قاضی صاحب نے ایک بات اچھی کی کہ نہ صرف الیکشن کی تاریخ لے کر دی بلکہ ساتھ ہی اس تاریخ کو پتھر پرلکیر کہہ ہراس پر پہرہ دینے کا بھی اعلان کردیا۔آج کی تاریخ تک جناب چیف جسٹس ایک مضبوط اورالرٹ پہرے دار کی طرح اپنی کہی ہوئی بات پر پہرہ دے رہے ہیں ۔اللہ ان کو کامیاب ہی کرے۔اس ملک میں ایک سال سے آئین وغیرہ کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے مسلسل اس کی خلاف ورزیاں جاری تھیں کہ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس بدل گیا اورموجودہ چیف کے آنے کے بعد آئین شکن دبکے ضرور بیٹھے ہیں لیکن اپنی سازشوں سے باز نہیں آرہے۔اس وقت ان سازشیوں کا ہدف ایک ہی کہ کسی نہ کسی طرح الیکشن روک لیے جائیں ۔ معلوم نہیں کہ الیکشن نہ کروانے میں کس کا کونسامفادموجود؟
الیکشن کی تاریخ پر حملہ آوربہادرتو ہرگز نہیں بلکہ بزدل ہیں۔ بہادر ہوں تو سامنے آکر الیکشن کی مخالفت کریں ۔جمعہ کے دن سینیٹ آف پاکستان کو جس طرح اس کے چیئرمین اورچند سینیٹرزنے بے توقیر کیا وہ بھی الگ ہی کہا نی ہے۔بظاہر یہ واردات چیئرمین سینیٹ کی طرف سے پلان کی گئی جس پر ان کے ہی گروپ کے بارہ سینیٹرزنے عمل درآمد بھی کروادیا اور پھر قراردادپاس کرتے ہی اجلاس بھی غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کرکے چلتے بنے۔گوکہ اس قراردادیا کسی بھی ایسی قرارداد کی کوئی ایسی حیثیت نہیں کہ الیکشن ملتوی ہوجائیں یا الیکشن کمیشن کسی ایسی خواہش پر عمل کرنے کا پابندہی ہوجائے لیکن پھر بھی ایسی چھوٹی چھوٹی خواہشیں لیے چھوٹے لوگ اپنا آپ دکھانے سے باز نہیں آرہے۔چیئرمین سینیٹ چھ سال قبل ،جب سے سینیٹ میں آئے ہیں ان کے ساتھ فتنہ اور فساد نتھی ہوکر آیا ہے۔جب یہ مارچ 2018میں سینیٹر منتخب ہوئے تو آتے ہی خود کو چیئرمین بنوانے کے لیے وہ سازشیں کیں کہ سینیٹ میں ن لیگ کی اکثریت ہوتے ہوئے چیئرمین بن گئے اور کمال یہ ہوا کہ چیئرمین بننے کے لیے پیپلزپارٹی اورپی ٹی آئی کو ایک ٹیبل پر بٹھادیا۔اسی وقت پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت گرادی۔سینیٹ کا چیئرمین بن کر اپنی جڑیں طاقت کے مراکز کے ساتھ استواراور مضبوط کرتے چلے گئے۔
پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے بعد جب پیپلزپارٹی کو ہوش آیا کہ وہ ن لیگ کے خلاف استعمال ہوتے رہے لیکن حکومت عمران خان کو مل گئی تو پیپلزپارٹی نے چیئرمین سینیٹ کوہٹانے کے لیے مسلم لیگ ن کے ساتھ چلنے کا اعلان کیا۔ سینیٹ میں چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد لے آئے ۔ اس تحریک کی ناکامی کا کوئی سوال نہیں اٹھتا تھا کیونکہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے اس وقت سینیٹ میں 64ارکان تھے اور ان کے مخالفین کی تعدادچالیس سے بھی کم تھی۔