تازہ تر ین

پاک افغان مذاکرات …. اندرونی کہانی نے سب کو چونکا دیا

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) افغانستان کے وزیر داخلہ، خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کے سربراہ پر مشتمل وفد گزشتہ روز پاکستان آیا جس نے پاکستانی حکام سے اہم بات چیت کی۔ پاکستان کی جانب سے ان مذاکرات میں وزیر اعظم پاکستان، وزیر داخلہ، ڈی جی، آئی ایس آئی اور چیف آف جنرل اسٹاف جنرل بلال نے شرکت کی۔ ذرائع کے مطابق مزید کہا ہے کہ پچھلے دنوں جلال آباد (کابل) میں دہشت گردی کے واقعات ہونا بڑی افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ اس جانب سے انگلیاں پاکستان کی جانب اٹھائی جا رہی ہیں۔ افغان حکومت کا دعویٰ ہے کہ افغانستان میں ہونے والے واقعات کے پیچھے حقانی نیٹ ورک کا ہاتھ ہے اس وقت پاکستان پر الزام لگانے والوں میں افغانی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ عوام میں اس کے علاوہ ٹرمپ کی مضبوط آواز بھی ان کے ساتھ مل گئی ہے۔ پاکستان میں افغانی سفیر اشرف غنی کا ”اسپیشل اینوائے“ بھی ہے پاکستانی حکام سے زیادہ تر ڈیلینگ وہی کرتے ہیں۔ افغان وزیر داخلہ، این ڈی ایس کے سربراہ پر مشتمل وفد پاکستان آیا ہے افغانستان میں پہلے ہوئے واقعات کی شدت ہماری آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے کے برابر ہے۔ کابل افغانستان میں وہی فضائیہ پیدا ہوئی ہے جو اس وقت یہاں پیدا ہوئی تھی۔ آج کا افغان وفد کادورہ معمول کادورہ نہیں تھا جس طرح آرمی پبلک سکول حملے کے بعد ہماری آرمی چیف اور ڈی جی، آئی ایس آئی افغانستان گئے تھے اس طرح افغان وفد کا یہاں آنااپنے تحفظات پاکستانی حکام تک پہنچانا تھا۔ اس مذاکرات میں میری اطلاع کے مطابق وزیر اعظم، وزیر داخلہ، ڈی جی آئی ایس آئی اور چیف آف جنرل اسٹاف، جنرل بلال بھی موجود تھے۔ افغانستان کی روایتی شکایات کی طرح آج بھی انہوں نے پاکستان پر الزام لگائے ہیں پاکستان نے بھی اپنے تحفظات ان کے سامنے رکھے ہیں۔ افغانستان کی طرف سے این ڈی ایس کے چیف اور وزیر داخلہ آئے تھے۔ افغانستان حکومت کے حالات کا اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکتا۔ اس وقت وہاں موجود حکومت انتشار کا شکار ہوئی ہے۔ اس معاملے پر افغانحکومت سے زیادہ امریکہ برہم ہے اس لیے امریکہ افغانستان اور پاکستان میں کشیدگی دور ختم نہیں ہو گا وہ سمجھتے ہیں طالبان پر ہمارا کنٹرول ہے طالبان میں اب بے شمار دھڑے موجود ہیں جنہیں کوئی ملک بھی اپنے لیے استعمال نہیں کر سکتا ہے۔ اب داعش بن گئی ہے جبکہ وائس آف امریکہ کے مطابق افغانستان کا ایک اعلیٰ سطحی وفد اس وقت پاکستان کے دورے پر آیا ہوا ہے، جہاں اس وفد کے ارکان نے متعدد اہم پاکستانی حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔ تاہم ان ملاقاتوں کی کوئی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔پاکستانی دفتر خارجہ کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ان ملاقاتوں کے حوالے سے ہمارے پاس ابھی تک کچھ نہیں ہے اور نہ ہی ہم نے تاحال کوئی بیان جاری کیا ہے۔“دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل ایک ٹویٹ میں اس امر کی تصدیق کی تھی کہ ایک افغان وفد پاکستان کا دورہ کر رہا ہے۔ انہوں نے لکھا تھا، ”افغان حکومت نے پاکستان سے درخواست کی تھی کہ ایک اعلیٰ سطحی وفد، جس میں افغان وزیر داخلہ اور افغان انٹیلی جنس کے سربراہ ہوں گے، پاکستان کا دورہ کرنا چاہتا ہے۔ یہ وفد افغان صدر کا ایک پیغام پہنچانا اور دونوں ممالک کے مابین تعاون پر بات چیت کرنا چاہتا ہے۔“یہ ٹویٹ افغان میڈیا میں آنے والی ایک ایسی خبر کے بعد کی گئی تھی، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ صدر اشرف غنی نے پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے فون پر تعزیتی پیغام لینے سے انکار کر دیا تھا اور ایک افغان وفد کو پاکستان بھیجا ہے، جو حالیہ حملوں کے حوالے سے کچھ ثبوت لے کر جائے گا۔ افغانستان میں ہونے والے چند حالیہ لیکن بہت ہلاکت خیز حملوں کی ذمہ داری طالبان قبول کر چکے ہیں۔ افغان حکومت کا دعویٰ ہے کہ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو مبینہ طور پر پاکستان کی حمایت حاصل ہے جبکہ اسلام آباد حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔ اسی دورے کے حوالے سے پاکستان کے ایک وفاقی وزیر سے رابطہ کیا تو انہوں نے اپنی شناخت میڈیا میں ظاہر نہ کیے جانے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”یہ بات غلط ہے کہ اشرف غنی نے وزیر اعظم کی ٹیلی فون کال وصول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس دورے کے حوالے سے میں صرف یہی کہوں گا کہ دونوں ممالک کا یہ عزم ہے کہ وہ دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم نہیں کریں گے۔“



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv