کراچی(ویب ڈیسک)پاکستان کے صوبہ سندھ میں کینجھر جھیل کے ماہی گیر عبدالرشید ملاح بچپن سے ہی ماہی گیری سے وابستہ ہیں، پہلے وہ خوشحال تھے لیکن جیسے جیسے خاندان بڑھتا گیا ان کی مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا۔عبدالرشید ملاح کی شادی 15 سال کی عمر میں ہوئی تھی اور فی الحال ان کے 17 بچے ہیں، نہ وہ پکا مکان بنا سکے ہیں اور نہ بچوں کی ضروریات پوری کر پاتے ہیں۔’سال میں کپڑا ایک بار لیتے ہیں اگر کھانا دو وقت کا مل جائے تو خدا کا شکر ادا کرتے ہیں، میں فیملی پلاننگ کی سوچ سے اتفاق کرتا ہوں لیکن یہ سب کچھ تعلیم والے زیادہ سمجھتے ہیں، ہمارے علاقے میں ہسپتال ڈاکٹر یا سکول کچھ بھی تو نہیں۔ ماں باپ نے بچپن میں شادی کرا دی اور بس بچے ہی پیدا کرتے رہتے ہیں۔’عبدالرشید ملاح کے گھر سے 30 کلو میٹر دور خاندانی منصوبہ بندی کا مرکز واقع ہے جبکہ مرکزی شاہراہ نیشنل ہائی وے سے وہ تقریبا 10 کلومیٹر اندر رہتے ہیں۔پاکستان ڈیمو گرافک سروے کے مطابق پاکستان میں صرف 34 فیصد خواتین خاندانی منصوبہ بندی کے مختلف طریق? کار کا استعمال کرتی ہیں۔ سنہ 2020 تک یہ شرح 50 فیصد تک لے جانی ہے۔ لندن میں سنہ 2012 میں دنیا کے 20 ممالک نے آبادی میں کنٹرول کے لیے مانع حمل کے طریق? کار میں فروغ کا فیصلہ کیا تھا۔اقوام متحدہ کے آبادی کے بارے میں پروگرام یو این ایف پی اے کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سالانہ 22 لاکھ اسقاط حمل ہوتے ہیں جس کی وجہ مانع حمل کے طریق? کار تک رسائی کا نہ ہونا ہے اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایف پی اے کے ایک نمائندے گذشتہ دنوں کہہ چکے ہیں کہ پاکستان سنہ 2020 کے ہدف تک نہیں پہنچ پائے گا۔ اس کی ایک وجہ وہ 39 فیصد خواتین کی گھریلو فیصلہ سازی میں عدم شرکت کو بھی قرار دیتے ہیں۔بصراں بروہی کا ایک بیٹا ہے، ان کا شوہر مزدوری کرتا ہے، شوہر کے مشورے سے بصراں نے پانچ سال کا وقفہ کرایا لیکن تین سال کے بعد وہ بازو سے کیسپول نکالنا چاہتی ہیں۔ٹھٹہ سول ہسپتال کے خاندانی منصوبہ بندی کے مرکز میں ڈاکٹر انھیں سمجھا رہی تھیں کہ یہ وقفہ ان کی صحت اور گھریلو حالات کے لیے بہتر ہے لیکن بصراں کا کہنا تھا کہ ان پر ساس کا دباو¿ ہے۔بصراں بروہی کا کہنا تھا کہ تین سال پورے ہیں، میری ساس روز کہتی ہے کہ جاو¿ کیپسول نکلواو¿۔ انھیں مزید بچے چاہییں۔ ابتدا میں مجھے چکر آتے تھے اور خون بھی آیا لیکن اب ٹھیک ہوں اور چکر بھی نہیں آتے۔اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں اس وقت پانچ میں سے ایک عورت زچگی سے محفوظ رہنا چاہتی ہے لیکن اسے موثر طریقے تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ خواتین پر سسرال کا دباو¿ ہوتا ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی نہ کرائیں۔