ظاہری طورپریہ عدم اعتماد کی تحریک کامیاب تھی لیکن یہاں بھی صادق سنجرانی اور ان کے چاہنے والے کمال کی واردات ڈال گئے۔عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے لیے سینیٹ ارکان کی گنتی کی گئی تو پورے 64نکلے لیکن یونہی عدم اعتماد ایوان میں آئی اور اس پر ووٹنگ ہوئی تو 64ارکان والے ہار گئے ۔ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے چودہ ارکان ایوان سے غائب ہوگئے ۔دونوں جماعتیں ان سینیٹرزکو تلاش کرنے کے لیے کمیٹیاں بناتی رہ گئیں لیکن صادق سنجرانی کو جتوانے اور مرحوم حاصل بزنجوکو ہرانے والے ان چودہ لوگوں کا پتہ نہ چل سکا۔
2021میں سینیٹ کے پھر الیکشن ہوئے۔پیپلزپارٹی اور ن لیگ پی ڈی ایم میں ایک ساتھ تھے ۔یوسف رضا گیلانی سینیٹ کے رکن بنے تو ایک بارپھر دونوں جماعتوں کو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو تبدیل کرنے کا شوق چرایا ۔ اس بار پیپلزپارٹی کے یوسف رضا گیلانی چیئرمین کے امیدوار بن گئے۔اکثریت اس باربھی اپوزیشن کے ساتھ اور صادق سنجرانی کے خلاف تھی لیکن صادق سنجرانی کے ساتھ وہ لوگ تھے جواقتدار طے کرتے ہیں۔چیئرمین سینیٹ کے الیکشن سے پہلے دوتین سرپھرے سینیٹرزنے ایوان سے سی سی ٹی وی کیمرے دریافت کرلیے۔ان کیمروں پر بھی کمیٹی بنی کہ یہ کس نے یہاں لگائے ہیں آج تین سال ہونے کو آئے نہ کسی کو کمیٹی کا پتہ ہے اور نہ کیمروں کا کسی کو معلوم ہوا۔اس الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کو ڈالے گئے سات ووٹ مسترد قراردے کر صادق سنجرانی کو تین سال کے لیے دوبارہ چیئرمین سینیٹ بنادیا گیا۔وہ تین سال اس مارچ میں پورے ہورہے ہیں ۔صادق سنجرانی اس الیکشن میں صوبائی اسمبلی کے امیدواربھی ہیں ۔ان کو یہ الیکشن وغیرہ لڑنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ۔ یہ الیکشن میں امیدواربننا صرف ایک بیک اپ پلان ہے۔ عین ممکن ہے وہ مارچ میں ہونے والے سینیٹ الیکشن میں دوبارہ بلوچستان سے سینیٹربن کرواپس ایوان میں موجود بھی ہوں اور ایک بار پھر چیئرمین سینیٹ کے امیدواربھی۔اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنی ’’باپ‘‘پارٹی کو ختم نہیں کیا حالانکہ اس کے صدرجام کمال پارٹی چھوڑ کر واپس مسلم لیگ ن میں آچکے ہیں لیکن صادق سنجرانی کواپنی چالیں معلوم ہیں کہ پارٹی رہی اوربلوچستان میں چند نشستیں بھی جیت گئی تو ان کا سینیٹر بننا یقینی ہوجائے گا اس لیے ان کی توجہ اورمفاد دوبارہ سینیٹربن کر اسلام آباد کے طاقتورحلقوں کی چاکری کرنے میں ہی ہے۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے کچھ عرصہ قبل اپنے لیے ریٹائرمنٹ کے بعد لامتناہی مراعات کا بل بھی اسی چور دروازے سے منظورکرالیا تھا جس دروازے سے جمعہ کو الیکشن کے خلاف قرارداد منطورکروائی ہے۔اپنے لیے مراعات میں انہوں نے سفر کے لیے چارٹرطیارہ بھی منظورکروالیا تھا۔