تازہ تر ین

2019مشکلات ،اختلافات کی نذر ،نئے سال میں بہتری کی امید ،ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف سینئر صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ2019ءبڑا پرآشوب سال ہا اس کے باوجود کہ نئی حکومت آئی تھی لیکن یہ پورا سال ایک سے بڑی مشکلات کا سال رہا۔ مہنگائی، بیروزگاری، صنعت کاروں کے مسائل اور پھر دکانداروںکے مسائل، پٹرول، ڈیزل، گیس، آٹے اور ٹماٹر کی قیمتوں میں اصافہ کوئی بھی ایسا شعبہ نہیں جس سے خیر کی خبر آئی ہو۔ اب کچھ حالات بہتر ہوتے نظر آتے ہیں لیکن پچھلا پورا سال مشکلات کا سال رہا ہے۔ اپوزیشن نیب کے خلاف سرگرم عمل رہی مولانا فضل الرحمان نے آزادی مارچ کے نام بڑی تعداد میں اسلام آباد لے جا کر وہاں خیمہ زن کروائے اور انہوں نے پہلی مرتبہ پاکستان میں آرمی کے وجود کو ہی متنازعہ بنا دیا اور کہا کہ عمران خان سلیکٹڈ وزیراعظم ہے الیکٹڈ وزیراعظم نہیں ہے۔ یہ بہت ٹرمائل کا سال رہا ہے۔ نئے سال کی آمد کے بعد کچھ باتیں، کچھ اشارے ہیں کہ کچھ بہتری کے آثار نظر آتتے ہیں لیکن یہ جب آئیں گے تو دکھائی دے گا فی الحال بیروزگاری اور مہنگائی نے سر پر چڑھ کر لوگوں پر جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔ بہرحال جو مشکلات کا سال تھا وہ گزر گیا اب دوسرے سال کے شروع میں کچھ امیدیں نظر آ رہی ہیں لگتا ہے کہ شاید اتنی زیادہ مشکلات نہ ہوں۔ جتنی پچھلے سال تھیں کیونکہ حکومت کو صحیح راستہ نظر آیا ہے تقریباً ہر شعبے میں اصلاحات ہو رہی ہیں۔ تازہ ترین شکل یہ ہے کہ نیب کے لئے بندش کر دی گئی وہ تاجروں، دکانداروں کو گرفتار نہ کرے۔ پچاس کرور سے نیچے کے کسی کیس کو وہ نہ پکڑے اس سے تھوڑے سے حالات بہتر ہوں گے۔ مجھے اب امید ہے کہ بہتری آئے گی اور بہتری کے آثار بھی نظر آ رہے ہیں۔ مجھے اُمید ہے کہ پچھلے سال کی نسبت یہ سال بہتر ہو گا۔ ضیا شاہد نے آرمی چیف کی توسیع کے حوالہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس میں اتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور جتنے برے طریقے سے سپریم کورٹ میں یہ معاملہ چلا اور اس پر جو حکومت کی ڈانٹ ڈپٹ ہوئی اور اس کی نمائش ہوئی کہ جا بجا اس کی غلطیاں سامنے آئیں۔ آج بھی صورت حال اسی طرح سے ہے ابھی تک طرح سے درپیش ہے قانون سازی ابھی نہیں ہوئی اس کے برعکس انڈیا میں بڑی خاموشی کے ساتھ ایک مسئلہ کو 62 سال کی عمر سے 65 سال تک 3 سال بڑھا کر آرمی چیف کی نہ صرف تین بڑھا دیئے بلکہ ان کو چیف آف ڈیفنس بنا کر دیا۔ ہمارے ہاں چیف آرمی سٹاف کے پاس وہ اختیارات نہیں ہوتے جو انہوں نے دے دیئے۔ دنیا میں کسی کو کانوں کان خبر ہوئی نہ دنیا میں اتنی جگ ہنسائی ہوئی نہ ہماری فوج پر اتنی کڑی تنقید ہوئی نہ ان کی اپوزیشن پارٹیوں نے اس پر تنقید کی نہ ہی ان کو الیکشن کے ساتھ ملوث کیا گیا وہاں کسی ہاری ہوئی پارٹیوں میں سے بھی کسی نے یہ الزام نہیں لگایا کہ فوج نے کسی جگہ کوئی گڑ بڑ کی ہے اور اس طرح سے جبکہ یہاں الیکٹڈ وزیراعظم کو سلیکٹڈ وزیراعظم کہا گیا مولانا فضل الرحمن کی طرف سے اور بار بلاول بھٹو اور مسلم لیگ ن کی طرف سے کہا گیا کہ آئندہ ہم پسند نہیں کرتے کہ الیکشن کے دوران فوج کا کسی بھی قسم کا کوئی رول ہونا چاہئے حالانکہ فوج کا رول جو ہے وہ آئین کے مطابق ہوتا ہے جس میں کسی بھی مرحلے پر اس کو بلایا جا سکتا ہے سول انتظامیہ اپنی مدد کے لئے۔ انڈیا نے اتنے بڑے مسئلہ کو کس خوش اسلوبی سے حل کر لیا اور ہمارے ہاں اب تک حل نہیں ہوا۔ اور ابھی تک پینڈنگ پڑا ہے۔
