تازہ تر ین

چند اینکرز سوچیں کیا وہ واقعی سچ بولتے ہیں جو مولانا کی بات بری لگی

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) غریب دیہاڑی دار مزدور طبقہ کو کھانا راشن فراہمی کیلئے ہم نے آئیڈیا دیا اور طے کیا کہ اس کی مثال پیش کریں گے، لاہور، راولپنڈی سے عدنان فاﺅنڈیشن کے تحت غریبوں کو کھانا کھلانے کا آغاز کیا جو بعد میں ملتان، پشاوراور کراچی تک جا پہنچا۔ 23,24 دنوں میں ایک لاکھ سے زائد لوگوں کو کھانا کھلایا گیا۔ خبریں گروپ کے ورکرز اور دیگر لوگوں نے کارخیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ہم خطا کار گنہگار ہیں اللہ کسی بہانے ہمیں معاف فرما دے۔ ایک بھی بھوکے کو کھانا کھلانا بہت بڑی نیکی ہے جس کا اجر صرف اللہ ہی دے سکتا ہے۔ ہمارا کوئی خاص ٹارگٹ نہیں تھا تاہم جب پتہ چلا کہ ایک لاکھ سے زائد افراد کو کھانا کھلایا گیا تو دل کو اطمینان ملا۔ خبریں کے ملازمین نے سخت لاک ڈاﺅن کے دوران جب کرونا کا ہر طرف خوف تھا بڑی بہادری کے ساتھ جانوں پر کھیل کر غریبوں کو کھانا فراہم کیا۔ بھوکے لوگ کھانے کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں ڈر تھا کہ کہیں بھوک انہیں مجبور نہ کر دے کہ وہ ریستورانوں اور گھروں پر دھاوا بول دیں بہت سے لوگ ایسے بھی دیکھے جو کہ اپنی کسیاں لئے دیہاڑی کے لئے آئے تھے اور پھر گاڑی والوں کو روک کر امداد مانگ رہے تھے وہ مدد دیئے بغیر گاڑی والوں کو گزرنے تو دیتے تھے۔ ہم نے اسی مزدور طبقہ کی مدد کا فیصلہ کیا۔ لوگوں نے ہماری بڑی مدد کی آٹا چینی دیگر راشن بھیجتے رہے جس کے لئے ان کا شکر گزار ہوں، ہم خبریں رضا کار پروگرام کو مزید شہروں خصوصاً جنوبی پنجاب تک بڑھائیں گے۔ میں ذاتی طور پر وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی، پارلیمانی سیکرٹری ریلوے فرخ حبیب، وفاقی وزیر فواد چودھری، فردس عاشق اعوان کا شکر گزار ہوں جنہوں نے ہماری حوصلہ افزائی کی۔ حکومت بھی اب ٹائیگر فورس کو زیادہ وسائل کے ساتھ میدان میں اتار رہی ہے۔ ہم بھی لوگوں کو کھانا فراہم کرنے کا پروگرام جاری رکھیں گے، ہم نے حکومت اور ٹائیگر فورس کے لئے ایک مثال قائم کی ہے۔ بہت سے اور ادارے بھی ان مشکل حالات میں امدادی کام کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کے بیچ جا کر کھانا تقسیم کرنا جن کے پاس سینی ٹائزر ماسک گلوز کوئی چیز نہیں بڑا جان جوکھوں کا کام تھا جو ہمارے رضا کاروں نے کیا۔ شاہ محمود اور شیخ رشید نے خصوصی طور پر مجھے مبارکباد کا پیغام بھیجا، اس طرح مختلف طبقہ فکر کی جانب سے مبارکبادوں کے پیغامات ملتے رہے جس پر خوشی ہوتی تھی لاک ڈاﺅن اور وبا کے باعث شہروں میں خوف کی فضا تھی خصوصاً کراچی گیا تو دیکھا کہ شاہراہ فیصل جہاں رش کے باعث ٹریفک جام رہتی سنسان دیکھ کر دل میں خوف پیدا ہوا۔ ان حالات میں مخیر لوگ جو لوگوں کی مدد کرنا چاہتے تھے لیکن باہر نکلنے سے ڈرتے تھے کو راستہ دکھانا ضروری تھا جو ”خبریں رضا کار“ نے دکھایا لوگوں نے ہم سے ویب سائٹ پر رابطے کئے اور کہا کہ ہمارے شہروں میں بھی آئیں پنجاب ،کے پی کے اور آزاد کشمیر سے بہت سی ای یلز بھیجی گئیں۔ لوگ تو مدد اور خدمت کرنا چاہتے ہیں تاہم وہ ایک حقیقی پلیٹ فارم چاہتے ہیں۔ عدنان شاہد فاﺅنڈیشن کی بنیاد 2008ءمیں رکھی گئی، اس ادارے کے تحت 2008 میں زلزلہ متاثرین کی مدد کی اور 5 ہزار متاثرین کے لئے بستی آباد کی گئی۔ 2012ءکے سیلاب متاثرین کی مدد کی، ملتان سے ڈی جی خان رحیم یار خان بھکر تک ہم نے ریلیف کا بڑا کام کیا، فوج اور دیگر ادارے لوگوں کو سیلاب سے نکال کر لاتے تھے اور عدنان شاہد فاﺅنڈیشن والے لوگوں کو راشن مہیا کرتے تھے۔ کچھ عرصہ قبل بلوچستان میں بہت زیادہ بارشیں ہوئیں تو وہاں بھی ریلیف کے کام کئے، فاﺅنڈیشن اپنے قیام سے اب تک مختلف رفاہی کاموں میں مصروف رہی ہے۔حوصلہ افزا جملوں پر مبنی پیغامات اور محبت کا اظہار کرنے والوں کا خصوصی طور پر شکر گزار ہوں، ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے کہا کہ آپ نے کوئی نیا کام نہیں کیا اس لئے مبارکباد نہیں دیں گے۔ ہم سب ہی خطاکار ہیں تاہم جب بات انسانیت کی خدمت کی ہو تو ہمیں سطحی سوچ نہیں اپنانی چاہئے اور دولت سے آگے بڑھ کر سوچنا چاہئے، اگر کوئی اچھا کام کر رہا ہو تو آپ کا صرف ایک جملہ یا پیغام اس کا حوصلہ بڑھاتا ہے۔ مجھے شروع میں ڈر تھا کہ کہیں ہمارے کھانا دینے کے منصوبے بارے لوگ یہ نہ کہیں کہ اپنی تشہیر چاہتے ہیں اس لئے سوچا کہ اس بارے خبریں شائع یا کمپین نہ کی جائے تاہم پھر ضیا شاہد صاحب اور دیگر دوستوں سے مشاورت کی اور متفقہ فیصلہ کیا کہ ایسی خبریں شائع کی جانی چاہئیں تا کہ اور لوگوں کا بھی مدد کرنے کا حوصلہ بڑھے۔ ہر شخص کو اپنے اردگرد دیکھنا چاہئے کہ کوئی بھوکا تو نہیں ہے۔ ہم نے اپنے پروگرام بارے بہت سے لوگوں کو پیغام پہنچایا کہ چند سیکنڈ کا حوصلہ افزا پیغام دیں تا کہ ہماری ٹیم کا حوصلہ بڑھے تاہم افسوس سے کہہ رہا ہوں کہ ہمیں جواب ملا کہ اس چند سیکنڈ کے پیغام کے کتنے لاکھ دیں گے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم آج عذاب الٰہی کا شکار ہیں اور اپنی ہی شیطانی حرکتوں کی وجہ سے گھروں میں بند ہیں۔ کسی امدادی کام کرنے والے کی حوصلہ افزائی بڑی اہم ہوتی ہے، ہمیں چھوٹی چھوٹی چیزیں بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں۔ بہت سے ادارے اور افراد اپنے طور پر امدادی کام کر رہے ہیں۔ جن میں عامر لیاقت، حرا مانی، الخدمت فاﺅنڈیشن اور ہمارے دوست ابرارالحق نمایاں ہیں۔ ہمیں امدادی کاموں میں کمرشل ازم نہیں لانا چاہئے، ہمیں اپنے رویے تبدیل کرنا ہوں گے۔ تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالا تو معیشت دگرگوں تھی پہلا سال تو سیٹل ہونے اور قرضوں کی بھاری اقساط اتارنے میں گزر گیا، پھر بھارت سے تنازع کا سامنا رہا اب کرونا کا مسئلہ جاری ہے۔ میڈیا معاشرے کا عکس دکھاتا ہے۔ بدقسمتی سے جھوٹ ہمارے معاشرے میں رچ بس چکا ہے ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکا ہے۔ پچھلے دنوں مولانا طارق جمیل نے ایک پروگرام میں اجتماعی بات کی کہ جھوٹ عام ہو چکا ہے میڈیا بھی جھوٹ بولتا ہے تو کچھ صحافیوں نے اس بات پر شور مچا دیا جبکہ ان کی بات میں وزن تھا۔ شورمچانے والوں کو ایک بار خود کو آئینے میں دیکھ کر غور کرنا چاہئے کہ اگر ایک بندے نے کسی خامی کی نشاندہی کی ہے تو اس کا مقصد کیا تھا۔ مولانا طارق جمیل نے بھی اسی لئے بات کی کہ جھوٹ ہمارے معاشرے میں رچ بس چکا ہے اور ہم جھوٹ بولنے کو برا نہیں سمجھتے۔ ہمیں تو مولانا طارق جمیل کو سپورٹ کرنا چاہئے تھا کہ انہوں نے معاشرے کی خامی کی نشاندہی کی۔ میڈیا جب بھی آئینہ دکھاتا ہے تو برا لگتا ہے، سیاستدان جب اپوزیشن میں ہوں تو میڈیا کے گن گاتے ہیں حکومت میں ہوں تو برا لگنے لگتا ہے۔ وزارت اطلاعات میں تبدیلی کی گئی اور عاصم سلیم باجوہ، شبلی فراز کو آگے لایا گیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ کچھ اور تبدیلیاں بھی ہونے جا رہی ہیں۔ آئندہ کچھ دنوں میں میڈیا کو بھی شاید کچھ ادائیگیاں کی جائیں میڈیا ہاﺅسز کو ادائیگیاں کی گئیں تو لازمی طور پر اس کے اثرات نیچے ورکرز تک جاتے ہیں۔ شاید کچھ دنوں یا ہفتوں میں حکومت میڈیا کو کچھ سہولتیں دے گی۔ میڈیا انٹرٹینمنٹ بارے یہ کہنا کہ وہاں اچھا کام ہو رہا ہے جس کے معاشرے پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں بہت مشکل ہے۔ ہر شعبہ میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں۔ پاکستان فلم انڈسٹری میں بڑے زبردست لوگ کام کرتے رہے ہیں جنہوں نے کئی اہم پراجیکٹس پر کام کیا۔ ہمارے بہت سے ڈائریکٹرز بھارت سے بڑے متاثر نظر آتے ہیں حالانکہ پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری جنوبی ایشیا میں ٹاپ کی انڈسٹری رہی۔ اب بدقسمتی سے انٹرٹینمنٹ چینلز اور لکھاری بہت زیادہ ہو چکے ہیں جن کی کوئی خاص پالیسی بھی نہیں ہے۔ ڈراموں میں یہ خیال نہیں رکھا جاتا کہ ہمیں اپنے معاشرے کے مطابق کسی حد تک لبرل ازم کو دکھانا ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ معاشرے کو پرانے خیالات کا ہونا چاہئے تاہم ہمارا ایک کلچر ہے عقائد ہیں جن کے مطابق چلنا ضروری ہے۔ جن چیزوں کو بھارت میں پروموٹ کیا جاتا ہے ضروری نہیں کہ ہم انہیں پروموٹ کریں ہمیں اپنے کلچر کو مطابق فلم اور ڈرامے بنانا ہوں گے۔ بہت سے ملکوں میں آزادی اظہار کا مطلب چند قومی مفاد کی چیزیں ہیں جس پر بات نہیں کی جاتی، بدقسمتی سے پاکستان یا ان ممالک میں کوئی قومی مفاد بارے بات کرے تو کہا جاتا ہے کہ آزادی اظہار یا آزادی پریس کے بیریئر سے باہر نکل رہا ہے۔ پاکستان میں آج تک قومی مفاد کی جامع تعریف ہی نہیں ہو سکی۔ جب قومی مفاد کی تعریف بیان ہو گی تب ہی بتانے کے قابل ہوں گے کہ میڈیا کتنا آزاد ہے اور کتنا بندھا ہوا ہے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv