تازہ تر ین

عمران کے جلسہ کی تعداد پر بحث فضول ، الیکشن میں پتہ چل جائیگا کون کتنے پانی میں ہے

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگوکرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ سیاستدانوں کا الیکشن سے قبل بڑے بڑے دعوے کرنا معمول ہے۔ عمران خان اپنے دعوﺅں پر عمل کر سکتے ہیں یا نہیں وقت فیصلہ کرے گا۔ ابھی تو یہ بھی دیکھنا ہے کہ عوام انہیں اتنے ووٹ دیتے ہیں کہ وہ وزیراعظم بن سکیں۔ ملکی سیاست اس وقت 3 بڑے گروپس میں منقسم ہے، ایک ن لیگ جو اقتدار میں ہے تاہم امکان ہے کہ شاید وہ 2013ءالیکشن جیسی کامیابی نہ حاصل کر سکے کیونکہ جنوبی پنجاب کے اراکین ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔ دوسری پیپلزپارٹی ہے جس کی سندھ میں اکثریت ہے لیکن پنجاب میں پذیرائی حاصل نہیں، آصف زرداری پنجاب میں جگہ بنانے کیلئے ہی اب پھر لاہور میں ہیں اور اطلاع ہے کہ کافی عرصہ رکیں گے۔ تیسرا گروپ تحریک انصاف کا ہے جو 2013ءالیکشن کی نسبت مضبوط ہے، لوگ تیزی سے اس کی جانب رخ کر رہے ہیں لگتا یہی ہے کہ پارٹی بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کرے گی۔ تینوں پارٹیاں ہی مضبوط ہیں تاہم لگتا نہیںکہ کوئی ایک پارٹی الیکشن میں اکثریت حاصل کر کے حکومت بنالے۔ عمران خان کو کامیابی ملے گی یا نہیں الگ بحث ہے تاہم انہوں نے 11 نکات جو پیش کئے ان میں بڑی ٹھوس باتیں کیں تعلیم، صحت، منی لانڈرنگ، اوورسیز پاکستانیوں کی سرمایہ کاری بارے اہم باتیں کیں۔ عمران خان شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی جیسے کامیاب منصوبے دے چکے ہیں جن سے ثابت ہوا تھا کہ اگر ساکھ اچھی ہو تو پاکستانی فراخ دل ہیں پیسے دینے میں۔ 11 نکات بڑی محنت سے تیار کئے گئے۔ کوئی بھی پارٹی اس طرح کے ٹھوس نکات لائے اس پر عمل کرے تو معاشرے کو یقینی طورسے تبدیل کیا جا سکتا ہے نوازشریف جس معصومیت کے ساتھ کہتے ہیں کہ شہباز حکومت زیرو ہے وفاقی حکومت ناکام ہے اس پر لوگ ہنستے ہیں کہ اپنی ہی حکومت بارے کیسی باتیں کرتے ہیں۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو اپنا اپنا منشور پیش کرنا چاہئے۔ تعمیر و ترقی صرف لیپ ٹاپ تقسیم کرنا یا بڑے پراجیکٹ بنانا نہیں ہے۔ تعلیم اور صحت سب سے ضروری ہے۔ مشرف دور نکال کر ن لیگ پچھلے 35 سال سے اقتدار میں ہے۔ نوازشریف اب پھر معصومانہ انداز میں 15 یا 20 سال اور مانگ رہے ہیں اس کا تو مطلب ہے کہ اقتدار ان کی اگلی دو نسلوں تک انہی کے پاس رہے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ اندازہ ہے کہ اس بار الیکشن میں تینوں بڑی پارٹیاں 50 سے 60 تک نشستیں حاصل کریں گی اور اگر کسی نے بڑی چھلانگ لگائی تو 70 سے 90 سیٹوں تک جا سکتی ہے تاہم مینڈیٹ تقسیم شدہ ہو گا اور دوپارٹیوں کو مل کر حکومت بنانا پڑے گی۔ الیکشن سے قبل ایک دوسرے پر الزامات معمول ہے۔ الیکشن میں پتہ چل جائے گا کہ عوام کس کے ساتھ ہیں۔ ملتان اور بہاولپور کے الگ انتظامی یونٹ بنانے کے حوالے سے ایک میٹنگ میں جنوبی پنجاب کے اراکین اسمبلی اور ایک وزیرکو بھی طلب کیاگیا۔ یہ خبر تو ٹھیک ہے تاہم نہیں سمجھتا کہ ابھی کوئی فائنل فیصلہ ہو گیا ہے جس کا اعلان کل یا پرسوں ہو جائے گا۔ جنوبی پنجاب کے جو ارکان نون کو چھوڑ کر جا رہے ہیں وہ صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں کہ وعدہ وفا نہ کیا گیا۔ پنجاب حکومت نے 2013ءمیں قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا کہ بہاولپور کو بطور علیحدہ صوبہ بحال کر دیا جائے، پھر یہ مطالبہ بھی سامنے آیا کہ ملتان کو اگرصوبہ بنایا جائے۔ ایک تھیوری یہ بھی تھی کہ ملتان اور بہاولپور کو ملا کر ایک صوبہ بنایا جائے، تاہم کوئی فیصلہ نہ ہو سکا تھا اب پھر اس حوالے سے خبر سامنے آئی ہے اور سوچ بچار جاری ہے۔ پنجاب کے انتظامی اختیارات لاہور کے بجائے ملتان اور بہاولپور منتقل کئے جا رہے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ اس کےلئے کسی آئینی ترمیم کی ضرورت ہے نہ ہی کوئی نیا صوبہ بننے جا رہا ہے۔ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے لئے الگ صوبہ بنانے کی ضرورت نہیں ہے نہ ہی وفاقی حکومت کو کوئی فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ ایک سمری گورنر کو بھیجیں گے کہ ہم نے طے کیا ہے کہ بہاولپور اور ملتان میں سب سیکرٹریٹ قائم کیا جائے۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر ایسا ہو گیا تو ارکان اسمبلی پر نیا صوبہ بنانے کا جو دباﺅ ہے کم ہو جائے گا۔ ن لیگ کے سینئر رہنما تابش الوری نے فون پر بتایا کہ کچھ دن قبل وزیراعظم بہاولپور آئے جن سے ملاقات میں تجویز دی کہ بہاولپور صوبہ کی بحالی کے حوالے سے جو قرارداد پنجاب اسمبلی میں پاس ہوئی تھی اسے قومی اسمبلی میں پیش کر دیں اور قائمہ کمیٹی کے سپرد یہ معاملہ کر دیا جائے۔ وزیراعظم نے ماناکہ یہ اچھی تجویز ہے کہ قائمہ کمیٹی سے رائے لی جائے۔ اگر صوبے کا قیام فوری عمل میں نہیں بھی آتا تو اگلی حکومت تک قائمہ کمیٹی کی رائے تو سامنے آ جائے گی۔ تابش الوری نے ایک طرح سے ملتان، بہاولپور میں انتظامی یونٹ بنانے کی ”خبریں“ کی خبر کی تصدیق کی ہے۔ تحریک انصاف کے ترجمان نعیم الحق نے کہاکہ عمران خان کے جلسے تو 1997ءمیں بھی نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو کے جلسوں کے برابر ہوتے تھے۔ بڑے جلسوں سے یہ رائے قائم نہیںکی جا سکتی کہ الیکشن میں بھی کامیابی یقینی ہو گی۔ الیکشن کے عمل میں مختلف عوامل ہوتے ہیں جن کو دیکھنا ہوتا ہے۔ لاہور جلسہ جتنابڑا تھا کئی سالوں میں ایسا جلسے دیکھنے میں نہیں آیا، نوازشریف کو اپنا سیاسی مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے اس لئے افواج اور عدلیہ پر حملے کر رہے ہیں۔ وہ دباﺅ کا شکار ہیں ان کو زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ جلسے میں لوگوں کی تعداد صرف ایک علامت ہے جس سے کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکتا۔ مخالفین تو ہمیشہ تعداد کم ہی بتاتے ہیں۔ ریذیڈنٹ ایڈیٹر ملتان خبریں میاں غفار نے کہاکہ حکومت نے 20 مئی سے پہلے ملتان اور بہاولپور کے لئے ایڈیشنل چیف سیکرٹری کا تقرر کرنا ہے۔ اس کام کے لئے گورنر پنجاب کے الگ الگ نوٹی فیکشن کی ضرورت ہو گی۔ یہ نئے صوبے کی جانب ایک قدم تو ہو گا تاہم اسے نیا صوبہ نہیں کہا جا سکتا، الیکشن میں کامیابی کی صورت میں ن لیگ اس فیصلے کو واپس بھی لے سکتی ہے۔ سابق گورنر اور جنوبی پنجاب کے سینئر سیاستدان ذوالفقار کھوسہ نے کہاکہ پنجاب حکومت اگر انتظامی حوالے سے بہاولپور اور ملتان میںالگ انتظامی یونٹ کی بات کر رہی ہے تو یہ ڈی جی خان ڈویژن کے ساتھ زیادتی ہے۔ بہاولپور ملتان اور ڈی جی خان ڈویژنز کو ملا کر جنوبی پنجاب صوبہ بنے گا۔ جنوبی پنجاب متحدہ محاذ کے ساتھ ارکان اسمبلی کا ن لیگ کو چھوڑ کر ملنا خوش آئند اور اچھا فیصلہ ہے۔ الگ صوبے کے معاملہ پر بڑی سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا۔ جنوبی پنجاب کے ووٹرکو بھی دیکھنا ہو گا کہ جو امیدوار ووٹ مانگنے آیا ہے کیا وہ الگ صوبے کی حمایت کرے گا۔ امیدوار بھی اب ووٹ مانگنے جائیں گے تو انہیں وعدہ کرنا ہو گا کہ وہ الگ صوبے کے مطالبے پر قائم رہیں گے۔ عارضی انتظام کرنے کی بات غلط بیانی ہے۔ 2010ءمیں دوست کھوسہ نے بطور وزیر تجویز دی کہ چیف سیکرٹری لاہور بیٹھتا ہے۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری ملتان میں بیٹھنا چاہئے، اس منصوبے کی بڑی توصیف کی گئی پھر دو دن کے لئے ایڈیشنل سیکرٹری ملتان آئے واپس گئے تو دوبارہ نہ آئے۔ اب وزیراعظم نے بھی چند دن قبل بیان دیا کہ ن لیگ الگ صوبے کے حق میں ہے تاہم چاروں صوبوں سے مشاورت کرنے کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔ کیا یہ بات خود اپنی ہی بات کی نفی نہیں ہے کہ ہم جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنائیں گے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



آج کی خبریں



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv