لاہور(ویب ڈیسک) اگر آپ مچھلی کھانے کے شوقین ہیں تو ایسا ضرور سنا ہوگا کہ ایسے مہینے جن میں’ ر‘ نہ آتا ہو، ان میں اسے کھانے سے گریز کریں۔یعنی اس خیال کے مطابق مئی، جون، جولائی اور اگست کے مہینے میں مچھلی نہیں کھانی چاہئے جبکہ باقی مہینوں میں آپ آزاد ہیں، مگر اس کے پیچھے وجہ کیا ہے؟ویسے تو کہا جاتا ہے کہ ان 4 مہینوں میں مچھلی اس لیے نہیں کھانی چاہئے کیونکہ یہ افزائش نسل کے مہینے ہوتے ہیں۔مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مشورہ اب کا نہیں بلکہ 1599 کا ہے جو کہ ایک برطانوی مصنف ہنری بٹیس کی کک بگ ڈائٹس ڈرائی ڈنر میں سامنے آیا تھا مگر کچھ تاریخ دانوں کے مطابق قدیم لاطینی زبان میں بھی ایسی ہدایت ملتی ہیں۔مگر یہ مشورہ مچھلیوں کی بجائے درحقیقت جھینگوں کے بارے میں تھا۔یعنی مئی سے اگست تک جھینگوں اور شیل فش کو کھانے سے گریز کریں کیونکہ گرم موسم میں جھینگے مختلف وجوہات کی بناءپر نقصان دہ بلکہ زہریلے بھی ہوسکتے ہیں، جیسے ماضی میں فریج نہیں تھا تو یہ گرمی سے خراب ہوجاتے تھے۔دوسری وجہ یہ تھی کہ یہ مہینے جھینگوں کی افزائش نسل کے مہینے تھے اور اس موسم میں ان کا گوشت زیادہ ذائقہ دار نہیں ہوتا جبکہ گرم موسم میں جب سمندری پانی گرم ہوتا ہے تو انہیں کھانے سے بیماری کا خطرہ زہریلے اثرات کی وجہ سے بڑھ جاتا ہے۔یہ مشورہ صرف جھینگوں اور شیل فش کے لیے تھا اور وہ بھی ایسے جن کو لوگ خود شکار کریں۔تو پاکستان یا دیگر ممالک میں یہ بات مچھلیوں کے لیے مشہور ہوگئی تاہم اب اکثر ممالک میں مچھلی کو منجمند کرکے کئی ماہ تک محفوظ رکھنا ممکن ہے جبکہ کمرشل بنیادوں پر بھی فارم کام کررہے ہیں تو اس پر عمل کرنے کی خاص ضرورت باقی نہیں رہی۔تاہم پاکستان میں مچھلیوں کی افزائش نسل اب بھی زمانہ قدیم کی طرح ہی ہوتی ہے تو موسم گرما میں تازہ سی فوڈ کی بجائے منجمند مچھلی کو کھانا ایک آسان آپشن ہے۔اور ہاں مچھلی کی تاثیر گرم ضرور ہوتی ہے مگر گرم موسم میں اسے کھانے سے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا بس اعتدال میں رہ کر کھانا ضروری ہے۔