کنوردلشاد صاحب کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم بھی انڈیا ہی کی طرح صرف ایک قانون میں ترمیم کر کے جو مدت ملازمت تھی اس میں تین سال کا اضافہ کر کے آگے بڑھا سکتے تھے اور اس سلسلے میں نہ تو سپریم کورٹ جانا پڑتا نہ سپریم کورٹ کو حکم دینا پڑتا کہ نئی قانون سازی کی جائے۔ ہمارے ہاں بڑا شور مچا کہ جن لوگوں کی ترقیاں نہیں ہوئیں انہوں نے بڑے اعتراضات کئے ہیں حالانکہ اس قسم کے اعتراضات سامنے تو نہیں آئے۔ کیا آپ کے خیال میں انڈیا میں اس طرح کے اعتراضات سامنے آتے ہیں کیونکہ وہاں بھی تین سال کی توسیع دی گئی ہے اور زیادہ پاور فل بنا دیا گیا ہے۔ بڑا مشکل یہ کہنا کہ آرمی چیف کی توسیع پر اپوزیشن مانے گی یا نہیں مانے گی لگتا یہی ہے کہ یہ معاملہ لٹک گیا ہے۔ بھارت 2 ہزار 7 سو ساٹھ طلبا کو ٹورنٹو (کینڈا) سے جعلی سرٹیفکیٹ دستاویزات جمع کرانے پر ملک بدر کر دیا ہے۔ اس بارے ضیا شاہد نے کہا کہ امریکہ کینیڈا اور بہت سے دوسرے ملکوں میں حتیٰ کہ برطانیہ، فرانس میں انڈیا سے جو سٹوڈنٹس جا رہے ہیں اب مشکوک ہو گیا ہے لگتا ہے جو جہاں بھی جاتے ہیں شاید اسی قسم کے سرٹیفکیٹوں پر داخلے لیتے ہوں گے اب تو کینیڈا کے پیچھے پیچھے دوسرے ملکوں میں بھی یہ چھان پھٹک شروع ہو جائے گی۔ اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ بھارتی سٹوڈنٹس اصلی اسناد پر داخلہ لے رہے ہیں یا انہوں نے کوئی گڑ بڑ کی ہے۔ انڈیا کافی مشکلات میں ہے اس کا اعتماد دنیا بھر میں مجروح ہوا ہے۔ بھارت پے درپے جھوٹ بول رہا ہے کہ فلاں جگہ اتنے دہشت گردی کے کیمپ تھے وہاں ایک سپاہی کا بھی ن ظر آنا۔ پچھلے ایک سال میں بھارت کی اتنی کریڈیبلٹی خراب ہوئی ہے کہ اب تو انڈیا کے بارے میں کوئی خبر آئے تو آدمی اچھی طرح سے تحقیق کر لے کہ یہ صحیح بھی ہے کہ نہیں، جتنا انڈیا کا اعتبار خراب ہوا ہے ان کی حرکتوں کی وجہ سے،امریکہ میں کہا جاتا تھا کہ سب سے پڑھی لکھی قوم ہی امریکہ میں انڈین ہیں۔ سب سے زیادہ کمپیوٹر کے ماہرین ہیں۔ اب ان کی تعلیم کا سٹہ نکل آیا کہ یہ جعلی سرٹیفکیٹوں پر لئے ہوئے داحلے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ انڈیا کی بے تحاشا بے عزتی ہوا ہے۔ یہ تو نہیں کہتا کہ ایک دن میں سب کچھ ہو جائے گا اور پہاڑ جو ہے نیچے گر پڑے گا۔ جوں جوں ہاتھ ڈالا جائے گا اس قسم کی خبریں نکلیں گی۔ پنجاب حکومت نے جو آڈٹ رپورٹ جو 2017-18 کی جاری کی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ سابقہ دور حکومت میں پنجابب میں 18 کھرب 48 ارب 92 کروڑ کی کرپشن ہوئی ہے۔ ایکشن تو ہو گا کہ نیب کو چاہئے اب تک سست رفتاری سے چلا ہے احتساب کا عمل اس کو تیز کرے لوگوں کو نظر آنا چاہئے کہ احتساب ہو رہا ہے۔ وہ اب سامنے ہے کیونکہ آج سے 3,3 سال پہلے جو خبریں آئی تھیں۔ وہ اب تک اس طرح سے پڑی ہوئی ہیں۔ سست روی کے شکار کو تیزی سے ہمکنار کریں لوگوں کا اعتماد یب کے ادارے پر اسی طرح بحال ہو وہ یہ محسوس کریں گے کہ نیب نے 2 سال پہلے بھی کسی پر الزام لگایا تھا تو وہ الزام ٹھیک تھا اور اس پر عمل ہوا ہے۔ رانا ثناءاللہ کے کیس نے بہت بُرا اثر ڈالا اور اس کیس کی وجہ سے ادارے کی کریڈیبلٹی بڑی متاثر ہوئے۔ اسی طرح خواجہ سعد رفیق ان کے بھائی اور ان کے علاوہ پیراگون سٹی کے بارے میں بھی جتنی بھی خبریں آئی تھیں کہ ان میں سے وعدہ معاف گواہ بھی بن گئے ہیں ان پر کوئی عمل نہ ہونے کی وجہ سے ان کی کریڈیبلٹی متاثر ہوئی ہے۔ اگر یب چاہتا ہے کہ اسے چاہئے کہ ایک ایک چیز سامنے لائے جتنے ثبوت سامنے لا کر سزائیں دیں۔ یہ سمجھا جائے کہ نیب کوئی سیاسی مخالفین کے خلاف اقدام کر رہا ہے واقعی ان لوگوں نے کچھ کہا ہو گا۔ نیب اگر طے کر لے کہ جن لوگوں پر الزامات ہیں ان کے ثبوت سامنے لائے گی یہ ثابت کرے گی کہ درست تھے کہ ان کی کریڈیبلٹی بڑھے گی۔ اپوزیشن الزام لگا رہی ہے کہ حکومت ترمیمی آرڈی ننس اپنے لوگوں کو بچانے کے لئے لائی تو اس پر نیب زبان کھولے اور جو کھرا کھوٹا ہے وہ سامنے لائے۔ نیب آزاد ادارہ ہے حکومت کے ماتحت نہیں ہے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv