پاکستان میں سیاسی جماعتیں ضرورت کے تحت سیاست کرتی ہیں اورسیاسی ضرورت کے تحت ہی خود اور کارکنوں کو متحرک کرتی ہیں۔ملک میں نگران حکومت بنے دو ماہ ہونے کوآئے ہیں لیکن تاریخ میں پہلی مرتبہ ہی ہواہوگا کہ نگران دورمیں الیکشن کا ماحول نہیں بن رہایا بننے ہی نہیں دیا جارہا۔اس وقت نوازشریف کی آمد آمد ہے اوراپنے قائد کا استقبال کرنے ، اپنی پارٹی کی قوت دکھانے بلکہ اپنی پارٹی کی قوت کو مجتمع کرنے کے لیے ن لیگ بھاگ دوڑ میں باقاعدہ ہلکان ہوئی پڑی ہے۔پیپلزپارٹی ایک مہینہ پہلے سندھ میں عوامی رابطہ مہم کے لیے باہر نکلی تھی اور چاردن کے بعد واپس بیٹھ گئی ہے ۔ اب تک اپنی پارٹی کے دو اجلاس بلاچکی ہے اس کے علاوہ وہ بھی الیکشن شیڈول کا اعلان کررہی ہے تاکہ ہر طرح کی تسلی ہونے کے بعد ہی الیکشن مہم شروع کرسکے۔پی ٹی آئی کی صورتحال ویسے ہی ایسی بنادی گئی ہے کہ شاید عام کارکن تو موجود ہیں لیکن لیڈر کوئی سامنے نہیں ہے۔ اوروہ پارٹی اگر کسی جگہ جلسہ جلوس کرنا چاہتی بھی ہے تو اجازت نہیں ملتی۔
پی ٹی آئی کے بطن سے نکلی ہوئی پارٹی استحکام پاکستان کی رفتار بھی کافی سست ہے۔لوگوں کو ابھی تک استحکام پاکستان کے پہلے عوامی جلسے کا ہی انتظار ہے۔اس پارٹی نے پہلے جلسے کے لیے جھنگ کا انتخاب کیا تھا اور اس کے لیے تاریخ تیرہ اکتوبر کی رکھی تھی لیکن وہ تاریخ گزر گئی اور جلسہ منسوخ کردیا گیا۔ اب بتایا جارہاہے کہ پارٹی کا پہلا جلسہ 28اکتوبر کو خانیوال میں ہوگا اور اسحاق خاکوانی اس کے میزبان ہوں گے۔استحکام پاکستان جس دن وجود میں آئی تھی اس دن پی ٹی آئی کے مفروررہنما چودھری مونس الٰہی نے ایک ٹویٹ کیا تھا کہ’’ پارٹی بن گئی ہے ،لیڈرزآگئے ہیں بس کارکنان کا انتظارہے‘‘ استحکام پاکستان کے لیے کارکنوں کو ساتھ ملانا اور ان کو شوکرنا ایک چیلنج بنارہا ہے ۔میں نے استحکام پاکستان کے اندرکچھ دوستوں سے اس بابت سوال کیا تو وہی جواب ملا جس کی توقع تھی ۔ بتایاگیا کہ استحکام پاکستان دوسری سیاسی جماعتوں سے کچھ مختلف ہے ۔ یہ پارٹی ایسے لیڈرزپر مشتمل ہے جو عام طورپرحلقوں کی سیاست کرتے ہیں اور حلقوںکی سیاست کرنے والے خود ہی پارٹی ہوتے ہیں ۔ ان کے حلقے کے ووٹرنہ پارٹی دیکھتے ہیں نہ جھنڈااور نہ ہی انتخابی نشان وہ اس شخص کو دیکھتے ہیں اور ووٹ ڈال آتے ہیں۔اس پارٹی میں شامل اکثریت ان زمینداروں اور جاگیرداروں کی ہے جن کی زمینوں پر کام کرنے والے مزارع ہی ان کے ووٹر ہیں۔
اس پارٹی کے صدر علیم خان ہوں یا چیئرمین جہانگیر خان ترین دونوں ہی ابھی زیادہ متحرک نہیں ہیں۔علیم خان گزشتہ پوراماہ ملک سے باہر گزار کر آئے ہیں تو جہانگیر ترین کی آخری مصروفیت روزنامہ خبریں گروپ اور چینل فائیو کے روح رواں اور سربراہ جناب امتنان شاہد سے ملاقات سامنے آئی ہے۔ یہ ملاقات چند دن پہلے ہوئی جس میں جہانگیر ترین سیاسی مستقبل کے حوالے سے کافی پرامید دکھائی دیے۔استحکام پاکستان کے لیے ابھی تک ایک بات اچھی ہوئی ہے کہ گزشتہ ہفتے الیکشن کمیشن نے اس پارٹی کو رجسٹرکرلیا گیاہے۔یعنی اب استحکام پاکستان پارٹی پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی لسٹ میں قانونی طوپرشامل کرلی گئی ہے۔الیکشن کمیشن کی طرف سے استحکام پاکستان کی رجسٹریشن کے بعد کچھ دانشوروں سے میں نے سنا کہ چونکہ استحکام پاکستان کے چیئرمین جہانگیرترین ترین ہیں اور وہ سیاست کے لیے نااہل ہیں تو ان کو الیکشن کمیشن نے اس پارٹی کا چیئرمین تسلیم کرکے شاید ان کا وہ اسٹیٹس ختم کردیا ہے۔میں نے اس تشریح کی مزید حقیقی تشریح کے لیے ریسرچ شروع کی تو الیکشن کمیشن کا نوٹیفیکیشن تلاش کیا۔ الیکشن کمیشن کی کوریج کرنے والے کچھ دوستوں سے مدد لی تو پتہ چلا کہ پارٹی کے قانونی اور الیکشن کمیشن کے معاملات میں جہانگیرترین کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔ وہ اس پارٹی میں ویسے ہی دلوں کے قائد ہیں جس طرح نوازشریف دلوں کے وزیراعظم ہیں۔اس پارٹی کے صدر علیم خان صاحب ہیں اور ساری قانونی کارروائی انہی کے نام کے ساتھ انجام کو پہنچی ہے۔اس سارے معاملے میں پارٹی کی سیالکوٹ سے اہم رہنما اور سابق وزیراطلاعات فردوس عاشق اعوان نے اہم کردار ادا کیا۔ پارٹی رجسٹر ہوگئی ہے لیکن انتخابی نشان کا معاملہ ابھی زیر التوا ہے۔الیکشن کمیشن نے پارٹی کو حکم دیا ہے کہ وہ استحکام پاکستان کے انٹراپارٹی الیکشن کے نتائج کمیشن میں جمع کروائے تاکہ انکے انتخابی نشان کا فیصلہ بھی کیا جائے۔ استحکام پاکستان نے الیکشن کمیشن سے شاہین کا انتخابی نشان مانگ رکھا ہے لیکن اس میں ایک تکنیکی مسئلہ تھا جو اب حل ہوتا نظر آرہا ہے۔ شاہین کا انتخابی نشان اس سے پہلے مرحوم پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کے پاس تھا۔ یہ پارٹی گزشتہ دنوں الیکشن کمیشن نے تحلیل کرنے کا اعلامیہ جاری کردیا ہے تو یہ خیال کیا جارہا ہے کہ پارٹی تحلیل ہونے کی وجہ سے اب شاہین کا انتخابی نشان استحکام پاکستان کو مل جائے گا۔
استحکام پاکستان کے چیئرمین جہانگیر ترین اورصدر علیم خان کے سیاسی سفرمیں کافی چیزیں مشترک ہیں ۔دونوں نے ہی پارلیمانی سیاست کا سفر2002کے الیکشن سے شروع کیا۔دونوں ہی نے سیاست کا آغازایک ہی پارٹی مسلم لیگ ق سے کیا ۔دونوں نے پہلا الیکشن قومی اسمبلی کے لیے لڑا ۔جہانگیرترین قومی اسمبلی پہنچنے میں کامیاب رہے لیکن علیم خان پہلا الیکشن ہارگئے۔علیم خان نے 2002کے الیکشن میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پرلاہور کے حلقہ 97(پرانی حلقہ بندی کے مطابق)سے الیکشن میں حصہ لیا۔ علیم خان کے مقابلے میں منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹرطاہرالقادری نے الیکشن لڑا۔ یہ حلقہ لاہورمیں ان علاقوں پر مشتمل تھا جہاں پر منہاج القرآن کامرکزاور مہناج یونیورسٹی واقع ہے۔اس الیکشن میں ڈاکٹر طاہرالقادری جیت گئے اور علیم خان کو شکست ہوگئی۔طاہرالقادری نے اس الیکشن میں 25ہزارووٹ حاصل کیے جبکہ علیم خان 20ہزار پانچ سو ووٹ حاصل کرسکے۔