حکومت نے اعلان کیا کہ اب ایسا بلدیاتی نظام لایا جائے گا جو پہلے سے بہترین ہوگا
بلدیاتی ادارے کسی بھی جمہوری نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں
لائی2018ء کو ہونیوالے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد تحریک انصاف نے مرکز، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اپنی اتحادی حکومتیں قائم کیں۔ عمران خان نے18اگست 2018ء کو بطور وزیراعظم اپنے عہدے کا حلف اٹھایا توقوم سے خطاب کے دوران اپنی انتخابی مہم میں کیے گئے وعدوں کو دہراتے ہوئے قوم کو90 دنوں میں تبدیلی کی نوید سنا ئی۔ انہوں نے اپنے انتخابی منشور میں کچھ ایسے بلند بانگ دعوے کیے تھے کہ ماضی کی حکومتوں سے ستائے ہوئے عوام کو عمران خان کی صورت میں ایک مسیحا نظر آنے لگا۔وہ روشن مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے امید بھری نظروں سے پی ٹی آئی حکومت کی طرف دیکھنے لگے۔ پہلے 90دن پھر تین ماہ پھر چھ ماہ، لیکن ان کا صبر جواب دینے لگا۔ انہیں اپنے خواب بکھرتے دکھائی دیئے،انہیں لگا کہ ان کے ارمانوں کا خون کیا جا رہا ہے لیکن ایک موہوم سی امید قائم رہی۔ قوم کو ”آپ نے گھبرانا نہیں“ کا درس دینے والوں سے قوم باقاعدہ سوال کرنے لگ گئی کہ ہمیں گھبرانے کی اجازت دے دی جائے کہ مہنگائی نے عوام کا جینا محال کر دیا۔
ایک سال گزرا پھر دوسرا سال بھی ایسے ہی گزر گیا اور اب پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئے ایک ہزار دن سے زائد ہو چکے لیکن جس تبدیلی کا وعدہ عمران خان نے قوم سے کیا تھا وہ محض سراب ثابت ہوئی۔ حالانکہ 9جولائی2018ء کو اپنی جماعت کے انتخابی منشور کا اعلان کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ اس میں ایسی کوئی چیز شامل نہیں جو قابلِ عمل نہ ہو اور ہم یہ سب کر کے دکھائیں گے۔ عمران خان نے جہاں 50لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں فراہم کرنے کا اعلان کیا وہیں یہ بھی کہاتھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت عوام کو بااختیار بنائے گی اور بلدیاتی اداروں کے ذریعے اختیارات اور فیصلہ سازی نچلی سطح تک منتقل کرے گی۔ عمران خان نے اپنی ہر تقریر میں گورننس ماڈل میں بلدیاتی انتخابات کا ذکر کیا اور عزم کیا کہ حکومت میں آنے کے بعد ان کی پہلی ترجیح بلدیاتی انتخابات کروانا ہو گی۔ وزیر اعظم عمران خان بلدیاتی اداروں کے قیام اور ان اداروں کو جمہوریت کے استحکام کیلئے جتنا ناگزیر اور ضروری قرار دیتے رہے اتناشاید پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی سیاسی رہنما نے دیا ہو۔ بلدیاتی اداروں سے متعلق ان کایہ موقف آج بھی اکثر لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہوگا جب وہ بڑے مدلل انداز میں مغرب اور بر طانیہ میں قائم مقامی حکومتوں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اسی نوع کا نظام پاکستان میں بھی رائج کرنے کا عزم ظاہرکرتے تھے۔ لیکن موجودہ حکومت کے تین سال گزر چکے ہیں مگر بلدیاتی انتخابات کا وعدہ پورا نہیں ہوا۔یاد رہے کہ 2018ء میں تحریک انصاف نے جب حکومت سنبھالی تو اس وقت صوبہ پنجاب میں سابقہ حکومت کا بلدیاتی نظام عملی حالت میں موجود تھا۔ لیکن مئی 2019 ء میں پی ٹی آئی حکومت نے اس بلدیاتی نظام کوختم کر دیا جس سے بیک جنبش قلم 58 ہزا عوامی نمائندے غیر فعال ہو گئے۔ حکومت نے اعلان کیا کہ اب ایسا بلدیاتی نظام لایا جائے گا جو پہلے سے بہترین ہوگا۔اس سلسلے میں 4 مئی 2019ء کو پنجاب حکومت نے صوبے میں نیا بلدیاتی نظام متعارف بھی کروایا۔ اس نئے نظام کیلئے دو ایکٹ پاس کیے گئے۔ ایک ویلج پنچایت اینڈ نیبرہوڈ ایکٹ 2019 ء جبکہ دوسرا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 ء کے نام سے تھا۔ کہا گیا کہ اس میں دیہی علاقوں میں ویلج اور پنچایت کونسلز قائم ہوں گی جن کے نمائندگان بلاواسطہ تحصیل کونسل کی تشکیل کریں گے جبکہ شہری علاقوں میں نیبرہوڈ کونسلیں بنائی جائیں گی۔ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 ء کے تحت پنجاب بھر میں 3281 یونین کونسل کی جگہ 22 ہزار یونین کونسلز بنا دی گئیں۔
بلدیاتی ادارے کسی بھی جمہوری نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان اداروں کے فعال ہونے سے عوام کے چھوٹے چھوٹے مسائل ان کی دہلیز پر ہی حل ہو جاتے ہیں۔ لیکن نہ جانے کیوں ہر آنے والی حکومت ان مقامی اداروں کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہوئے انہیں ختم کر دیتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ آمروں نے ہی بلدیاتی نمائندوں کے چناؤ کیلئے انتخابات کروائے۔ جنرل ایوب خان ہوں یا جنرل ضیاء الحق یا جنرل پرویز مشرف، ان جرنیلوں کے ادوار میں لاکھ برائیاں سہی لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ ان ادوار میں بلدیاتی اداروں کو بڑی اہمیت دی گئی اور ہمارے کئی موجودہ سیاستدان انہی انتخابات میں کامیاب ہو کر قومی و صوبائی سیاست میں اپنی شناخت بنائے ہوئے ہیں۔ میرے نزدیک تو یہ مقامی ادارے سیاستدانوں کیلئے سیاسی تربیت گاہیں بھی ہوتی ہیں جہاں انہیں عوام کے مسائل کو سمجھنے اور پھر ان کے حل کیلئے اپنی صلاحیتیں منوانے کا موقع ملتا ہے۔ویسے تو 25 مارچ 2021ء کو سپریم کورٹ نے پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء کی دفعہ 3 کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے صوبہ بھر کے تمام بلدیاتی ادارے بحال کرنے کا حکم جاری کردیا تھا۔ لیکن ابھی تک یہ ادارے فعال نہیں ہوئے۔ اس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ عوام نے بلدیاتی نمائندوں کو 5 سال کے لیے منتخب کیا تھا، ایک نوٹیفکیشن کا سہارا لے کر انہیں گھر بھجوانے کی اجازت نہیں دے سکتے،آرٹیکل 140 کے تحت قانون بناسکتے ہیں لیکن ادارے کو ختم نہیں کرسکتے۔ دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے تھے کہ پہلے 6 ماہ کے لئے بلدیاتی اداروں کو ختم کرنے کے بعد انتخابات کا اعلان کیا گیا، اس کے بعد 21 ماہ کی توسیع کی گئی اور اب انتخابات کو مشترکہ مفادات کونسل سے مشروط کر رہے ہیں، اس سے عوام اپنے نمائندوں سے محروم ہوگئے ہیں۔
لیکن میں ان سطور کی وساطت سے یہ اپیل ضرور کرنا چاہوں گا کہ وہ مقامی اداروں کی بحالی یا نئے انتخابات کی طرف فوری توجہ دیں۔ پی ٹی آئی حکومت کو تین سال ہو چکے اور اس سال کے اندر یہ انتخابات منعقد نہ کیے جا سکے تو پھر ان کا جلد انعقاد خطرے میں پڑ جائے گا کیونکہ اگلا سال تو آئندہ عام انتخابات کی تیاریوں کا سال ہو گا۔ قوم جہاں عمران خان کے دیگر وعدوں کے ایفاہونے کا انتظار کر رہی ہے وہیں مقامی حکومتوں کے انتخابات کا بھی جلد انعقاد چاہتی ہے تاکہ ان کے مسائل مقامی سطح پر حل ہو سکیں۔
(کالم نگارسیاسی وسماجی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