لاہور (خبریں، چینل۵ ویب ڈیسک) حمید ہارون نے کہا کہ ہر ملک میں پریس کا ایک پریڈ ہوتا ہے ان حالات میں جب جب سٹیٹ کی ذمہ داری بڑھتی ہے سیاسی سرگرمیاں بڑھتی ہیں تو اسی طرح پریس کی ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے۔ پاکستان بھی بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت چاہے ڈان اخبار یا اور تھے ان کا اپنا طریقہ کار تھا لیکن جیسے ہی سول سوسائٹی بڑھی معاشرے میں تبدیلی آئی ۔ اس تبدیلی کےدوران کچھ لوگو ایسے ہیں جو اہم سمجھے جاتے ہیں۔ 1960 میں لاہور میں ایک ایڈیٹوریل رپورٹنگ کی لہر آگے چلی۔ میں دیانتداری سے کہتا ہوں کہ اس دوران فیض احمد فیض اور آئی اے رحمان کے بعد اردو پریس میں ایک لاٹ 1970 کے عشرے میں دیکھی جس میں ضیا شاہد جیسے نام، مجیب الرحمن شامی، خوشنود علی اور ضیا شاہد کے ساتھ خالد حسن تھے۔
حسن نثار نے کہا کہ ناظرین سے التماس کرتا ہوں کہ ان کی مغفرت کیلئے دعا کریں کل میں بھابھی یاسمین سے بات کرہا تھا کہ کوئی ایک ماہ پہلے دل کیا ملنے چلا گیا، ان کے بھی ایک بڑے چھوٹے بھائیوں کی طرح میاں حبیب میں نے کہا کہ مجھے ضیا شاہد کے پاس لے چلو اس سے بھی کوئی بھی دو تین مہینے پہلے دو اڑھائی کیلئے ملاقات رہی میں بھابھی یاسمین سے کہہ رہا تھا کہ مجھے عجیب سی کوفت ہو رہی ہے میں نہ ملتا۔ کیونکہ ان سے پلان کر کے بات کرکے اٹھا تھا کہ اچھا مہینہ میں ایک آدھ بار ملاقات کچھ اس طرح کا معاملہ تھا۔ بحیثیت پروفیشنل میں نے زندگی میں میرا آغاز بہت خوبصورت تھا سرور سکھیرا تھے۔ دھنک کے ایڈیٹر ان جیسا کری ایٹو آدمی تو زندگی میں کم ملتا ہے۔