دوسری طرف جہانگیرترین نے رحیم یار خان سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا۔ جہانگیرترین کی شادی چونکہ ایک سیاسی خاندان میں ہوئی تھی اس لیے اسی خاندان نے اپنے آبائی حلقے سے ترین کو ٹکٹ دیا اوروہ قومی اسمبلی میں چلے گئے۔جہانگیرترین اسی دورمیں شوکت عزیزکی کابینہ میں شامل کرلیے گئے اور صنعت کے وزیربن گئے۔دوسری طرف علیم خان کا سیاسی سفر اس ایک شکست کے ساتھ ختم نہیںہوابلکہ ق لیگ نے ان کو لاہور کے علاقے گڑھی شاہو سے پنجاب اسمبلی کے ضمنی الیکشن کا ٹکٹ دیدیا۔ یہ ضمنی الیکشن علیم خان جیت گئے ۔جس طرح جہانگیرترین وفاقی وزیر بنے اسی طرح علیم خان بھی صوبائی وزیربن گئے۔
جہانگیرترین نے دوہزارآٹھ کا الیکشن فنکشنل لیگ کے ٹکٹ پررحیم یار خان سے لڑااورجیت کر دوسری بار قومی اسمبلی پہنچ گئے۔ جہانگیرترین کبھی پنجاب اسمبلی نہیں آئے تو علیم خان کبھی قومی اسمبلی نہیں پہنچ پائے۔یہاں جہانگیرترین نے 2008میں دوسری کامیابی حاصل کی اور ایم این اے بنے وہیں علیم خان نے 2008کے الیکشن میں قومی اسمبلی اورصوبائی اسمبلی کی دونوں نشستوں سے الیکشن میں حصہ لیا لیکن دونوں نشستوں سے الیکشن ہار گئے ۔علیم خان اسمبلی سے باہر تھے تو جہانگیرترین کا بھی اسمبلی میں دل نہ لگا ۔ جہانگیرترین نے تین سال بعد فنکشنل لیگ اور قومی اسمبلی چھوڑر کرپاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی۔علیم خان بھی ق لیگ چھوڑ کرپی ٹی آئی میں آگئے۔دونوں نے پی ٹی آئی میں دل کھول کر پیسا خرچ کیا۔ پی ٹی آئی کے عروج کا پھل نہ جہانگیرترین کو کھانا نصیب ہوا نہ علیم خان کو۔جہانگیرترین کو الیکشن سے پہلے عمران خان کے لیے قربانی کا بکرابناکرنااہل کردیا گیاتو علیم خان کو لاہور کے اپنے پرانے حلقے سے پنجاب اسمبلی کی نشست پر کامیابی تو مل گئی لیکن عمران خان نے ان کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کے بجائے نیب کا مہمان بنادیا۔دونوں ہی عمران خان کی بے وفائی کا شکار ہوئے توپی ٹی آئی سے ناطہ ٹوٹنے کا آغاز ہوگیا۔دونوں کو عمران خان کے خلاف کھڑا ہونے یا ان سے بدلہ لینے کا موقع عدم اعتماد کے وقت ملا۔قومی اسمبلی ہو یاپنجاب اسمبلی دونوں جگہ ہی عدم اعتماد کے موقع پرترین گروپ اورعلیم گروپ نے پی ٹی آئی کے بجائے پی ڈی ایم کا ساتھ دے کر عمران خان کی حکومت گرادی۔علیم خان نے پنجاب اسمبلی سے استعفی دیا لیکن ضمنی الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔ان کے حلقے سے پی ٹی آئی جیت گئی تھی۔
اب دونوں نے پی ٹی آئی سے ایک نئی پارٹی نکال کر کھڑی کردی ہے ۔اس پارٹی کا پہلا اور آخری امتحان الیکشن میں ہوگا۔جو لوگ الیکشن لڑیں گے ان کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ استحکام پاکستان پارٹی اس الیکشن میں کچھ نشستیں جیت کر ایک پریشر گروپ کی صورت میں سامنے آسکتی ہے جو اگلی حکومت بنانے کے لیے اہم ہوسکتا ہے۔