تازہ تر ین

دھمکیاں دینا بھارت کی پرانی عادت ، پاکستان اس کا کبھی اثر نہیں لیتا : ملیحہ لودھی ، سردار قیوم اسی علاقے میں سرحد کے اندر چلے گئے تھے ، کسی نے نشانہ نہیں بنایا : راجہ فاروق ، رانا مشہود نے بیان دیکر اپنی قیادت کے منہ پر کالک مل دی : فیاض الحسن چوہان ، حکومت برطانیہ سے کسی کے اثاثے پاکستان واپس نہیں لا سکے گی : وجاہت علی خان کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے کہا کہ ہم اندازہ کریں کہ شاہ محمود قریشی کا دورہ کیسا رہا تو اس پر میں آپ کو بتا سکتی ہوں کہ ان کی 6 ملکوں کے مختلف وزراءخارجہ سے ملاقاتیں تھیں اور 24 سے زیادہ دو طرفہ ملاقاتیں ہوئیں۔ وزیرخارجہ کا دورہ اس لئے بھی اہم تھا کہ ایک نئی حکومت کی ترجیحات کے بارے میں انہوں نے اپنے خطاب میں ذکرکیا بلکہ اس کے علاوہ جن جن لیڈروں سے ان کی ملاقات ہوئی ہے ان کو ایک موقع ملا کہ نئی حکومت کی ترجیحات بین الاقوامی سطح پر بھی بتا سکیں کہ نئی حکومت پاکستان کو کس ڈائریکشن میں لے جانا چاہتی ہے۔ ان کے خطاب سے کچھ دیر پہلے بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج نے اپنے خطاب میں پاکستان پر بے بنیاد الزامات لگائے۔ اس پیرائے میں اس کے جواب میں ہمارے وزیرخارجہ نے پاکستان کا بہترین دفاع کیا اور نہایت موثر طریقے سے دفاع کیا۔
ضیا شاہد نے کہا کہ آپ نے بھی اپنے طور پر کیا محسوس کیا ہو گاکہ اس وقت فضا کافی گرم ہے اور دونوں ممالک کی طرف سے جو بیانات چل رہے ہیں آپ کے لئے وہاں کام تھوڑا مشکل ہوگیا ہو گا۔ خاص طور پر ان معنوں میں کہ انہی دنوں میں آزاد کشمیر کے وزیراعظم کے ہیلی کاپٹر پر فائرنگ ہوئی اور یہ واقعہ بھی کوئی کم اہمیت نہیں رکھتا۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بھارتی رویے میں کوئی زیادہ تیزی نظر آ رہی ہے؟
ملیحہ لودھی نے کہا کہ یہ درست ہے کہ بھارت کی طرف سے جارحانہ قسم کا رویہ ہے اور لفظی جارحیت جاری ہے ہمیں دیکھنا ہے کہ اسے کس طرح نمٹنا ہے میں سمجھتی ہوں۔ وزیرخارجہ نے اپنی تقریر میں اچھے طریقے سے اس کا دفاع کیا گیا ہے۔ بھارت کی طرف سے اس کی وجہ کیا ہے بھارت میں الیکشن آنے والے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے ہم پراعتماد ہیں۔ وزیرخارجہ کی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے بھی ملاقات ہوئی۔ آپ کو معلوم ہے کہ ایک دو دن بعد سیکرٹری جنرل بھارت کے دورے پر چلے گئے۔ انہوں نے بھارت جانے سے پہلے ہی انٹرویو میں یہی کہا کہ وہ بہت ہی کنسرنڈ ہیں مقبوضہ کشمیر میں صورتحال سے۔ پاکستان کا بھارت کے حوالے سے موقف سنا جا رہا ہے بلکہ اس پر عمل بھی ہو رہا ہے۔ جب ہم نے سیکرٹری جنرل کو بتایا تو انہوں نے ہندوستان کو پیغام دیا ہے۔
ضیا شاہد نے سوال کیا کہ چند روز انڈیا اوپر نیچے انڈیا کی فوج کے سربراہ جو ہیں وہ بہت ہی سخت زبان استعمال کر رہے ہیں۔ دو سے زیادہ مرتبہ سرجیکل سٹرائیکس کے الفاظ استعمال کئے۔ جبکہ عام دنوں میں سرحدوں پر جھڑپ بھی نہیں ہو رہی ہے کسی قسم کی جنگ کے آثار بھی نہیں نظر آ رہے تو انڈین آرمی کے سربراہ کا ایسی گفتگو کرنا آپ نے تو بہت ایسے حالات دیکھے ہیں۔ بہت قریب سے بھارتی اقدامات کو بھی بغور جائزہ لیا ہے۔ آپ فرمائیں کیا وجہ ہوئی ہم تو یہاں بڑے تبصرے پڑھ رہے اور تجربے ہو رہے ہیں کہ بلاوجہ بیٹھے بٹھائے کوئی ایسی صورت نظر نہیں آتی انڈین افواج کے سربراہ اتنی سخت زبان کیوں استعمال کر رہے ہیں۔ دنیا میں توبظاہر ایسی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کسی قسم کی ہوسپٹیلٹی ہو یا نوبت لڑائی ہو نکلے۔ جنگ جیسی صورتحال پیدا ہو۔ اس قسم کے بیانات کیوں آ رہے ہیں۔
ملیحہ لودھی نے کہا کہ یہ کوئی نئی چیز نہیں اس میں حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ بھارت کا مقصد پاکستان کو ڈرانا دھمکانا ہے۔ ماضی میں بھارت نے جب بھی اس طرح پوسچر کی ہے اس کا پاکستان پر کبھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ پاکستان ہمیشہ اعتماد سے اپنے آپ کو دفاع کرتا رہا ہے سفارتی اور سرحدوں پر بھی۔ ہمیں معلوم ہے کہ بھارتی دعوے کا کیا جواب دینا ہے۔
ملیحہ لودھی نے کہا کہ اس وقت ہمارے وزیرخارجہ واشنگٹن میں ہیں اور آج ہی ان کی ملاقات امریکی وزیرخارجہ سے ملاقات متوقع ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہمیں ابھی انتظار کرنا چاہئے کہ ملاقاتوں کا کیا نتیجہ نکلتا ہے میں سمجھتی ہوں آج ہی میٹنگ کے بعد امریکہ کا رویہ بدلا ہے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ سعودی عرب نے واضح طور پر علان کر دیا ہے کہ جناب عمران خان کے دورہ سعودی عرب کے دوران کہ وہ سی پیک میں باقاعدہ شامل ہوں گے۔ اور اس کو آئل سٹی بنانے میں اپنی پوری کاوش اور کوشش اور سرمایہ کاری کریں گے۔ اس سے پہلے تو سی پیک کے بارے میں امریکی رویہ کافی سحت رہا ہے آپ یہ فرمایئے کہ کیا موجودہ تبدیلی وہ سعودی عرب جس کے بارے میں ہمیشہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ امریکہ کے رضا مندی اور امریکہ کی خوشنودی کو بہت اہمتی دیتا ہے آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا سی پیک میں شمولیت کا فیصلہ اور سرمایہ کاری کا ردعمل امریکہ کے سیاسی سرکلز میں پایا جاتا ہے۔
وزیراعظم آزاد کشمیر فاروق حیدر نے کہا کہ ہیلی کاپٹر پر بھارتی فائرنگ سے پروردگار کے کرم سے بچ نکلے تھے، میرے ساتھ 2 وزراءسمیت 5 آدمی تھے۔ سویلین ایئر کا ہیلی کاپٹر تھا۔ لائن آف کنٹرول کے ساتھ ساتھ سے جا رہے تھے اور اپنی حدود میں تھے۔ ضیا شاہد نے پوچھا کہ کیا کبھی پہلے بھی کسی وزیراعظم کے ہیلی کاپٹر کو بھارت نے نشانہ بنایا یا پہلی دفعہ ہوا ہے۔ فاروق حیدر نے کہا کہ سردلبندین خان اسی ایریا کے پاس تھوڑا دوسری طرف چلے گئے تھے لیکن کسی نے فائر نہیں کیا تھا۔ اس وقت تو ملتوی کے ہیلی کاپٹر بھارتی حدود میں تھوڑا سا داخل ہوئے تھے لیکن کوئی فائر نہیں ہوا، پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ میرے ہیلی کاپٹر پر فائرنگ ہوئی۔ ضیا شاہد نے سوال کیا میری معلومات کے مطابق کشمیر میں اقوام متحدہ کے امن دستے موجود ہیں کیا آپ کی حکومت نے ان کو آگاہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ 91 میں ایل او سی کے معاملات پر پاک بھارت سیکرٹری خارجہ کا معاہدہ بھی ہے۔ یہ معاملات پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ امید ہے پاکستانی حکومت اس معاملے کو اٹھائے گی۔ وزیراطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ رانا مشہود نے جو بیان دیا وہ اپنے اور اپنی قیادت کے منہ پر کالک لگانے کے مترادف تھا۔ 2 سال سے ان کی قیادت راگ الاپتے تھے کہ ”ووٹ کو عزت دو“ اب کہتے ہیں کہ ”سٹیبلشمنٹ سے ووٹ لو“ یہ بیانیہ سٹیبلشمنٹ کو بدنام کرنے کیلئے اختیار کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ضمنی انتخابات میں اپنی جیت کیلئے اوچھا ہتھکنڈا استعمال کیا ہے لیکن یہ ان کو الٹا پڑ گیا ہے۔ نون لیگ والے خود کہہ رہے ہیں کہ ہمارا رانا مشہود کے بیان سے کوئی تعلق نہیں، ان کا ذاتی بیان ہے۔ شہبازشریف نے منصوبہ بندی کے ساتھ یہ بیان چلوایا تھا یہ سب جانتے ہیں۔ انہوں نے کہا سٹیبلشمنٹ کا نام فوج و آئی ایس آئی ہے۔ فوج و ایجنسیوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ فوج کا کردار 10 سال سے مثبت ہے، وہ جمہوریت کو تقویت بخش رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ منشا بم کا پی ٹی آئی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، کرامت کھوکھر سے کوئی تعلق ہو گا، ووٹر رہے، برے دونوں طرح کے ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کرامت کھوکھر کو معاف کر دیا ہے، پارٹی کی طرف سے بھی سپریم کورٹ والا ہی پیغام ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کیس عدالتوں میں ہے۔ پراسیکیوشن اداروں کی ذمہ داری ہے جو شہباز حکومت نہیں کرتی تھی۔ ہماری حکومت کوئی لیت و لعل نہیں برتے گی۔ عمران خان نے بھی واضح کر دیا ہے۔ پولیس اصلاحات کیلئے ”پولیس ریفارمز کمیشن“ کی تشکیل دیدی ہے، ناصر خان درانی چیئرمین ہیں، 4 یا 5 ہفتوں میں اپنی تجاویز دیں گے۔
لندن سے تجزیہ کار وجاہت علی خان نے کہا ہے کہ ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ پاکستانی حکومت امریکہ یا برطانیہ سے کسی کے اثاثے واپس لے کر آئی ہو۔ 27,25 سال سے لندن میں رہنے کے باعث میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ برطانیہ سے کسی کے اثاثے پاکستان واپس نہیں لا سکے گا۔ لوٹی دولت واپس لانے کا کہہ کر پاکستانی حکومت عوام کو گمراہ کر رہی ہے۔ جیسا کہ آج کل بیانات آ رہے ہیں کہ حسن، حسین، بانی متحدہ اور اسحاق ڈار کو اثاثوں سمیت واپس لے آئیں گے۔ اگر برطانوی حکومت ایسا کوئی معاہدہ کرے گی بھی تو وہ اپنا مفاد دیکھیں گے، پاکستان سے سینکڑوں کی تعداد میں اپنے ملزم مانگ لیں گے۔ برطانوی حکومت کبھی بھی ایسا نہیں کرے گی کیونکہ ان کی خوشحالی انہی جیبوں کے پیسوں سے ہے، اگر وہ کسی کے اثاثے واپس کریں گے تو برطانیہ میں کوئی سرمایہ کاری نہیں کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا لوگ یہاں آف شور کمپنی بنا لیتے ہیں، اسحاق ڈار کی برطانیہ میں اثاثوں کی صحیح تعداد نہیں بتائی جا سکتی۔ اسے ہم منی لانڈرنگ کہتے ہیں برطانیہ نہیں، وہ کہیں گے کہ اگر منی لانڈرنگ ہوتی ہے تو پاکستانی اداروں کی کمزوری ہے۔ منی ٹریل پوچھیں گے تو برطانیہ جیسے ممالک کی دکانیں بند ہو جائیں گی۔
لندن سے تجزیہ کار محسن ظہیر نے کہا کہ سی پیک پر امریکہ نے کبھی کھل کر بات نہیں کی۔ سعودی عرب کی شمولیت پر بھی امریکہ نے کوئی خاص تاثرات نہیں دیئے۔ عرب ممالک میں سے سعودی عرب کے دہائیوں سے امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ ٹرمپ کے آنے کے بعد مزید مضبوط ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سعودی حکومت کے بہت سارے معاملات پر امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ سی پیک میں شمولیت کے فیصلے سے بھی سعودیہ نے امریکی حکام کو آگاہ کیا ہو گا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv