تازہ تر ین

پاکباز خواتین کا کربلا میں کردار, حیا کو کروڑوں سلام

لاہور (خصوصی رپورٹ) قیامت تک آنے والی مسلمان خواتین کیلئے امہات المومنین، بنات رسول اور صحابیات رسول ﷺ کا کردار مشعل راہ ہے۔ میدان کربلا میں خانوادہ حسینؓ کی پاکباز خواتین نے جرات و وفا کی جو شاندار مثالیں قائم کیں وہ تاقیامت اسلامی تاریخ کے صفحات پر جگمگاتی رہیں گی۔ موجودہ دور کی مسلمان خواتین بھی اگر کربلا کی شہزادیوں کی تسلیم و رضا اور جرات و وفا سے سبق حاصل کریں تو معاشرہ سدھر سکتا ہے۔ اپنے پیاروں کے لہولہان جسم اور کٹے ہوئے سر دیکھ کر بھی کربلا کی پاکباز شہزادیوں نے جس صبر و رضا کا ثبوت دیا جس طرح سے حیاءو فا اور غیرت کا مظاہرہ کیا وہ اسلامی تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہے۔ نواسہ سید الابرار سیدنا امام حسینؓ کی ازواج کے متعلق روایات شاہد ہے کہ آ پ کی کل ازواج کی تعداد پانچ تھی۔ ان کے علاوہ کربلا میں آپ کی ہمشیرہ حضرت زینبؓ اور آپ کی صاحبزادی حضرت سکینہؓ کا خاص کردار ہے۔ ذیل میں خانوادہ حضرت حسینؓ کی ان پاکباز خواتین اور کربلا میں شریک شہزادیوں کا مختصر تعارف اور کارہائے نمایاں ذکر کیے جاتے ہیں جو ہر مسلمان عورت کے لیے نقوش منزل ہیں جن کے نام یہ ہیں (1) حضرت شہربانؓ (2) حضرت معظمہ لیلیٰؓ (3) حضرت قضاعیہؓ (4) حضرت ام اسحاقؓ (5) حضرت قضاعیہؓ
حضرت شہربانوؓ: یہ محترمہ یزدجرد بن شہریار بن خسرو پرویز بن ہرمزبن کسریٰ نوشیرواں العادل یزد جرد بادشاہان فارس میں سے آخری بادشاہ سے تھیں اور شاہی خاندان میں ہونے کی وجہ سے ظاہری حسن و کمالات اور آداب و اخلاق سے آراستہ تھیں۔ سیدنا امیر المومنین حضرت عمر بن الخطاب فاروق اعظمؓ کے دور میں لائی گئیں۔ سیدنا عمر الخطاب فاروق اعظمؓ نے اس محترمہ حسینہ و جمیلہ بمعہ مزین ہیرے و جواہرات و زیورات کے سیدنا امام حسینؓ کے س تزویج فرما دی۔ گویا کہ شہنشاہ کسریٰ کی بیٹی کو شہنشاہ شہزادہ کونین سیدنا امام حسینؓ کے ساتھ زوجیت کا شرف حاصل ہوا ۔ ان ہی کے بطن سے سیدنا امام حسینؓ کے ہاں حضرت علی المعروف بہ امام زین العابدینؓ پیدا ہوئے۔
حضرت لیلیؓ: یہ محترمہ بنت بنی مرہ بن مرہ بن عروہ بن مسعود بن معتب الثقفی سے تھیں۔ ان کو سیدنا امام حسینؓ کی زوجیت میں آنے کا شرف حاصل ہوا اور ان کے بطن سے سیدنا امام حسینؓ کے ہاں حضرت علی اکبر متولد ہوئے۔
حضرت ربابؓ: محترمہ بنت امراءالقیس بن عدی الکلبیہ سے ہیں۔ حضرت امام حسینؓ کو اپنی ازواج میں سے زیادہ ان کے ساتھ محبت تھی اور ان کا بہت زیادہ احترام و اکرام فرماتے تھے۔ حضرت امام حسینؓ کے یہ اشعار بہت مشہور ہیں جو آپ نے حضرت رباب کے متعلق فرمائے تھے۔
سچ یہ ہے کہ مجھے محبت ہے اس زمین سے جہاں رباب و سکینہ ٹھہری ہیں
ان پر دولت کثیر خرچ کرتا ہوں اور ملامت گر کی ملامت کی پروا نہیں کرتا
گو وہ یہاں موجود نہیں پر ان سے بے خبر نہ رہوں گا۔ جب تک میں زندہ ہوں اور مٹی نہ چھپالے۔
جب سکینہؓ اور ربابؓ اپنے اقارب سے ملنے گئی ہوں تو رات ایسی لمبی نظر آتی ہے کہ دوسری رات بھی پہلی کے ساتھ مل گئی ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام علی مقام کو حضرت سکینہؓ اور ان کی والدہ ماجدہ سے کس قدر محبت تھی۔ حضرت سکینہ خاتون انہی کے بطن سے تھیں اور حضرت عبداللہ المشہور بہ علی اصغر بھی ان ہی کے بطن سے متولد ہوئے یعنی حضرت امام حسینؓ کی ایک صاحبزادی سیدہ سکینہ خاتون اور ایک صاحبزادے عبداللہ یعنی علی اصغر۔ یہ بہن بھائی انہی سے پیدا ہوئے۔ واقعہ کر کربلا نے آپ کے دل پر بہت گہرا اثر ڈالا تھا اور کیوں نہ ہوتا جب حضرت امام حسینؓ کو آپ سے اس قدر انس و محبت تھی اور ان کی یہ کتنی بڑی خوش نصیبی تھی کہ انہیں جنتی جوانوں کے سردار کی زوجیت کا شرف ملا تھا۔ اس سے حضرت امام حسینؓ کی شہادت پر جس قدر غمگین ہوتیں کم تھا مگر صبرواستقامت کا دامن کبھی نہ چھوڑا بلکہ اس مہرو وفا کی پتلی نے واقعہ کربلا کے بعد اپنے عظیم شوہر کی جدائی پر یہ دردناک جملے ارشاد فرمائے جو آج بھی تاریخ میں نقش ہیں ۔ فرمایا:
”وہ جو نور او رروشنی پھیلاتا تھا کربلا میں مقتول پڑا ہے۔ اسے مدفون بھی کسی نے نہ کیا۔ اے سبط نبی اللہ ہماری طرف سے تجھے بہترین جزا دے آپ میزان عمل سے بچائے گئے یعنی قیامت کے حساب کتاب سے بچائے گئے۔ میرے لیے آپ بلند پہاڑ کی چوٹی تھے جس کی پناہ میں تھی۔ آپ کا برتاﺅ رحمدلانہ اور دیندارانہ تھا۔ اب کون رہ گیا جس کے پاس ہر مسکین، یتیم اور فقیر کو پناہ ملے گی۔ اب مسکینوں کا کون ہے؟ اب اس قرابت کے بعد اور کوئی خوشی پسند نہیں کروں گی، حتیٰ کہ ریت اور مٹی کو جا چھوﺅں یعنی موت تک۔
حضرت ام اسحاقؓ: یہ محترمہ طلحہ بن عبداللہ اتسمینہ سے ہیں، ان کے والد معظم حضرت طلحہ عشرہ مبشر و اصحاب رسول میں سے ہیں ۔ ان کو سرکار حضرت امام حسینؓ کے ساتھ زوجیت کا شرف ملا اور ان کے بطن سے حضرت امام حسینؓ کے ہاں ایک صاحبزادہ حضرت فاطمہ صغریٰ پیدا ہوئیں۔
حضرت قضاعیہؓ: یہ محترمہ قبیلہ بنو قضاعیہ سے ہیں اسی نام قضاعیہ سے مشہور ہیں۔ ان کو حضرت امام حسینؓ مکے ساتھ شرف زوجیت حاصل ہوا۔ ان کے بطن سے حضرت امام حسینؓ کے ہاں ایک صاحبزادے جعفر پیدا ہوئے۔
حضرت فاطمہ صغریٰ خاتون: ان کی والدہ محترمہ ام اسحاق تھیں ، ان کا نکاح حضرت حسن مثنی ابن امام حسینؓ کے ساتھ ہو چکا تھا اور کربلا کے موقع پر یہ بمعہ اپنے بچوں کے اپنے شوہر حسن مثنی کے گھر میں تھیں۔ حضرت امام حسینؓ کے مدینہ طیبہ سے رخصت ہونے پر ان کو ہمراہ نہ لے جانے کی یہی وجہ مانع ہوئی کہ یہ شادی شدہ اپنے گھر والی ہیں۔ دوسرا ان کے شوہر تجارت پر باہر تشریف لے گئے تھے ان کی بغیر اجازت کے ان کے لے جانا بھی مناسب نہ تھا۔ واقعہ کربلا کے وقت سیدہ خیروعافیت کے ساتھ مدینہ طیبہ میں اپنے گھر پر تھیں۔ حضرت فاطمہ صغریٰ کے بطن سے حسن مثنی ابن امام حسن کے ہاں تین صاحبزادے ہوئے جن کی نسل روئے زمین میں ہے۔ عبداللہ المحض، ابراہیم، حسن المثلث۔
حضرت سکینہ بنت الحسینؓ: ان کی والدہ محترمہ حضرت ربابؓ تھیں ۔ واقعہ کربلا کے وقت اپنی والدہ محترمہ کے ساتھ واقعہ کربلا میں موجود تھیں۔ ان کی عمر مبارک اس وقت سات سال تھی یہ وہ صاحبزادی سکینہؓ ہیں جن کے ساتھ سرکار امامؓ کو شدید محبت تھی اوران کی والدہ کے ساتھ بھی محبت تھی ۔ واقعہ کربلا کے خونی منظر میں یہ شہزادی اور ان کی والدہ موجود تھیں۔ سیدناحضرت امام حسینؓ کی شہادت عظمیٰ کے بعد آپ کی نسل روئے زمین میں آپ کے صاحبزادے سیدنا علی المعروف امام زین العابدینؓ سے پھیلی ہوئی ہے اور شہزادی حضرت فاطمہ صغریؓ سے بھی آپ کی نسل روئے دنیا میں آج تک موجود ہے۔
سیدہ زینب بنت علیؓ:حدیث عشق دوباب امت کربلا و دمشق یکی حسینؓ رقم کرد و دیگری زینبؓ سیدہ زینب کبریؓ نے جس گھرانے میں آنکھیں کھولیں وہ روئے زمین کا بہترین گھرانا تھا۔ ان کے نانا سید الانبیا فخر موجودات رحمت دو عالمﷺ تھے۔ تو نانی اسلام کی خاتون اول ام المومنین حضرت خدیجہ الکبریؓ تھیں۔ والد اسد اللہ الغالب حضرت علی کرم اللہ وجہہ تھے تو والدہ سیدة النساءفاطمة الزہراہؓ بتول تھیں۔ ان کے بھائی جوانان جنت کے سردار سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ شہید کربلا تھے تو چچا محبوب رسول جعفر طیارؓ شہید موتہ تھے۔ حضرت زینب ؓ مستند روایات کے مطابق جمادی الاولیٰ سن5 ہجری میں پیدا ہوئیں۔ سرور دوعالمﷺ نے خود ان کا نام زینبؓ رکھا اور اپنا لعاب مبارک ان کے منہ میں ڈالا۔ واقعہ کربلا کے بعد ان کی کنیت ام المصائب مشہور ہوئی ۔ چند مشہورالقاب یہ ہیں۔نائبة الزہرا ،شریکة الحسین، راضیة بالقدر والقصنا، ناموس الکبریٰ صدیقة الصغریٰ، شجاعہ ، فصیحہ ، بلیغہ، زاہدہ فاضلہ، عالمہ، عابدہ، محبوبة المصطفی، عاقلہ کاملہ، موثقہ، ولیة اللہ، کعبة الزرایا، امینة اللہ، قرة عین المرتضیٰ، خاتون کربلا۔ سنہ 11ہجری میں سرور عالمﷺ نے رحلت فرما تو سیدہ زینبؓ کی عمر چھ برس کے لگ بھگ تھی۔
چھ ماہ بعدماں کی آغوش شفقت سے بھی محروم ہوگئیں۔ ان حادثوںنے ننھی زینبؓ کو سخت صدمہ پہنچایا کہ شفیق نانا ؓ اور جانثار ماں دونوں کی جدائی سے وہ اور ان کے سید نا حضرت علیؓ نے اب بچوں کی تعلیم و تربیت کا کام خود سنبھالا اور کچھ مدت کے بعد ان کی نگرانی کیلئے ام البنین بنت خزام کابیہ سے نکاح کرلیا۔ سیدہ زینبؓ جب سن بلوغ کو پہنچیں تو حیدکرارؓ کے بھتیجے شہید موتہ حضرت جعفر طیار بن ابی طالب کے فرزند عبداللہؓ اپنے عم محترم کی خدمت میں حاضر ہوئے حضرت زینبؓ کے ساتھ نکاح کی خواہش ظاہر کی۔ حضرت جعفرؓ کی شہادت کے بعد سرور دو عالم نے خود عبداللہ کی پرورش و تربیت فرمائی تھی اور حضور کے وصال کے بعد حضرت علیؓ ان کے نگرانی و سرپرست تھے۔ وہ بڑے پاکیزہ اخلاق کے حامل تھے اور سیرت و صورت میں جوانان قریش میں امتیازی حیثیت رکھتے۔ سیدناعلی المرتضیٰؓ نے نہایت سادہ طریق سے لخت جگر کا نکاح حضرت عبداللہؓ سے پڑھادیا۔ حضرت زینبؓ کی ازدواجی زندگی نہایت خوشگوار تھی، وہ اپنے شوہر کی بے حد خدمت گزار تھیں اور عبداللہؓ بھی ان کی دل جوئی میں کسر نہیں اٹھا رکھتے تھے اگر چہ گھر میں لونڈیاں بھی تھیں اور خادم بھی لیکن وہ گھر کاکام کاج زیادہ تر خود اپنے ہاتھ سے کرتی تھیں۔ حضرت عبداللہؓ بن جعفرؓ فرمایا کرتے تھے: ” زینب بہترین گھر والی ہے۔“
ذی الحجہ60ہجری میں سیدنا امام حسینؓ نے اہل کوفہ کی دعوت پر اپنے اہل و عیال اور جانثاروں کی ایک مختصر جماعت کے ساتھ مکہ سے کوفہ کا عزم کیا تو حضرت زینبؓ بھی اپنے دونوں خیز فرزندوں کے ہمراہ اس مقدس قافلے میں شامل ہوگئیں۔ حضرت عبداللہ بن جعفرؓ اگرچہ خود اس قافلے میں شریک نہ ہوسکے لیکن انہوں نے حضرت زینبؓ اور اپنے بچوں کو امام حسینؓ کے ساتھ جانے کی اجازت دیدی۔10محرم 61ہجری کو کربلا کا دلدوز سانحہ پیش آیا جس میں حضرت زینبؓ کی آنکھوں کے سامنے ان کے بچے بھتیجے بھائی اور ان کے متعدد ساتھی شامی فوج سے مردانہ وار لڑتے ہوئے ایک ایک کرکے شہید ہوگئے۔ اس موقعہ پر حضرت زینبؓ نے جس حوصلے، شجاعت اور صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا، تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
کہا جاتا ہے نو اور دس محرم کی درمیانی شب کو حضرت امام حسینؓ کی تلوار صاف کی جانے لگی تو انہوں نے چند عبرت انگیز اشعار پڑھے۔ حضرت زینبؓ قریب ہی تھیں، یہ اشعار سن کر ان پر رقت طاری ہوگئی اور زبان پر یہ الفاظ جاری ہوگئے:
”اے کاش آج کا دن دیکھنے کیلئے میں زندہ نہ ہوتی، ہائے میرے نانا، میری ماںؓ، میرے باپؓ اور میرے بھائی حسنؓ سب مجھ کو داغ مفارقت دے گئے۔ اب بھائی اللہ کے بعد ہمارا سہارا اب آپ ہی ہیں، ہم آپ کے بغیر کیسے زندہ رہیں گے۔“
امام حسینؓ نے فرمایا۔ ”زینبؓ صبر کرو۔“
حضرت زینبؓ نے روتے ہوئے عرض کیا۔ ”میرے ماں جائے، آپ کے بدلہ میں، میں اپنی جان دینا چاہتی ہوں“
امام حسینؓ اپنی پیاری بہن کو دلدوز باتیں سن کر اشکبار ہوگئے لیکن مومنانہ شان سے فرمایا:
” اے بہن صبر کرو، خدا سے تسکین حاصل کرو ، خدا کی ذات کے سوا ساری کائنات کے لئے فناہے۔ ہمارے لئے نانا خیر الخلائق کی ذات اقدس نمونہ ہے۔ تم انہیں کے اسوہ حسنہ کی پیروی کرنا۔
جب سیدنا حسینؓ تنہا رہ گئے تو شامی بار بار آپ پر نرغہ کرتے تھے لیکن جوں ہی شمشیر حسینیؓ چمکتی نظرآتی بھاگ گھڑے ہوتے۔ دوش رسول کے سوارلڑتے لڑتے زخموں سے چور چور ہوگئے لیکن اللہ رے ہیبت کہ کوئی تنہا سامنے آنے کی جرات نہ کرتا تھا، جمگھٹے بنا کر ہر طرف سے تیروں ، تلواروں، خجروں اور نیزوں کی بارش کررہے تھے۔ حصین بن نمبر نے ایک نیزہ پھینکا جو گلوئے مبارک میں پیوست ہوگیا اور دہن مبارک سے خون کا فوارہ پھوٹ پڑا۔ اپنے چلو میں تھوڑا سا خون لیکر آسمان کی طرف اچھالا اور فرمایا: ” الٰہی جو کچھ تیرے حبیب کے نواسے کیساتھ کیا جارہا ہے۔ تجھی سے اس کی فریاد کرتا ہوں۔“ بعد ازاں سیدناحسینؓ حضرت زینبؓ کے سامنے مردانہ وار لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔
12محرم الحرام 61 ہجری کو قافلہ حسینی کے پسماندگان کو جن میں کچھ خواتین بچے اور حضرت زین العابدینؓ جو بیمار تھے، شامی فوج اسیر کرکے کوفہ کی طرف لے چلی۔ جب اسیران حق کا لٹا ہوا قافلہ کوفے میں داخل ہوا تو اہل کوفہ ہزاروں کی تعداد میں انہیں دیکھنے کیلئے جمع ہوگئے۔ ان میں سے بعض کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ بے وفا کوفیوں کے ہجوم کو دیکھ کر شیر خدا کی بیٹی کو تاب ضبط نہ رہی، ان لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا:
”لوگوں اپنی نظریں نیچی رکھو، یہ محمد رسول اللہ کی لٹی ہوئی اولاد ہے“
اس کے بعد انہوں نے اہل کوفہ کے سامنے ایک عبرت انگیز خطبہ دیا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ خود حیدر کرارؓ تقریر فرمارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی حمد وثناءکے بعد فرمایا:
”اے کوفیو، اے مکارو، اے عہد شکنو! اپنی زبان سے پھر جانے والوں، خدا کرے تمہاری آنکھیں ہمیشہ روتی رہیں، تمہاری مثال ان عورتوں کی سی ہے جو خود ہی سوت کاتتی اور پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے کردیتی ہیں۔ تم نے خود ہی میرے بھائی سے رشتہ بیعت جوڑا اور پھر خود ہی توڑ ڈالا۔ تمہارے دلوں میں کھوٹ اور کینہ ہے۔ تمہاری فطرت میں جھوٹ اور دغا ہے۔ خوشامد، شیخی خوری اور عہد شکنی تمہارے خمیر میں ہے، تم نے جو کچھ آگے بھیجا ہے وہ بہت برا ہے۔ تم نے خیر البشر کے فرزند کو جو جنت کے جوانوں کے سردار ہیں قتل کیا ہے خدا کا قہر تمہارا انتظار کررہا ہے۔
آہ اے کوفہ والو! تم نے ایک بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کیا جو منہ بگاڑ دینے والا اور مصیبت میں مبتلا کردینے والا ہے یاد رکھو تمہارا رب نافرمانوں کی تاک میں ہے۔ اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔“
اس خطبہ کو سن کر کوفیوں کو اس قدر ندامت ہوئی کہ ان میں سے اکثر کی روتے روتے گھگی بندھ گئیں۔ خدا بن کثیر جو عرب کے فصیح ترین آدمیوں میں شمار ہوتاتھا وہ بھی حضرت زینبؓ کا خطبہ سننے والوں میں شامل تھا۔ خطبہ سن کر وہ سیدہؓ کے زور بیان فصاحت و بلاغت سے دنگ رہ گیا اور بے ساختہ کہنے لگا:
”واللہ اے علیؓ کی بیٹی تمہارے بوڑھے سب بوڑھوں سے ، تمہارے جوان سب جوانوں سے، تمہاری عورتیں سب عورتوں سے اور تمہاری نسل سب نسلوں سے بہتر ہے جو حق بات کہنے میں کسی سے نہیں ڈرتی۔“
پاکستان کی خواتین کو یورپ مرعوب ہونے کی بجائے یا بھارت کے بدبودار کلچر کے پیچھے چلنے کی بجائے کربلا کی عفت مآب اور پاکباز شہزادیوں کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرنی چاہیے کیوں کہ اسی میں دنیا اور آخرت کی کامیابی ہے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv