لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ خواجہ آصف امریکہ جاتے ہیں تو بیان دیتے ہیں کہ ڈومور کیلئے تیار ہیں جہاں آپ کہیں گے بمباری کرینگے۔ اب یہاں مختلف بیان دے دیا کہ مزید کچھ نہیں کہہ سکتے سمجھ سے باہر ہے کہ ان کی کون سی بات پر یقین کر لیا جائے۔ خواجہ آصف بڑی اہم ذمہ داری پر تعینات ہیں انہیں ہر دوسرے دن رائے تبدیل نہیں کرنی چاہیے۔ تاکہ ان کی بات سنجیدگی سے لی جائے۔ امریکہ نے بھارت کی فوج کو جدید ہتھیار اور ٹیکنالوجی دینے کا کہہ دیا ہے۔ ہندو کی گود میں بیٹھ کر جو چاہے تیر چلائے پاکستان اپنی سلامتی اور خودمختاری کی جنگ لڑنا جانتا ہے۔ پاک فوج دنیا کی بہترین فوج ہے ہم ایٹمی طاقت میں بہترین میزائل سسٹم رکھتے ہیں دشمنوں سے نمٹنا جانتے ہیں۔ امریکہ خوب جانتا ہے کہ بھارت کی فوج صرف پاکستان کے خلاف استعمال ہو گی کیونکہ اس کا بنگلہ دیش، سری لنکا ودیگر چھوٹے ممالک سے کوئی جھگڑا نہیں۔ چین سے وہ لڑ نہیں سکتا صرف پاکستان ہے جس کو آج تک ہندو بنئے نے دل سے تسلیم نہیں کیا اور آج بھی یہاں دہشت گردی اور نفرت پھیلانے میں مصروف ہے کوئی شک نہیں کہ بھارتی فوج کو مضبوط بنانے کا مقصد پاکستان پر چڑھائی کو ممکن بنانا ہے۔ کلبھوشن یادیو پاکستان میں کیا گل کھلا رہا تھا سب سامنے آ چکا ہے۔ بچوں سے زیادتی اور فحش تصاویر پر بل کے حوالے سے سینئر صحافی نے کہا کہ طلال چودھری اپنی ساری صلاحیتیں تو مخالفین کو گالیاں دینے پر صرف کر دیتے ہیں۔ اگر وہ سنجیدگی سے کام کر رہے ہوتے تو بل پر مخالفت کی گنجائش نہ تھی وہ کہہ سکتے تھے کہ 73ءپہلے سے موجود میں ایک بل اور منظور کر لیتے ہیں۔ اصل صورتحال بڑی تشویشناک ہے خود سرگودھا، ملتان، رحیم یار میں جو خوفناک واقعات سامنے آئے اور قانون حرکت میں نہ آ سکا تو مزید قانون بنانے میں کیا فرق پڑے گا۔ قصور میں 300 بچوں کا میگا سکینڈل سامنے آیاجن سے زیادتی کی ویڈیو اور تصاویر بنا کر غریب والدین کو برسوں تک بلیک میل کیا گیا۔ قصور میں ایک بچے کے والد سے ملا تو اس کی باتیں سن کر رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ آنکھوں میں آنسو لیے شرمندگی سے خود کو قصوروار سمجھتا رہا اس والدنے بتایا کہ کیس کو 8 سال گزر چکے ہیں اپنی محدود آمدنی سے ملزمان کو رقم دیتا ہوں کہ وہ میرے بچے کی ویڈیو عام نہ کریں۔ میرا بیٹا گھر سے باہر نہیں نکلتا ہم بچوں کو سکول تک بھیجنے سے ڈرتے ہیں اس مکروہ کھیل کے پیچھے ایک صوبائی رکن اسمبلی اور اس کا وکیل بھائی تھاجن کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی گئی۔ یہ صورتحال دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم سب جانور بن چکے ہیں انسانیت نام کی کوئی چیز ہمارے اندر زندہ نہیں رہی۔کراچی میں کرپشن کی داستانیں مشہور ہیں۔ اے پی این ای اور سی پی این ای نے باقاعدہ قراردادوں میں کہا ہے کہ وزارت اطلاعات میں اتنا غبن رہا ہے اتنی کمیشن لی جا رہی ہے لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ رینجرز کے تحت جے آئی ٹی نے جتنے لوگوں کو پکڑا پوچھ گچھ کی تو ہر کسی نے ہمیں کہا کہ اتنا حصہ بلاول ہاﺅس پہنچاتا تھا۔ اگر یہ غلط بیان تھے تو زرداری ان کے خلاف عدالت کیوں نہ گئے۔ آصف زرداری پر الزامات ہیں کہ اتنی شوگر ملز اور زمینوں پر قبضے کیے آج تک تردید کیوں نہ کی۔ کراچی میں صفائی کی صورتحال بھی دگرگوں ہے کوئی ادارہ کام نہیں کر رہا۔ پاکستان میں تمام صوبوں میں ہی صورتحال یہ ہے کہ سرکاری ادارے تباہ ہو چکے ہیں کرپشن نے انہیں گھن کی طرح کھا لیا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں نہ مارشل لاءاچھا آیا نہ جمہوریت ہی اچھی ملی۔ مشرف دور میں جب تک سیاستدان ساتھ نہ تھے کرپشن قدرے کم رہی جیسے ہی سیاستدان ہم رکاب ہوئے بدترین کرپشن شروع ہو گئی۔ نواز شریف اپنی بیمار بیگم کی عیادت کرنے جائیں گے نہ کہ احتساب عدالتوں میں دھکے کھانے آئیں گے۔ نواز شریف پاکستان نہیں آئے ان کے وکیل بھی پیش نہیں ہوا ہے۔ پاکستان کا پورا نظام عدل لرز رہا ہے ۔ دیکھنا ہے کہ یہ نظام چلتا ہے ڈوبتا ہے۔ سابق وزیرخارجہ سردار آصف احمد علی نے کہا کہ پاکستان نے امریکہ کو اچھے انداز میں ہینڈل کیا ہے۔ یہ بھی کہا کہ ہم تعاون کو تیار ہیں اور یہ بھی باور کرا دیا کہ آپ کی خواہشات یعنی مزید ڈومور نہیں کر سکتے بلکہ ہم اپنے مفاد کو دیکھتے ہوئے ڈومور کرینگے۔ امریکی وزیرخارجہ کابل میں الٹی سیدھی باتیں کرتے رہے پاکستان آئے تو رویہ مختلف تھا اب دبئی گئے ہیں تو ٹون پھر بدل گئی ہے بھارت کو بڑی بڑی آفرز اس لیے کی جا رہی ہیں کہ امریکہ اسے پارٹنر سمجھتا ہے کسی زمانے میں ہم امریکہ کے پارٹنر تھے آج بھارت ہے حالات تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ امریکہ میں صدر بدلنے سے پالیسیاں نہیں بدلتی۔ کلنٹن دور میں امریکہ نے بھارت کو پارٹنر بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ تاکہ اسے صدر بنا کر چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کیا جا سکے۔ امریکہ نیڈولم کی طرح گھومتا ہے اس کی پالیسی میں اعتدال نہیں ہے۔ پاکستان کو اس سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے چین اور ایران سے اچھے تعلقات ہیں روس سے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں پاکستان کو اپنے مفادات کے تحت فیصلے کرنا ہونگے۔