تازہ تر ین

پولیس نے ایف آئی آر درج نہیں کی ، ایکشن ہونا چاہئے ، بدقسمتی سے ایف آئی آر درج کرانے کے لئے ہائیکورٹ میں جانا پڑتا ہے: ضیا شاہد، اولاد نہ ہونے پر شوہر کے ہاتھوں بیوی کا قتل ، سوسائٹی کا بڑا المیہ :راجہ بشارت کی چینل ۵ کے پروگرام ” ہیومین رائٹس “ میں گفتگو

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے کہا کہ شکر گڑھ کے علاقے سروچہ میں اولاد نہ ہونے پرشوہر کے ہاتھوں مبینہ طور پر گھر والوں سے مل کر بیوی ماریا کو تشدد کے بعدپھندا ڈال کر قتل کرنے کا واقعہ بہت افسوسناک ہے۔سوسائٹی کاالمیہ ہے ایسے واقعات زور پکڑ رہے ہیں۔ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے صرف قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی نہیں بلکہ سوسائٹی میں بھی شعور لانے کی ضرورت ہے۔ چینل فائیو کے پروگرام ہیومین رائٹس واچ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں ضیا شاہد کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو اپنے پروگرام میں انتہائی اہم نوعیت کے واقعات کو اجاگر کرتے ہیںیہ اچھی کوشش ہے اس سے کیس منطقی حل تک پہنچتا ہے لوگوں میں شعور بیدا ر ہوتا ہے۔پھر قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی الرٹ ہو جاتے ہیں کہ اگر غفلت دکھائی یا کیس دبانے کی کوشش کی تو معاملہ ہائی لائٹ ہو جائے گا۔یہ غلط بات ہے کہ میڈیکل رپورٹ کے بغیر پولیس رپورٹ درج نہیں کر رہی پولیس کو ایسا نہیں کرنا چاہئے رپورٹ درج کرنی چاہئے یہ کوئی جواز نہیں کہ میڈیکل رپورٹ کے بغیر ایف آر درج نہیں ہو گی نصیر سے چوبیس سالہ ماریا کی چار سال قبل نصیر سے شادی ہوئی تھی۔آپ میرے علم میں بات لائے میں یقین دلاتا ہوں میں دیکھوں گا ایف آئی آر درج کیوں نہیں ہوئی نمبر دو جن لوگوں نے ایف آئی آر درج کرنے میں غفلت برتی ان کےخلاف بھی کارروائی ہو گی۔پولیس ایف آئی آر درج کرنے کی پابند ہے کوئی درخواست دے تو پولیس رپورٹ درج کر کے کمپیوٹر نمبر دے دیتی ہے جس کے بعد شہری رپورٹ کا فالو اپ کمپیوٹر نمبر کے ذریعے معلوم کر سکتا ہے ۔اس کیس میں میں خود دیکھوں گا کیا درخواست دی گئی اگر درج نہیں ہوئی تو کیوں نہیں ہوئی یہ بڑا جرم ہے اسے ہم دیکھیں گے۔عمران خان نے حکومت میں آنے کے بعد پولیس کلچر تبدیل کرنے کی بات کی۔ پولیس بہت سی اصلاحات کی ضرورت ہے کے پی میں پولیس کلچر تبدیل ہوا پنجاب میں بھی اسی پیٹرن کو فالو کیا جائے تو ایسا ہو سکتا ہے لیکن جب ایسا کرنے کی کوشش کی گئی تو پولیس اور بیوروکریسی سے آوازیں آنا شروع ہوئی کے پی کا معاشرتی ڈھانچہ پنجاب سے ذرا مختلف ہے جو چیزیں وہاں ممکن ہیں شاید پنجاب میں ممکن نہ ہوں لیکن یہ سب چیزیں اپنی جگہ پر البتہ انسانوں سے ایسا رویہ جس کا وہ مستحق ہے وہ نہ اپنانا زیادتی ہے۔پرویز الہی دور میں ہم نے تھانوں میں استقبالیے بنوائے تھے تاکہ ایسا پڑھا لکھا پولیس افسر بٹھا دیا جائے جو اسے گلائیڈ کرے اور سائل کو بہتر ماحول میسر آئے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔اب بھی ہم سوچ رہے ہیں پولیس کلچر تبدیل کرنے کےلئے پڑھے لکھے لوگوں کو لگایا جائے۔