اس کے علاوہ انہوںنے اپنے بھائی اور باقی خاندان کا بھی بہت خیال رکھا۔ ان کے بھائی کئی سالوں سے بلوچستان کے معدنی شعبے میں سیندک کے چیئرمین بنائے گئے ۔ وہ بھائی رازق سنجرانی بغیر کوئی کام کیے نہ صرف پندرہ لاکھ روپے ماہانہ سرکاری خزانے سے وصول کررہے تھے بلکہ اسلام آباد کے منسٹر انکلیو میں ایک عالی شان فرنشڈ گھر بھی ان کے قبضے میں تھا۔ یہ گھر اور نوکری ان کے قبضے سے چندماہ پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ نے چھڑوائی ہے۔سوچیں جن کے مفادات قومی خزانے سے اس قدر گہرائی میں جڑے ہوئے ہوں ان کو الیکشن اور انتخابات کے ذریعے حکومتوں کی تبدیلی کیسے گوارا ہوسکتی ہے۔نئے الیکشن کا مطلب ہوتا ہے نئی حکومت اور نئی حکومت کا مطلب نئی الائمنٹ ، نئی محنت اور نئے جتن۔اس ساری محنت سے بچنے کا ایک طریقہ وہ ہے جوانہوں نے استعمال کیا ہے کہ الیکشن ہی نہ ہوں ملک میں ۔ الیکشن نہ ہونے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ سینیٹ کے الیکشن ہی نہیں ہوسکیں گے۔
الیکشن کے التوا کے لیے سینیٹ کی قراردادکوئی پہلی کوشش ہے اور نہ ہی آخری۔اس سے پہلے لاہور ہائی کورٹ کے ایک رکنی بینچ نے پورے ملک میں ریٹرننگ افسروں کو معطل کرکے الیکشن کے التوا کی بنیاد رکھی تھی توچیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی صاحب نے اسی رات عدالت لگا کروہ منصوبہ فوری ناکام بنایا اور دوبارہ کہا کہ آٹھ فروری پتھر پر لکیر ہے۔ اس کے بعد حلقہ بندیوں پر اعتراضات عدالتوں میں آنا شروع ہوگئے ۔ ہر دوسرے بندے کو حلقہ بندی پر اعتراض ہوگیا تو پھر سپریم کورٹ نے واضح حکم دیا کہ حلقہ بندیوں پراعتراضات کا مقصد الیکشن ملتوی کرانا ہے اس لیے کوئی عدالت حلقہ بندیوں کا کوئی کیس نہیں سنے گی۔سپریم کورٹ نے یہ واردات ناکام بنائی تو سپریم کورٹ اور پاکستان بار کونسل نے چیف الیکشن کمشنر کے استعفے کا مطالبہ کردیا۔یہ بات پیچھے ہوئی اورالیکشن شیڈول پرعمل ہونا شروع ہوا ۔سب کو یقین سا ہونے لگا تھا کہ الیکشن اپنے وقت پرہونے جارہے ہیں تو سینیٹ میں یہ ایک بارایک واردات ڈالنے کی کوشش کی گئی ۔جو لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ملک الیکشن کے بغیر اسی طرح چل سکتا ہے وہ غلطی پر ہیں۔ ہم نے سینتالیس سے ستر تک ملک بغیر الیکشن کے چلاکردیکھ نہیں لیا؟ آخر کیا ہوا؟ کتنے نظام لانے کے تجربے ہوئے ۔مارشل لا بھی لگالیا ، صدارتی نظام کا تجربہ بھی کرلیا لیکن پھر جمہوری پارلیمانی نظام کی طرف آنا پڑا۔ یہ درست کہ آئیڈیل جمہوریت نہیں ہے یہاں لیکن خدارا جیسی بھی ہے اس کو موقع تو دو۔الیکشن کے ضامن چیف جسٹس ہیں پورا ملک اس وقت ان کے ساتھ کھڑا ہے اورمیرا یقین کہ ان کی کھینچی گئی لکیر وہ خود بھی مٹانا چاہیں تو اب ممکن نہیں ہوگا۔