تازہ تر ین

معاشی بحران کا حل، ڈالر اور دولت چھپانے والوں کے خلاف کریک ڈاﺅن

اہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے اتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ پچھلے 15 سال سے پیپلزپارٹی اور ن لیگ ہی اس ملک میں حکمران رہی ہیں اور بہت سی باتوں کی ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے آج اگر آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق جانے پر مجبور ہیں اِس کی وجہ بھی انہی دو پارٹیوں کی پالیسیاں ہیں جنہوں نے ہر جگہ پر وقتی طور پر سبسڈی دے کر وہ جو سیٹ بیک تھا وہ پہنچنے نہیں ہونے دیا مگر نقصان یہ ہوا کہ ہماری معیشت کھوکھلی ہوتی چلی گئی۔ اور اب کھوکھلی معیشت ایک دم بیٹھی ہے تو پھر سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کیا جائے۔ ان دونوں جماعتوں نے جن کلاسز پر ہاتھ رکھا ہوا تھا جن کو ساتھ رکھا تھا تاجر برادری، دکاندار برادری ان کے ساتھ دی اور بڑے بڑے ادارے ان کے ساتھ اور وہ پچھلے 30,25 برس سے وہ اس ملک میں خوب کھل کھیل رہے تھے اب جب بحران آیا ہے تو ان میں سے کوئی بھی پاﺅں ٹکانے کے لئے تیار نہیں ہے اور جو سابقہ حکومتیں اس طرح سے کرتی تھیں کہ ڈالر جب بحران پیدا ہوتا جاتا تھا اس کی قیمت بڑھتی تھی وہ مصنوعی طور پر کچھ پیسے ارینج کر کے بازار سے ڈالر خرید کر کرنسی کے فلو میں داخل کر دیتے تھے اور اس طرح سے وقتی ریلیف حاصل کر لیتے تھے چونکہ اس حکومت نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ ہم نے سبسڈی نہیں دینی اس لئے اس کے اصل اثرات ہیں وہ بھگت رہے ہیں جو کہ بھگتنے چاہئیں اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ساری مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ مانیٹری پالیسی کے کیا اثرات ہوں گے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ ساری چیزوں کا آپسش کا تعلق ہے اور ایک گہرا تعلق تو ہوتا ہے میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ فوری طور پر اس کا کیا اثر ہو گا میں ماہر معاشیات نہیں ہوں جہاں تک عام معلومات کا تعلق ہے ان ساری باتوں کی بنیاد ایک ہی ہے کہ وہ یہ ہے کہ پرانی حکومتیں بے اندازہ قرض لیتی رہی اور خمیازہ موجودہ حکومت بھگت رہی ہے۔ ہر چیز خرید کر لوگوں کو دیتی رہی تا کہ لوگ شور نہ مچائیں اور ان کی کرپشن کے بارے میں آواز بلند نہ کریں۔ جو دو بڑی جماعتیں ہیں اب وہ عید کے بعد مہنگائی کے مسئلے پر کہ مہنگائی کیوں ہو گئی اور ڈالر ریٹ کیوں بڑھا رہی پر ہنگامے کرنا چاہتی ہیں لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ شاید وہ اپنے طور پر اگر کامیاب ہوتی ہیں یا نہیں ہوتی اس کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن ایک بات کہی جا سکتی کہ ان سب کی بنیادی وجہ انہی دو پارٹیوں کی حکومتوں کی غلطیاں پالیسیاں ہیں۔ ہر دوسرے دن اخبارات میں کراچی کی سٹاک مارکیٹ کے بیٹھنے کی خبر آتی ہے پھر ساتھ ہی خبریں چھپتی ہیں کہ کتنا نقصان ہوا ہے کس قدر اس کا اثر پاکستانی معیشت پر پڑے گا سب سے پہلے تو مختصر بتایئے کہ سب کچھ کیوں ہوو رہا ہے اس میں کس کی کوتاہی ہے۔ یا اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے حکومت اپنی طف سے پوری کوشش کر رہی ہے کہ دیکھیں آنے والے ایک ہفتے میں پتہ چلے گا کہ ان کے اقدامات کس قدر کارگر ثابت ہوتے ہیں اگر ان کے اقدامات کارگر ثابت ہوئے تو کچھ صورت حال سنبھل جائے گی ورنہ اس سے بھی زیادہ بری ہو جائے گی۔ اپوزیشن کو حق حاصل ہے اگر کوئی تحریک چلانا چاہتی ہے تو بڑے شوق سے چلائے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ضرور دیکھنا چاہئے کہ کیا جو کچھ معاملات اس وقت درپیش ہیں اور عام آدمی کو مہنگائی اور بیروزگاری کا سامنا ہے اور کرنسی کی بے قدری تنگ کر رہی ہے کیا اس کا ذمہ دار جو سابقہ حکومتیں ہیں ان کو کیا کچھ نہیں کہے گا۔ کیا وہ آرام سے وہ اپنا کام کرتی رہیں گی کیا موجودہ حکومت بھی اس سلسلے میں کوئی کام نہیں کرتی کہا جاتا ہے وہ ان لوگوں کو پکڑنے میں زیادہ سنجیدہ نہیں ہے تو پھر کون پکڑے گا۔ مریم نواز کے بارے میں جو ایک عارضی حکم جاری کیا گیا جس کا فائدہ اٹھا کر انہوں نے سیاست بھی شروع کر دی اب اس وقت وہ مکمل طور پر سیاست میں موجود ہیں وہ میٹنگز کر رہی ہیں وہ دوسرے لیڈروں کو بلا رہی ہیں وہ اپنی کاوش سامنے لا رہی ہیں اس سلسلے میں جو حکومت نے درخواست دی ہوئی ہے الیکشن کمیشن میں اس کو پرسو کرنا چاہئے حکومت بھی تو ڈبل مائنڈڈ لگتی ہے کیوں نہیں وہ اس بنیادی سوال پرکہ کیا مریم نواز سیاست میں حصہ لے سکتی ہیں یا نہیں اس پر وہ کوئی فیصلہ حاصل نہیں کرتی۔ افطار پارٹی میں مریم نواز، بلاول بھٹو ایک ساتھ بیٹھے ہیں یعنی نوازشریف اور زرداری صاحب کے جانشین ایک ساتھ بیٹھے ہیں ضیا شاہد نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت جو ہے وہ ڈبل مانڈڈ ہے اور کبھی وہ دیکھتی ہے کہ فلاں عدالت نے فلاں ریلیف دے دیا ہوا ہے تو اس پر خاموش ہو جاتی ہے حالانکہ اگر وہ عدالت کی کسی بات سے متفق نہیں ہے تو انہی عدالتوں میں وہ اپنا نقطہ نظر بھی لے کر جا سکتی ہے میں سمجھتا ہوں کہ عید کے بعد سیاست کا نیا دور ضرور شروع ہو گا اوراس میں اپوزیشن پارٹیاں مکمل کوشش کریں گی کہ عوامی جوش و خروش کے اپوزیشن کو لا سکے اب وہ لا سکنے میں کامیاب ہوتی ہیں یا نہیں اس کا اندازہ عید کے بعد ہو گا۔ مولانا فضل الرحمن کے پاس سٹریٹ پاور ہے سیاسی پارٹیوں میں وہ ایک ایسی پارٹی ہیں جن کے پاس دینی مدارس کے طلبا ہیں اور جب وہ کہیں گے تو جو مدارس ان کی جماعت میں شامل ہیں ان کے طالب علم نکل آئیں گے یہی ایک پلس پوائنٹ ہے جو سیٹیں نہ ہونے کے باوجود کہا جاتا ہے کہ سٹریٹ پاور مولانا فضل الرحمن کے پاس ہے دیکھتے ہی کہ وہ سٹریٹ پاور وہ ہے کتنے لوگوں کو نکال سکتی ہے اور وہ سٹریٹ پاور جو ہے وہ کتنی کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔ گزشتہ 9 ماہ میں اپوزیشن کئی دفعہ متحد ہوئی ہے مگر اس میں دراڑ پڑتی آ رہی ہے اس سوال کے جواب میں ضیا شاہد نے کہا کہ اب صرف 15 دن کا عرصہ ہے عید کے بعد یہ ٹیسٹ سڑکوں پر ہو گا کہ جس حد تک کامیاب ہوتا ہے لہٰذا عید کا انتظار کرنا پڑے گا قیافے یا اندازے لگانے کی بجائے عید کا انتظار کرنا ہو گا۔ پتہ چلے گا کہ کتنے لوگ ان کے ساتھ نکلتے ہیں۔ ابھی حکومت کو 9 ماہ ہوئے ہیں ایک نئی حکومت آئی ہے اس کو کام کرنے دیں اچانک آتے ہی اپوزیشن نے قومی حکومت کا کہہ دیا ہے قومی حکومت کی باتیں چوتھے پانچویں سال ہوتی ہیں جو آخری سال ہوتے ہیں یہ اس وقت زیب دیتی ہیں۔میرے خیال میں ابھی اس حکومت کو وقت ملنا چاہئے کہ اپنی غلطیوں کی اصلاح کر لے اور صحیح راستہ پر چل نکلے تو ہمارا مقصد یہ نہیں ہونا چاہئے کہ فلاں حکومت آئے اور فلاں حکومت نہ چلے۔ بلکہ کوئی بھی ہو وہ صحیح راستے پر چلے۔ نوازشریف کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست پر ضیا شاہد نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کوئی ڈائریکشن دی تھی کہ آپ اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کریں کیا اس میں کوئی پیشگی یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ آپ جو رپورٹ دیں گے اس پر یقین کر کے اس پر عمل کیا جائے گا۔ اب تک پاکستان میں یہ بات کبھی نہیں مانی گئی۔ کہ باہر کی رپورٹوں کو من و عن ملکی ڈاکٹروں کی معائندہ رپورٹ کے بغیر تسلیم کر لیا جائے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اس سے پہلے کبھی کسی قیدی کو 6 ہفتے کی ضمانت پر رہا بھی نہیں کیا۔ پھر یہ جو ایک سہولت نوازشریف کو اس سے خود عدالتوں پر لوگوں کا اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔


خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv