تازہ تر ین
khabran.jpg

آصف زرداری ،بے نظیر کرپٹ ،پاپا مرتضیٰ کو کس نے قتل کیا ؟ فاطمہ نے زبان کھول دی،سنسنی خیز انکشافات

لاہور(خصوصی رپورٹر) مرتضیٰ بھٹو کی صاحبزادی فاطمہ بھٹو نے اپنی پھوپھی بینظیر بھٹو پر کڑی تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ ان کے والد کے قتل کا مقصد خاندان کے اصل وارث کوراہ سے ہٹاناتھا، انہوں نے کہا آصف زرداری کی کرپشن میں انکی پھوپھی بھی برابر کی شریک تھیں، فاطمہ بھٹو نے اپنی کتاب میں اپنے والد، دادا، پھوپھی کے علاوہ خاندانی معاملات پر بہت کچھ لکھا ہے ، SONG OF BLOOD AND SWORD (لہو اور تلوار کے گیت )حال ہی میں شائع ہوئی ہے ، کتاب میں انہوں نے اپنے والد، انکے معاشقے کے بارے میں بھی تفصیل سے لکھا ہے اور والد کو دہشتگردی کے الزامات سے بری الذمہ قراردلوانے کی کوشش کی ہے ، فاطمہ بھٹو نے کتاب کے آغاز سے لے کر آخر تک انہوں نے بینظیر بھٹو کو ایک چال باز اور گھناﺅنی شخصیت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ فاطمہ بھٹو چودہ برس کی تھیں جب بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں ان کے والد کو کراچی میں ان کے گھر کے باہر ہلاک کر دیاگیا۔ فاطمہ بھٹو کا الزام ہے کہ ان کے والد کے قتل کا مقصد دراصل بھٹو خاندان کے اصلی جانیشن کو راہ سے ہٹانا تھا۔ ان کی پھوپھی بینظیر بھٹو جسے وہ’وڈی بوا’ کہتی ہیں، بچپن سے ہی ان کے والد میر مرتضیٰ پر غلبہ پانے اور بھٹو خاندان کی سیاسی وارث بننے کی کوشش کرتی رہیں۔وہ لکھتی ہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے کراچی میں ’آپریشن کلین اپ’ کے نام پر قتل عام کیا۔آصف زرداری کی’ کرپشن’ ان کا انفرادی فعل نہیں ہے ۔فاطمہ بھٹو اپنے والد کی ہلاکت کے واقع سے پہلے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ وہ بطور ’ممبر پارلیمنٹ’ حق رکھتے تھے کہ جب چاہیں کسی بھی تھانے میں جا کر وہاں مقید لوگوں کو رہا کرا سکیں۔ مرتضیٰ بھٹو لاڑکانہ سے صوبائی اسمبلی کے ممبر تھے ۔فاطمہ بھٹو نہ چاہتے ہوئے بھی تاثر پیدا کر رہی ہیں کہ مرتضیٰ بھٹو اپنے باڈی گارڈوں کی فوج کے ہمراہ کراچی شہر میں دندناتے پھرتے تھے۔حکومتِ وقت کا بھی یہی موقف تھا کہ سکیورٹی اداروں نے مرتضی بھٹو کو ان کے باڈی گارڈوں کےحصار سے نکالنے کی کوشش کی تھی۔فاطمہ بھٹو لکھتی ہیں کہ انہیں اپنے والد کی موت کی خبر کی تصدیق پرائم منسٹر ہاو¿س سے ہوئی جہاں نے انہوں نے اپنی پھوپھی کو فون کیا لیکن ان کے شوہر آصف زرداری نے یہ کہہ کر بینظیر بھٹو سے بات کرانے سے انکار کر دیا کہ وہ بھائی کی موت کا سن کر ہیجان کی کیفیت میں ہے۔اپنے خاندان کے بارے میں لکھتے ہوئے فاطمہ بھٹو لکھتی ہیں کہ ان کے دادا ذولفقار علی بھٹو جب بیرون ملک سے تعلیم حاصل کر کے پاکستان لوٹے تو انہیں ایک نئی دلہن کی سوجھی اور اسی دوران ان کی ملاقات ممبئی کی ایک ایرانی نژاد صابن بیچنے والے ’صبونچیے‘ کی خوبصورت بیٹی نصرت سے ہوئی جس کی وساطت سے وہ سکندر مزرا تک پہنچ گئے اور پھر حکومت میں شامل ہوگئے۔کتاب کا ایک بڑا حصہ فاطمہ بھٹو نے اپنے والد کی گرل فرینڈ ڈیلا رونک پر صرف کر دیا ہے۔ مرتضیٰ بھٹو کو اپنے والد کی پھانسی کی خبر بھی اس وقت ملی جب وہ ڈیلا کے ہمراہ تھے۔فاطمہ بھٹو اپنی خاندانی جاگیر کا فخریہ انداز میں ذکر کرنے کے فوراً بعد معذرت خواہانہ رویہ اپنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ ان کے والد مرتضیٰ بھٹو جاگیردارانہ سوچ نہیں رکھتے تھے کیونکہ ان کی پرورش لاڑکانہ میں نہیں بلکہ راولپنڈی میں ہوئی تھی۔فاطمہ لکھتی ہیں کہ مرتضیٰ بھٹو اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کو رہا کرانے کیلئے لندن سے پرامن جہدوجہد کر رہے تھے کہ انہیں اچانک والد کی طرف سے ایک خط ملا جس میں انہیں ہدایت کی گئی کہ اگر انہیں ہلاک کر دیا گیا تو دونوں بھائی مسلح جہدوجہد شروع کر دیں۔ فاطمہ بھٹو کے بقول اس خط میں ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے بیٹوں کو کہا کہ’اگر تم بھائیوں نے میرا بدلہ نہ لیا تو میں سمجھوں گا کہ تم میری اولاد ہی نہیں ہو‘۔فاطمہ بھٹو لکھتی ہیں کہہ انہوں نے یہ خط خود نہیں پڑھا اور نہ ہی ان کے والد نے ان کو اس بارے میں بتایا بلکہ انہیں اس خط کا علم اپنے والد کی یونانی گرل فرینڈ ڈیلا رونک سے ہوا۔ وہ لکھتی ہیں کہ ڈیلا یونانی جنرل روفوگالس کی بیوی تھی ۔ جنرل کی حراست کے دوران وہ مرتضی بھٹو کی دوست بن گئیں اور دوست بھی اتنی قریبی کے مرتضیٰ بھٹو ڈیلا کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ فاطمہ بھٹو اپنی افغان ماں فوزیہ اور ان کی بہن ریحانہ سے اپنے باپ اور چچا شاہنواز کی دوستی کا بھی تفصیلی ذکر کرتی ہیں۔ جب وہ کتاب لکھ رہی تھیں تو وہ فرانس میں اس وکیل سے ملیں جس نے شاہنواز بھٹو کے قتل کا مقدمہ لڑا تھا۔ فاطمہ کہتی ہیں کہ اس وقت ان کا بدن کانپنے لگا جب اسی سالہ وکیل ڑاک ورجس نے انہیں بتایا کہ بینظیر بھٹو نے شاہنواز بھٹو کے قتل کو دبانے کے لیے دباو¿ ڈالا ورنہ میر مرتضیٰ اس کو سکینڈل بنانا چاہتے تھے۔ فاطمہ بھٹو کے خیال میں بینظیر بھٹو سی آئی اے اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھیں۔وہ لکھتی ہیں کہ ان کے والد یہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھے کہ شاہنواز بھٹو نے خود کشی کی ہے کیونکہ وہ ایک کامیاب، دلیر اور معاشی طور پر آسودہ شخص تھا۔فاطمہ بھٹو کا کہنا ہے کہ ان کے والد آصف زرداری کو ہمیشہ ’چور‘ کہتے تھے۔ وہ لکھتی ہیں کہ آصف علی زرداری نے میر مرتضیٰ بھٹو سے اپنی دوسری ملاقات کے دوران ان کو رشوت کی ترغیب دی اور کہا کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں ایک ’ڈیل‘ کر رہے ہیں اور اگر مرتضیٰ چاہیں تو وہ ان کو بھی حصہ دار بنا سکتے ہیں۔میرے باپ نے آصف زرداری کو جواب دیا’ زرداری بھٹو ایسا نہیں کرتے۔‘فاطمہ کا دعویٰ ہے کہ آصف علی زرداری کی کرپشن اس کا انفرادی فعل نہیں تھا بلکہ ان کی ’وڈی بوا‘ بھی مکمل شریک تھیں۔پیپلز پارٹی کے ایک سابق سیکرٹری جنرل ڈاکٹر غلام حسین کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ جب انہوں نے بینظیر بھٹو کو آصف علی زرادی کی کرپشن کے بارے میں آگاہ کرنا چاہا تو جواب ملا ’ڈاکٹر صاحب ہمارا جن سے مقابلہ ہے ان کے پاس ٹنوں کے حساب سے پیسہ ہے‘۔ وہ لکھتی ہیں کہ بینظیر بھٹو شاید شریف خاندان کا مقابلہ کرنے کے لیے دولت اکٹھی کر رہی تھیں۔فاطمہ بھٹو کو یہ بھی شکایت ہے کہ جب ان کے والد نے شام سے واپس پاکستان آنے کا فیصلہ کیا تو صدر حافظ الاسد نے انہیں اپنے خصوصی طیارے کے ذریعے پاکستان بھیجنے کی پیشکش کی لیکن ان کی’ وڈی بوا‘ کی حکومت نے صدر اسد کے طیارے کو پاکستانی حدود میں داخل ہونے سے روک دیا۔فاطمہ بھٹو کی بینظیر بھٹو سے نفرت اس وقت انتہا پر نظر آتی ہے جب وہ اپنے چچا شاہنواز بھٹو کی ہلاکت کا ذکر کرتی ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ اس وقت ان کی عمر صرف تین برس تھی اور وہ دمشق سے اپنے والدین کے ہمراہ فرانس کے شہر وینس میں شاہنواز بھٹو کے ہاں ٹھہری ہوئی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھائے جانے کے بعد سارا بھٹو خاندان فرانس میں اکھٹا ہوا تھا۔وہ لکھتی ہیں کہ جب بھٹو خاندان ساحل سمندر پر باربی کیو کے بعد رات گیارہ بجے فلیٹ پر پہنچا تو شاہنواز بھٹو اور ان کی افغان بیوی ریحانہ میں کشیدگی عروج کو پہنچ چکی تھی۔ ریحانہ کی ناراضی اتنی بڑھی کہ اس نے مرتضیٰ بھٹو اور اس کے خاندان کو فوراً فلیٹ سے نکل جانے کا مطالبہ کیا اور فلیٹ سے نکال کر دم لیا۔اسی رات شاہنواز بھٹو وفات پا گئے۔ فاطمہ بھٹو لکھتی ہیں کہ شاہنواز بھٹو کے پاس ایسی پینٹراکس زہر بھی موجود تھی جو انہیں مسلح جہدوجہد کی تربیت دینے والوں نے دی تھی تاکہ وہ جنرل ضیاالحق کے چنگل میں جانے کی ذلت سے بچنے کے لیے خود کو ہلاک کر لیں۔فاطمہ بھٹو لکھتی ہیں کہ جب بینظیر بھٹو نے 1988 میں وطن واپسی کا فیصلہ کیا تو اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے ضیا الحق کو یہ کہہ کر مطمئن کر دیا کہ وہ حکومت کے لیے نہیں بلکہ ایم آر ڈی کے لیے خطرہ ہوں گی۔فاطمہ بھٹو بتاتی ہیں کہ ان کے والد کو شام اور لبیا سے کتنے ہتھیار ملے اور ایک ایسا موقع بھی تھا کہ جب ان کے والد اسلحہ سے بھرا ہوا جہاز لے کر کابل پہنچے۔ وہ لکھتی ہیں کہ دبئی کے بادشاہ شیخ زید بن سلطان النہیان نے ان کے والد کو مسلح جدوجہد کرنے سے منع کیا اور صرف دس ہزار ڈالر کی امداد کی۔ ان کے والد شیخ زید بن سلطان کی رقم کو اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتے تھے اسی لیے اس رقم سے اپنی گرل فرینڈ ڈیلا رونک کے لیے رولیکس گھڑی کا تحفہ خرید لیا۔الذولفقار نامی تنظیم کی طرف سے پی آئی اے کا طیارہ اغوا کرنے کے بارے میں کہتی ہیں کہ سلام اللہ ٹیپو ہمیشہ سے مشکوک تھے اور وہ اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ کابل میں الذولقفار کے تربیتی کیمپ میں مرتضیٰ بھٹو سے مل چکے تھے۔فاطمہ بھٹو لکھتی ہیں کہ سلام اللہ ٹیپو نے دو مرتبہ پی آئی اے کا طیارہ اغوا کرنے کی تجویز پیش کی لیکن ان کے والد نے ہر بار یہ تجویز مسترد کر دی۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے والد کو پی آئی اے کے طیارے کے اغوا کا پتہ اس وقت چلا جب انہیں کابل ہوائی اڈے کے ائر کنٹرول ٹریفک سے کال موصول ہوئی۔وہ لکھتی ہیں کہ طیارہ اغوا کرنے کا فیصلہ ان کے والد کا نہیں بلکہ سلام اللہ ٹیپو کا ذاتی تھا۔فاطمہ بھٹو طیارے کے اغوا سے پیدا ہونے والی مشکلات کا الزام بھی بینظیر بھٹو کو دیتی ہیںجنہوں نے طیارے کے اغوا کی خبر پر خوشی کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ’ ہمارے لوگوں نے یہ کارنامہ کر دکھایا ہے۔‘۔ فاطمہ بھٹو لکھتی ہیں کہ انہوں نے جب بھی ’وڈی بوا‘ کے دوستوں سے طیارے کے اغوا کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کی تو جواب ملا:’ نہیں نہیں بینظیر تو ہمیشہ پرامن سیاسی جہدوجہد پر یقین رکھتی تھیں۔‘ یہ بتائے بغیر کہ وہ بینظیر بھٹو کی کس دوست سے ملیں وہ اپنا فیصلہدیتی ہیں کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں۔وہ لکھتی ہیں کہ جب ان کے والد واپس پاکستان پہنچ گئے اور انہیں تمام الزمات سے باعزت بری کر دیا گیا تب بھی ان کی پھوپھی انہیں جیل سے رہا نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ فوج کی طرف سے مرتضیٰ بھٹو کو ’ہیرو’ نہ بنانے کے مشورے پر رہا کیا گیا۔فاطمہ بھٹو جب اپنے باپ کی موت کا احوال بیان کرتی ہیں تو اس وقت ان کا انداز بیان زوردار اور جذباتی ہو جاتا ہے اور وہ بتاتی ہیں کہ ستر کلفٹن کے باہر جب ان کے والد کے قافلے پر پولیس نے حملہ کیا تو وہ زخمی ضرور ہوئے لیکن ہلاک نہیں ہوئے اور پولیس نے ان کو اپنی ایک گاڑی میں ڈال کر گولی ماری اور پھر کراچی کے مڈایسٹ ہسپتال کے دروزے پر پھینک دیا۔ وہ لکھتی ہیں کہ مڈایسٹ ہسپتال میں ایمرجنسی کے کیسز سے نمٹنے کا تجربہ تھا نہ ہی یقین تھا۔فاطمہ بھٹو نے پاکستان کے سابق صدر فاروق احمد لغاری کے حوالے سے لکھا ہے کہ آصف زرداری نے انہیں کہا تھا کہ اس ملک میں یا میں رہ سکتا ہوں یا مرتضیٰ بھٹو۔کتاب میں فاطمہ بھٹو اپنی زندہ پھوپھی صنم بھٹو کا صرف ایک بار ہلکا سا ذکر کرتی ہیں اور بینظیر بھٹو کی اولاد کا وہ سرے سے نام لینا بھی پسند نہیں کرتیں۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv