لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے پروگرام ”کالم نگار“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف تجزیہ کار مکرم خان نے کہا ہے کہ پاکستان بلوچستان کے بغیر نامکمل ہے۔ بلوچستان کے حالات کوئی نئے نہیں ہیں بلکہ قیام پاکستان کے وقت سے ہی مسائل شروع ہو گئے تھے پچھلی دہائی میں نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد معاملات گھمبیر ہوتے چلے گئے۔ اس سے قبل قبائل میں جنگیں تھیں۔ فوج، سویلین اور عوام کی قربانی کی وجہ سے اب حالات اوار معاملات بہتری کی جانب جا رہے ہیں۔ اکبر بگٹی گیس کی رائلٹی لینے میں نمبر ون تھے۔ اکبر بگٹی کو جمالی کی جگہ وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا۔ مشرف نے انہیں اطلاع بھی دے دی تھی۔ لیکن بعد میں اسے روک دیا گیا۔ پرویز مشرف کو کسی نے کہا کہ ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں۔ بلوچ کمیونٹی کو ایک شہید چاہئے تھا۔ بگٹی صاحب کے قتل سے پہلے بلوچستان کے حالات یکسر مختلف تھے۔ لیڈر آف اپوزیشن کی تبدیلی میں پی ٹی آئی زوروشور سے آگے بڑھ رہی ہے۔ دوسری جانب خورشید شاہ کی حفاظت میں آصف زرداری میدان میں اتر چکے ہیں۔ آصف زرداری مخالفین کو اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ ویسے وہ توڑ جوڑ کے ماہر گنے جاتے ہیں۔ معروف صحافی اور کالم نگار توصیف احمد خاں نے کہا ہے کہ بلوچستان پاکستان کا اہم صوبہ ہے۔ اس کے مسائل حل کرنے کیلئے پچھلی حکومتوں نے کوئی خاص تگ و دو نہیں کی۔ لیکن آج وہاں حالات بدل چکے ہیں۔ مشرف دور میں اکبر بگٹی کے خلاف کیا جانے والا آپریشن متنازعہ بنا ہوا ہے۔ اکبر بگٹی محب وطن انسان تھے۔ وہ غدار ہر گز نہیں تھے۔ ان کے ساتھ معاملہ ڈاکٹر شازیہ کا تھا۔یہ مسئلہ بگٹی سردار کا معاملہ تھا جبکہ اکبر بگٹی غدار نہیں تھا۔ خان آف قلات نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تھا۔ بلوچستان کسی قیمت پر پاکستان سے علیحدہ نہیں ہو سکتا۔ اسحاق ڈار نے ماضی میں بھی 164 کا بیان دیا تھا۔ اس سے وہ مکر نہیں سکتے۔ پی پی پی کے تین ادوار گزرے ہیں پہلا ذوالفقار علی بھٹو کا دوسرا بینظیر بھٹو کا اور تیسرا آصف زرداری کا پی پی پی کے پاس اپوزیشن لیڈر کیلئے ووٹ بینک زیادہ ہے۔ پی ٹی آئی جسے قاتل پارٹی کہتی تھی اس کے ساتھ جا ملی ہے۔ پی پی پی کی پوزیشن اب بھی بہتر ہے۔ معروف صحافی خالد چودھری نے کہا ہے کہ پاکستان، بلوچستان کے بغیر نامکمل ہے۔ تاریخ میں جغرافیے تبدیل ہوتے رہے قلات کو پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کوئٹہ کمیونٹی نے کیا تھا۔ بھٹو دور میں ملٹری آپریشن ہوا۔ پی این اے اور بھٹو کے مذاکرات ہوئے انہوں نے کہا آپریشن ختم کریں۔ ضیاءالحق نے انکار کر دیا۔ بھٹو کو اسٹیبلشمنٹ نے آپریشن ختم نہیں کرنے دیا۔ حب الوطنی انسان کے قلب میں ہوتی ہے۔ لوگ پارٹیشن کے وقت اپنے مال دولت جائیدادیں چھوڑ کر پاکستان آئے۔ اور وفا کا مظاہرہ کیا۔ اسحاق ڈار کی دولت میں پچھلے پندرہ سال میں 91 گنا اضافہ ہوا۔ ان کے شاہانہ اسٹائل کو دیکھ کر سمجھ لینا چاہئے کہ یہ ملک کے ساتھ کتنے مخلص ہیں دبئی میں ان کے اربوں روپوں کے پلازے ہیں۔ ان کے بچوں کی گاڑیاں، نائٹ کلب کے اخراجات کروڑوں میں ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں جائیداد کا کاروبار ٹھپ کر دیا۔ ملک میں جمہوری دور ہو یا غیر جمہوری، طاقت ایک شخص کے گرد ہی گھومتی رہتی ہے۔ جمہوریت کے لئے سیاسی نظام چلتے رہنے دینا چاہئے۔ کسی جمہوری وزیراعظم کو ٹینور پورا نہیں کرنے دیا گیا۔ کیا جرنیل آسمان سے اترے ہوئے اوتار ہوتے ہیں کوئی دس سال کوئی گیارہ سال۔ کراچی میں بچیوں کو زخمی کر کے تمام اداروں کو ایک سنگین پیغام دیا جا رہا ہے۔ دفاعی تجزیہ کار و کالم نگار میجر جنرل (ر) زاہد مبشر نے کہا ہے کہ بلوچستان بہت اہم صوبہ ہے پاکستان کی گیس، معدنی دولت کا بڑا ذخیرہ یہاں موجود ہے۔ وہاں شروع سے مسائل موجود تھے۔ قبائل جنگیں تھیں۔ پھر غیر ملکی مداخلت تھی آج کے حالات پہلے کی نسبت بہت بہتر ہیں۔ جنیوا میں بلوچستان کے حق میں جو نعرے لگے اور احتجاج ہوا۔ وہ بلوچوں نے نہیں بلکہ غیر ملکی طاقتوں کی ڈوری پر ہلنے والے چند افراد نے کیا۔ بلوچستان کو بجٹ میں بہت بڑا حصہ ملتا ہے۔ ابھی وہاں کے سیکرٹری سے کروڑوں روپیہ برآمد ہوا ہے۔ پاکستان کا ہر سپاہی آخری گولی تک پاکستان کا تحفظ کرے گا۔ اسحاق ڈار بنیادی طور پر ڈرپوک انسان ہے۔ وہ کہتا ہے کہ وکیل کے کہنے پر 164 کا بیان ریکارڈ کروایا۔ جو حقائق پیش کئے وہ درست تھے۔ پاکستان میں عام کاروباری انسان ان کی وجہ سے غیر محفوظ ہو گیا ہے۔ ڈی ایچ اے میں جہاں 400، 500 جائیدادوں کا کاروبار ایک ماہ میں ہوا کرتا تھا۔ اب 4 یا 5 تک آ گیا ہے لوگ ان کے ٹیکس نیٹ سے ڈرے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کی شکل میں آمریت داخل ہو چکی ہے۔ جمہوریت میں شخصیت پرستی ہے۔ خورشید شاہ خود جو چاہیں فیصلہ کر لیں بالآخر زرداری کا حکم آتا ہے اور وہ اسے پورا کرتے ہیں۔ نوازشریف کی بیٹی، وزیراعظم کا کردار ادا کرتی رہی۔ پارٹیوں کا مفاد ملکی مفاد کے بعد آنا چاہئے۔ ہماری آزادی ملک پاکستان کی وجہ سے ہے۔ بھارت سے فلمیں پاکستان تو آ سکتی ہیں یہاں سے وہاں نہیں جا سکتی۔ ہمارا سینسر بورڈ کہاں ہے؟