تازہ تر ین

ن لیگ ، پیپلز پارٹی اپنی کرپشن کا جواب دیں ، پھر عمران خان کی 3 ماہ کی کارکردگی پر تنقید کریں : معروف صحافی ضیا شاہد کی چینل۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ حکومت کے لئے فی الحال عیر مستحکم صورتحال ہے کہ ہم نے باہر سے کتنی امداد لینی ہے آئی ایم ایف سے لینا ہے یا کسی اور مالیاتی ادارے سے لینا ہے جب تک وہ پیسے آ نہیں جاتے اس وقت تک جو پوزیشن غیر مستحکم ہی رہے گی اور ڈالر اوپر نیچے جاتا رہے گا۔ زہن میں رکھنا ہو گا کہ مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اس وقت سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں کہ عمران خان پر یہ الزام ثابت کر سکیں کہ ان کے دور حکومت میں 100 دنوں میں عوام کا بیڑہ غرق ہو گیا اور بے تحاشا مہنگائی ہوئی اور کرنسی کی پوزیشن سنبھل نہیں رہی اور اپنے طور پر بلاول بھٹو صاحب نے زبردست تقریر کی اور لیڈر آف اپوزیشن کا حق ادا کر دیا اور دوسری طرف شاہد خاقان عباسی نے شام کو جو تفصیلی بریفنگ دی اور چینل ۵ کو جو انٹرویو دیا ہے ان دونوں جماعتوں پر چونکہ کرپشن کے بہت الزامات ہیں بقول عمران خان کی پارٹی کے لہٰذا وہ دن رات اس بات پر دن رات لگے ہوئے کہ انہوں نے ثابت کرنے میں مدد ملے کہ عوام بہت تنگ ہیں اور 3 ماہ میں جو لوگ ااسمان سر پر اٹھا لیا ہے۔ میرے خیال میں اگلے 3 سے 6 ماہ کے اندر ملک کی معاشی حالت بہتر ہو جائے گی بہر حال آج کی پوزیشن جو ہے یہ نہیں رہے گی توقع ہے کہ اگلے 3 ماہ میں کافی بہتری آئے گی۔ احسن اقبال صاحب نے موقع ملا ہے تو ضرور باتیں کرنی تھیں لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ جتنا پیسہ پنجاب میں 10 برس میں اور وفاق کی سطح پر 5 برس میں غتر بود کیا گیا اور وہی قرضہ جو باہر سے لیا گیا میگا پراجیکٹ بیچ میں سے پیسہ کھینچنے کے لئے بنائے گئے۔ کیونکہ جو کام عمران خان کی حکومت کر رہی ہے اس میں سے زیادہ لاہور میں جو خیمہ بستر لگائے ہیں اس میں سے کتنے پیسے نکال لیں گے۔ بے ایمانی کرنا بھی چاہیں تو کتنے پیسے نکال لیں گے۔ اس کے برعکس ایک اورنج ٹرین میں سے تو بے تحاشا پیسہ نکالا جا سکتا ہے۔ موٹروے سے نکالا جا سکتا ہے۔ ملتان کی سڑکیں بنی ہیں وہاں سے روپیہ نکالا جا سکتا ہے ملتان کی میٹرو سے مال نکالا گیا ہے اور چین کی حکومت نے خود اشارہ دیا ہےکہ یہاں اتنی ہیرا پھیری ہوئی ہے۔ لہٰذا ان لوگوں کے پاس ہی پیسہ ہے جس دن چاہیں ڈالر خرید کر ڈالر کی پوزیشن اور زیادہ غیر مستحکم کر سکتے ہیں۔ آصف زرداری صاحب جن کے بارے میں ان کے فرنٹ مین تھے ان کے فنانس منیجر نے یہ کہا ہے کہ 320 ارب سے زیادہ باہر بھجوائے جا چکے ہیں پھر کس کے پاس پتہ تھا انہی کے پاس پیسہ تھا عمران خان تو حکومت میں نہیں تھے۔ عمران خان کے جتنے وزیر بنے پھرتے ہیں ان سب کے چارل آپ دیکھ لیں کتنا پیسہ ہو گا ان کے پاس تھا یا ان کے پاس تھا جو آج بڑی بڑی باتیں کر رہے ہیں۔ نیب کو چاہئے کہ وہ جو کارروائی کرنا چاہتی ہے وہ جلدی کرے تا کہ پتہ چل جائے کہ کس نے کیا کیا کھایا ہوا ہے۔ جہاں شاہد خاقان عباسی تو جو ایل این جی کیس میں پھنسے ہوئے ہیں ابھی تو انہوں نے یہ جواب دینا ہے کتنے میں گیس کا سودا ہوا ہے اور انہوں نے اندر کھاتے کیا رکھا تھا۔ اور وہ تقسیم کن کن لوگوں میں ہوا ہے۔ اس وقت ملک میں دو فریق ہیں ایک فریق حکومت ہے جو آئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوا ہے اور دوسری طرف وہ دو پارٹیاں ہیں جس میں سے ایک پارٹی سے پچھلے دس سال میں اور ایک پارٹی نے پچھلے 5 سال میں خوب دبا کر حکومت کی ہے۔ پیپلزپارٹی مستقلا صوبہ سندھ میں اور ن لیگ نے مستقلا صوبہ پنجاب میں بڑے بڑے پراجیکٹس بنائے ہیں اور ہمیشہ آپ دیکھیں پراجیکٹ ہمیشہ بڑے بنے ہیں۔ سکیورٹی کے لئے سکولوں کی چاردیواریاں نہیں بن سکیں اور موٹر وے بھی بن گئی اور اورنج ٹرین پر بھی بے تحاشا پیسہ خرچ ہو گیا۔ ابھی تو یہ بات سامنے آئی ہے کہ میٹرو ٹرین پر پیسہ خرچ کرنا ہوا اور کھایا کتنا گیا ہے۔ بلاول بھٹو نے بڑی تقریر کی ماشاءاللہ لیکن سندھ سے تو اپنے شہر کا کچرا نہیں اٹھایا گیا۔ ن لیگ پہلے اپنی کرپشن کا جواب دے پھر سوال کرے کہ تحریک انصاف 50 لاکھ گھروں کے 50 کھرب کہاں سے لائے گی۔ جب حکومت نے دعویٰ کیا ہے تو اس حکومت کا مسئلہ ہے۔ ن لیگ 100 وائٹ پیپر بھی لے آئے اب عوام کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے جو یہ سمجھ چکا ہے کہ پیسہ تو اصل میں لوٹ کر یہ لے گئے پیپلزپارٹی سندھ اور وفاق میں اور پنجاب میں مسلم لیگ ن لے گئی۔ کیا قرصے موجودہ حکومت نے کھائے تھے کیا 26 ارب ڈالر کا قرصہ تحریک انصاف نے لیا تھا۔ یہ بات کب سے پھیلی ہوئی تھی کہ خورشید شاہ اندر سے حکومت سے ملے ہوئے تھے یہ بھی کہا جاتا تھا کہ ان کا فیملی بیک گراﺅنڈ کیا تھا کہا جاتا ہے کہ وہ میٹر ریڈر تھے۔ کیسی زبردست ترقی کی۔ آج تو رمیش کمار صاحب نے سپریم کورٹ میں کاغذات دیئے ہیں اور اس میں کہا ہے کہ کتنی زمینوں پر قبضے کروائے ہیں خورشید شاہ صاحب نے۔ پہلے اپنا کچا چٹھا سامنے آنے دیں اور بہت کچھ سامنے آئے گا۔ اومنی گروپ کے فنانشل منیجر نے کہہ دیا کہ 320 ارب باہر چلے گئے تو پھر اور کس کی گواہی کی ضرورت ہے۔ جہاں تک لاڈلے کا سوال ہے تو نوازشریف صاحب کو پچھلے 35 سال سے لاڈلے تھے خود بلاول بھٹو ماشاءاللہ سندھ کے، پیپلزپارٹی کے لاڈلے ہیں اس طرح تو ہر کوئی کسی نہ کسی کا لاڈلا ہے۔ عمران خان کا کوئی مال شال یا پراپرٹی کہیں دکھائی دیتی ہے پیسہ نظر آتا ہے تو پھر وہ ذمہ دار ہیں اگر نہیں ہے تو ان دو پارٹیوں نے ہی سارے ملکوں میں جائیدادیں بنائی ہیں۔ ان کی بے چینی اور گھبراہٹ اس لئے بڑھ رہی ہے کہ 3 مہینے ان سے صبر سے نہیں گزر رہے۔ لندن میں افواہ ہے کہ 6 سو ارب ڈالر ہیں جو پیسے ہیں نوازشریف کے 500 ارب ڈالر آصف زرداری کے یہ وہ رقم ہے جو موجود ہے۔ اگر ان کی لیڈر شپ کو سزا ہو گئی تو ان جماعتوں سے بھی فارورڈ گروپ بن جائیں گے۔ حمزہ شریف نے ان ممبرز کو نوٹس دیا ہے جو شہباز شریف کے خلاف کیسز ہوتے تھے ان میں احتجاج کے لئے آتے نہیں رہے۔ لگ رہا ہے جو کشتی ڈوب رہی ہو لوگ اس میں سے چھلانگ لگا کر ہمیشہ اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ عمران خان بڑے بڑے پراجیکٹس کی بجائے عام آدمی کے چھوٹے چھوٹے مسائل کے حل کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔
ضیا شاہد نے کہا کہ وزیراعظم و گورنر ہاﺅسز عوام کیلئے کھولے گئے مگر ان سے کوئی پیسہ نہیں لیا، سکیورٹی کم کر کے پیسہ نہیں لیا، اپوزیشن فضول باتیں کر رہی ہے صرف 3 مہینے اور گزرنے دیں۔ نیب پتہ نہیں واقعی نااہل لوگوں کا ٹولہ ہے یا سابقہ حکومتوں کے لوگ بیٹھے ہیں جو بھی وجوہات ہوں اگلے 3 مہینے میں بہت ساری تفصیلات سامنے آئیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ علیمہ خان نے بھی اگر کچھ غلط کیا ہے تو اسے بھی پکڑا جانا چاہئے لیکن وہ منی لانڈرنگ کر کے پیسہ باہر نہیں لے کر گئیں یہ جواب ان کو دینا چاہئے کہ پیسہ کہاں سے آیا۔ اگر عمران خان کی بہن نے بھی کوئی غلط کام کیا ہے تو اس کے لئے بھی کوئی رعایت نہیں ہونی چاہئے۔ فنانس ماہرین نے مجھے بتایا کہ اگر علیمہ خان نے بیرون ملک پیسے کمائے ہیں تو ٹیکس بھی وہیں دینا تھا پاکستان کو نہیں۔ جو بھی صورتحال ہے حقائق سامنے آنے چاہئے۔ ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے کہ حکومت وقت کی کوئی چھوٹی سی بھی کمزوری مل جائے تو اپوزیشن اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے، اس وقت بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان 2 کے بجائے 4 قدم اٹھا لیں جب تک مودی کی حکومت ہے بھارت مذاکرات پر آمادہ نہیں ہو گا۔ وہ تو کرتار پور بارڈر کی تقریب میںبھی شامل نہیں ہوا۔ کرتار پور وہ جگہ ہے جہاں سکھ مذہب کے گورو نے اپنی زندگی کے آخری 18 سال گزارے تھے اس لئے یہ جگہ سکھوں کے لئے بڑی مقدس اور قدر والی ہے۔ سکھوں نے کہا ہے کہ پاکستان کرتار پور یا ان کے کسی مذہبی لیڈر کے نام پر ڈیم بنائے وہ دنیا بھر سے فنڈ اکٹھا کریں گے۔ یہ اعلان کرتے ہوئے انہوں نے بھارتی حکومت کے رویے کی بھی پرواہ نہیں کی اور بڑی جرا¿ت مندی سے کھلم کھلا یہ اعلان کیا۔ انہوں ے کہا کہ انڈیا کشمیر پر بات چیت نہیں کرے گا۔ قیام پاکستان کے بعد پنڈت نہرو اقوام متحدہ میں گئے تھے اور قرارداد پر دستخط کئے تھے جس پر امریکہ کے بھی دستخط موجود ہیں، وہ قرارداد یہ تھی کہ مسئلہ کشمیر رائے شماری سے حل کیا جائے گا۔ 1948ءمیں یہ قرارداد منظور ہوئی، 1964ءمیں بھارتی حکومت نے زبردستی کی اور مقبوضہ کشمیر کو اپنے ایک صوبے کی شکل دیدی۔ اب جب رائے شماری کی بات ہوتی ہے تو بھارت بات چیت سے پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا میرے پاس پنجاب و کے پی کے چین آف سکول کی خاص طور پر معلومات ہیں۔ سکولوں پر الزام ہے کہ وہاں پڑھنے والے بچے و بچیاں منشیات کی عادی ہوتے جا رہے ہیں اور وہاں منشیات فروخت ہوتی ہے۔ ہمارے پاس جو معلومات ہیں وہ لوکل پولیس یا ایف آئی اے لینا چاہے تو ہم فراہم کر دیں گے۔ آنے والی نسل کو تباہ کیا جا رہا ہے اس پر بڑی سختی سے عمل ہونا چاہئے۔ یہ پولیس کی ذمہ داری ہے لیکن بدقسمتی سے وہ خود کرپشن کا گڑھ ہے۔ سندھ و پنجاب پولیس کی کرپشن سب سے آگے ہے۔ ہمارے علاقے ماڈل ٹاﺅن جہاں میرا گھر ہے وہاں نشے کے علاوہ پرائیویٹ ہاسٹلز، ہوٹل، گیسٹ ہاﺅسز وغیرہ عام ہیں۔ جہاں لوگ دو گھنٹے کیلئے آتے ہیں کوئی وہاں 24 گھنٹے رہنے نہیں آتا، وہاں بکنگ کروا کر لوگ نشہ کرتے ہیں۔ ماڈل ٹاﺅن میں صرفگ میرے گھر کے اطراف میں 40 سے 80 تک چھوٹے چھوٹے گیسٹ ہاﺅس، ہوٹل، موٹل وغیرہ بنے ہوئے ہیں، جہاں لوگ وقتی طور پر نشہ کرنے کے لئے کمرہ لیتے ہیں۔ پولیس ان گیسٹ ہاﺅسز سے 60 ہزار سے لے کر ایک لاکھ روپے تک ہفتہ لیتی ہے۔ انہوں نے کہا رمیش کمار نے جو خورشید شاہ پر الزام لگایا ہے۔ اسے ثابت بھی کرنا چاہئے۔ خورشید شاہ کے بارے میں عام کہا جاتا تھا کہ نون لیگ کی فرینڈلی اپوزیشن ہے۔ ان کا کہنا تھا حکومت نے پٹرول کی قیمت میں بے شک صرف 2 روپے کمی کی لیکن کمی ضرور کی ہے کوئی زیادتی نہیں کی اب چیزوں کی قیمتوں میں کم سے کم کمی تو آنے لگی ہے۔
بیورو چیف سکھر زمان باجوہ نے کہا کہ خورشید شاہ نے میٹر ریڈر کی حیثیت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا، ایک بار صحافیوں نے ان سے یہ سوال بھی کیا تھا کہ جس کے جواب میں خورشید شاہ نے کہا تھا کہ میں نے سیاست میں بڑی محنت کی اس لئے اتنی تیزی سے ترقی ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا رمیش کمار کا تعلق تھر کے علاقے سے ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں جو خورشید شاہ کے خلاف درخواست دائر کی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ خورشید شاہ بھی ہندوﺅں کی زمینوں پر قبصہ کرنے میں ملوث ہیں، ایک اور سنگین الزام لگایا ہے کہ تھر کے ایگرو پاور پلانٹس کے سی ای او نے سندھ حکومت کی کرپشن سے تنگ آ کر استعفیٰ دے دیا۔ سندھ میں محتلف مقامات پر ہندو بٹے ہوئے ہیں۔ لازمی ان کی شکایت رمیش کمار تک پہنچی ہو گی۔ انہوں نے کہا سندھ حکومت میں سید گروپ ریونیو سمیت دیگر محکموں سے مل کر لوگوں کی زمینوں پر قبضہ اور ان کے ریکارڈ میں ہیرا پھیری کرنے میں لگا ہوا ہے، یہ کام اتنی تیزی کے ساتھ ہو رہا ہے کہ پچھلے 40 سالوں میں ایسا نہیں ہوا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv