زرداری، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سمیت دیگر افراد کے نام شامل تھے۔ موجودہ حکومت نے محض جے آئی ٹی کی رپورٹ پر ان افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کردیے جبکہ اس ضمن میں ایک طریقہ کار موجود ہے کہ اگر کسی بھی ادارے کی طرف سے جن میں نیب یا عدالتوں کی طرف سے نام بھیجے گئے ہوں تو انہی ناموں کو ای سی ایل میں شامل کیا جاتا ہے۔اس مقدمے میں جے آئی ٹی کو محض حقائق تک پہنچے کا مینڈیٹ دیا گیا تھا لیکن اس ٹیم کے سربراہ کی طرف سے حکومت کو خط لکھا گیا کہ اس مقدمے میں ملوث تمام افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کیے جائیں۔