(ویب ڈیسک)خدانخواستہ اگر آپ کے سامنے کوئی شخص اچانک زمین پر گرجائے ، اس کا جسم اکڑ جائے ، اس کے سر بازو اور ٹانگوں میں جھٹکے لگے۔ منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہوجائے ، شکل پر تناو بڑھ جائے اور یہ سلسلہ کم و بیش پانچ منٹ تک جاری رہے۔ جس کے بعد وہ ہوش میں ا?ئے اور ایک بار پھر تمام صورت حال نارمل ہوجائے تو سمجھ لیجئے کہ اس شخص کو مرگی کا دورہ پڑا ہے۔ہر میں رہنے والوں کو دماغی مرض مرگی کے نام سے تو واقفیت ہے لیکن دیہی علاقوں کی اکثریت تو ان دوروں کو سائے کا اثر گردانتی ہے۔ ایسی صورت میں علاج کا تو سوال ہی نہیں البتہ جھاڑ پھونک سے مریض کی حالت اور زندگی دونوں ہی تباہ کردی جاتی ہے۔پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق ہزار میں سے نو اعشاریہ نو فیصد کو مرگی کا مرض لاحق ہے۔ جس میں سے بیشتر کی عمر تیس سال سے کم ہے۔ مریضوں کی زیادہ تعداد دیہات میں ہےلیکن اس مرض سے متعلق بنیادی ا?گاہی میسر نہیں ہے۔ا?گاہی اور علاج کے سلسلے میں ایپیلپسی فاو?نڈیشن ا?ف پاکستان کا کردار نمایاں ہے۔ شہروں میں فری کلینکس چلائے جاتے ہیں ، دیہی علاقوں میں کیمپس لگائے جاتے ہیں۔ یہاں ایک قصہ تحریر کرنا انتہائی اہم ہے۔ فاو?نڈیشن کی صدر اور مایہ ناز نیوروسرجن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سے مرگی کے علاج سے متعلق گفتگو ہورہی تھی ، انہوں نے بدین میں پیش ا?نے والے ایک واقعے کا ذکر کیا ، ڈاکٹر فوزیہ کے مطابق مرگی کے علاج کے لئے میڈیکل کیمپ لگایا لیکن علاقے سے کوئی نہ ا?یا ، جس کے بعد ایک اعلان ہوا تو دو سو سے زائد مریض کیمپ ا?پہنچے۔وہ اعلان تھا ، ( ایک گولی سے جن بھوت کا علاج کیا جارہا ہے )۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قابل علاج مرض کے بارے میں مریض قطعی معلومات نہیں رکھتے۔ اس جملے نے وقتی طور پر تو علاج کی راہ میں رکاوٹ کو دور کیا لیکن افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ لاعلمی کا یہ مرض صرف دیہی علاقوں تک ہی محدود نہیں شہروں میں بسنے والے بھی مرگی کو بیماری سے زیادہ بوجھ تصور کرتے ہیں۔ اور کئی افراد تو یہ جانتے ہی نہیں کہ سرجری کے ذریعے اس مرض سے ہمیشہ کے لئے نجات مل سکتی ہے۔ اس مرض کی تشخیص و علاج میں تاخیرکی ایک اور وجہ نیورولوجسٹ کی کھپت بھی ہے۔پاکستان میں چودہ لاکھ ا?بادی کے لئے ایک نیورولوجسٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دماغی امراض کے علاج کی جانب توجہ نہیں دی جاتی۔ پاکستان میں جو مرض نوجوانوں کا حوصلہ پست کرکے انہیں زندگی کی راہ میں پیچھے دھکیل رہا ہے ، اسی مرض کا شکار البرٹ ا?ئن سٹائن دنیا کا بہترین سائنس دان رہ چکا ہے۔تھامس ایڈسن بھی مرگی کا مریض تھا ، نپولین کو بھی مرگی کے دورے پڑتے تھے ، لیکن بیماری ان کی کامیابیوں کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنی۔ یہاں ان ناموں کا تذکرہ کرنے کا مقصد اس امر کی جانب توجہ دلانا ہے کہ علاج سے بھی زیادہ ضروری ا?گاہی ہے ، تاکہ مرگی سے جڑی ہوئی غلط فہمیاں مرض سے پہلے مریض کی جان نہ لے لیں۔