پولیس مختلف حکومتوں سے ہمیشہ مراعات میں کمی اور زیادہ ڈیوٹی کا گلہ کرتی رہی اس ایشو کو ایڈریس کرنے کے لئے ہماری حکومت کام کر رہی ہے ان ایشوز کے حل ہونے کے بعد پولیس کے پاس کوئی جواز نہیں ہو گا کہ ڈلیور نہ کرے۔میں یقین دلاتا ہوں جس طرح وزیراعظم اور وزیراعلی پنجاب اس معاملے پر زور دے رہے ہیں ہم پولیس میں تبدیلی لانے میں انشاءاللہ ضرور کامیاب ہوں گے۔صرف ایف آئی آرج درج ہونے سے کسی کی داد رسی نہیں ہوتی بلکہ متاثرہ فریق کو انصاف بھی ملنا چاہئے ایف آئی آر کے انداراج کے بعد شفاف تفتیش ہونی چاہئے اور چالان عدالت میں بھیجا جائے جس کے بعد پراسیکیوشن کی ذمہ داری ہوتی ہے مجرم کو قانون کے مطابق سزا دلوائے۔بدقسمتی سے ایف آئی آر کے بعد 90فیصدکیسز کا چالان چودہ دن میں مرتب نہیں ہوتا تاخیر کی جاتی ہے۔تفتیش بھی مکمل نہیں ہوتی عدالت میں چالان نہیں جاتا ۔ایف لاآئی آر سے لے کر مقدمے کی درست تفتیش کے اس سارے مرحلے کو واچ کرنے کے لئے مانیٹرنگ سسٹم لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا متاثرہ لوگوں کا بیان سننے کے بعد پتہ چلتا ہے بہت بڑا ظلم کیا گیاکچھ اور خواتین بھی زخمی ہوئی ہے معاملہ بہت گھمبیر ہے لیکن میں یقین دلاتا ہوں متاثرہ خاندان کو انصاف ملے گا تفتیش بھی غیرجانبدارانہ ہو گی میں پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کو بھی ہدایت کروں کا بڑی مستعدی سے اس کیس کی پیروی کرے اور ذمہ داروں کو قانون کے مطابق سزا دلائی جائے۔ میں پروگرام میں حاضری بھی دوں گا جیسا کہ ضیا صاحب کا پہلے بھی حکم تھا کوشش کروں گا مسائل کے حل کے لئے اقدامات کروں۔انہوں نے کہا کہ مجھے اگر کیسز اور واقعات بارے پہلے آگاہ کر دیا جائے تو میں متعلقہ ادارے کے موقف اور حکومت کی کارروائی سے بھی پروگرام میں وضاحت کر سکوں گاگزارش ہے مجھے پہلے سے واقعے بارے بتا دیا جائے۔ دوسری بات لائیو کال میں زیادہ واقعات لے لئے جائیں تاکہ میں حکومتی موقف لے لوں اس سے لوگوں میں اعتماد آئے گا کہ ایک ایسا فورم موجود ہے جہاں مسائل کا حل نکلتا ہے۔تحر یک انصاف اسی وعدے پر ووٹ لے کر آئی ہے کہ عوامی مسائل حل کرنے اورخدمت کرنی ہے متعلقہ وزیر عوام کے مسائل کے حل کے لئے اقدامات کرتا ہے۔ پنجاب میں کسی کو مسئلہ ہے تواپنی وزارت سے متعلقہ مسائل حل کرنا میں اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں اور چینل فائیو و خبریں سے رابطے سے میں اپنا فرض احسن طریقے سے نبھاسکوں گا۔ہمارے معاشرے میں بیشتر ادارے ہیں جو کہتے ہیں انسانیت کی فلاح کے لئے کام کر رہے ہیں اگر وہ ایسے کیسز پر کام کریں تو حکومت کو بھی ایکشن لینا پڑتا ہے لیکن ہمارے واقعات کو دبانے کی کوشش کیجاتی ہے۔ایسے فورمز سے عوام کو شعور ملے گا کہ اگر فلاں فورم تک معاملہ پہنچا دیا تو مسئلہ حل ہو گا۔میں یقین دلاتا ہوں معاشرے کا جو جرم آپ ہائی لائٹ کریں گے حکومت اس پر ایکشن لے گی۔ سینئر صحافی ضیا شاہد نے کہا کہ بڑی خوشی ہوئی راجہ بشارت ہمارے پروگرام میں تشریف لائے۔چوہدری پرویز الہی کی وزارت اعلی میں بھی راجہ بشارت وزیر قانون تھے اور بلدیات کے بھی وزیر تھے۔وزیر قانون پنجاب کے سامنے یہ کیس آیا کیس کے حل کے لئے ان کا یقین دلانا یہ ہماری بھی خوش قسمتی ہیں اور متاثرین کی بھی کیونکہ سب سے بڑا فورم وزارت قانون ہوتا ہے۔ہماری کوشش ہو گی ہم ہر ہفتے وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت کے پاس حاضرہو کر ایسے کیسز اجاگر کریں ہم پروڈیوسر اور رپورٹر کو کہہ دیں گے۔ تین ہفتے ہم ریکارڈنگ پر گزارہ کرلیں گے لیکن ہماری خواہش ہو گی مہینے میں ایک مرتبہ وزیر قانون ہمارے پروگرام میں تشریف لے آیا کریں۔شکر گڑھ میں جو ہوا اس پر ایف آئی آر جو فرسٹ انفارمیشن رپورٹ کہلاتی ہے درج ہونی چاہئے جو پہلی اطلاع پر ہی درج ہو جاتی ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایف آئی آر درج کرانے کے لئے ہائیکورٹس میں جانا پڑتا ہے حالانکہ پنجاب کا پولیس کلچر تبدیل کرنے کے لئے وزیراعظم عمران خان سب سے زیادہ مضطرب تھے ان کا خیال تھا پنجاب میں پولیس پر سیاسی اثرو رسوخ ہے۔میرا آپ سے بھی سوال ہے پولیس کلچر میں اب تک کیا تبدیلی آئی پہلے کی نسبت اس میں آپ کو بہتری محسوس ہوتی ہے یا نہیں۔ ضیا شاہد نے کہا کہ اگر ہیومین رائٹس واچ پروگرام کے ناظرین کوئی بات ہمارے نوٹس میں لانا چاہتے ہیں تو مجھ سے یا راجہ بشارت سے پروگرام کے دوران رابطہ کر سکتے ہیں۔ ہماری کوشش ہوتی ہے ہفتے کے باقی دنوں میں بھی انہی کیسز کی پیروی کریں کیونکہ ہمارا مقصد کیسز جمع کرنا نہیں بلکہ کیس کو منطقی انجام تک پہنچانا ہے۔میں سمجھتا ہوں جن لوگوں نے ایف آئی آر تک درج نہیں کی ان کی باز پرس کی جائے۔ایک خاتون کی پسلیاں بھی توڑی گئیں کچھ تو ہوا ہے لیکن پولیس کا ایکشن نظر نہیں آتا۔پولیس کا کام ایف آر درج کر کے کام شروع کرنا ہے۔جس نے بھی پسلیاں توڑی ہیں وہ آزادانہ گھوم رہا ہے پولیس نے پوچھا تک نہیں بے خوفی کے باعث ظلم بڑھ رہا ہے کیونکہ عام بات ہے کسی کے پاس چار پیسے ہوں تو ضمانتیں ہو جاتی ہیں اچھا وکیل مل جاتا ہے بہترین قانونی معاونت مل جاتی ہے لیکن اس سے صورتحال بگڑ رہی ہے۔گزشتہ ہفتے شکر گڑھ کی خاتون نے بتایا اس کا شوہر لاہور میں نشہ کرتا ہے خاتون نے گھر میں کام شروع کر دیا اس کے دیور نے خاتون پر بدکرداری کا الزام لگا کر اسے آگ لگا کر مار ڈالا صرف کھوپڑی بچی جو فرانزک کے لئے گئی ہے کہ خاتون وہی ہے یا کوئی اور ہے۔ہم نے اپنے پروگرام میں ایسے خوفناک جرائم لینا شروع کئے ہیں۔ لڑکی کی بہن نادیہ نے بتایا کہ ہمارے ساتھ بڑا ظلم کیا گیا کسی نے انصاف نہیں کیا پولیس بھی بات نہیں سنتی ہمیں انصاف دیا جائے۔لڑکی کے بھائی نے بتایا کہ بہت بڑا ظلم ہوا ہماری بہن پر بے پناہ تشدد کیا گیا جس کے بعد اسے پھندا ڈال کر قتل کر دیا گیا۔ڈی ایس پی ملک خلیل کہتا ہے میڈیکل رپورٹ کے بعد ایف آئی آر درج ہو گی۔ رحیم یار خان سے لائیو کالر وزیر احمد نے کہا کہ اس کی بیوی کو اغوا ہوئے بارہ سال ہو گئے لیکن پولیس کارروائی نہیں کرتی۔راجہ بشارت نے کارروائی کی یقین دہانی کرائی اور بتایا ساری صورتحال پتہ چلا کر اس کی رپورٹ ضیا شاہد صاحب کو آگاہ کروں گا ۔ وہاڑی سے لبنیٰ نے کہا تین سال قبل شادی ہوئی میرا شوہر تشدد کرتا ہے خرچہ نہیں دیتا پیسوں کا مطالبہ کرتا ہے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv