لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک)چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”کالم نگار“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف تجزیہ کار مکرم خان نے کہا کہ چوہدری نثار علی خان پر پارٹی کے اندر ایک رسہ کشی کا ماحول ہے وہ نویں مرتبہ رکن منتخب ہوئے ہیں اور چوتھی مرتبہ وزیر بھی aبنے۔ لیکن اس مرتبہ ان کا لب و لہجہ ماضی سے مختلف ہے۔ ہمارے ملک میں موروثیت قائم ہے چودھری نثار علی خان غلطی پر تھے۔ مریم نواز کے بارے ان کا بیان مناسب نہیں تھا۔ مریم نواز نے میاں نوازشریف کی مہم چلائی ہے۔ نظریہ ضرورت کے تحت ہر سیاسی جماعت استعمال ہوتی ہے۔ قومی اسمبلی کے 92 افراد پارلیمنٹ کے اندر ایسے تھے جو چوہدری نثار علی خان کے پلڑے میں وزن ڈالنے کو تیار بیٹھے تھے۔ چودھری نثار کا قریبی رابطہ شہباز شریف کے ساتھ ہیں۔ ہمارے وزیراعظم مہنگے ترین ہوٹل اور گاڑی استعمال کر رہے ہیں۔ غریب ملک کا وزیراعظم ایسے شاہانہ خرچ کر رہا ہے۔ جمہوری ممالک کے سربراہان اپنا اقتدار ختم کرنے کے بعد وہاں عام آدمی کی حیثیت سے رہ رہے ہوتے ہیں بارک اوباما کو دیکھ لیں۔ اس کے برعکس ہمارے لیڈران استدار ختم ہوتے ہی دوسرے ملک فرار ہو جاتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی شاہانہ خرچ پہلی مرتبہ نہیں کر رہے۔ ہمارے لیڈران کو دوسرے ممالک جا کر عوامی حلقے میں نہیں جاتے۔ امریکی صدر عام آدمی کے ساتھ گھل مل رہا ہوتا ہے ٹرم صاحب نے ہمارے کسی لیڈر سے ابھی تک ہاتھ تک ملانا گوارا نہیں کیا۔ اشرف غنی تک ہمارے لیڈر کے ساتھ ملاقات نہیں کی۔ ریحام خان نے دوسرے ملک میں واجبی سی تعلیم حاصل کی پھر وہ ”ویدر پرسن“ بنی پھر اینکر بنی اس کے بعد انہوں نے عمران خان سے شادی کر لی علیحدگی کے بعد انہوں نے راز اگلنا شروع کئے۔ اب سنا ہے کہ پہلے مسلم لیگ کی طرف مائل تھیں لیکن اب پی پی پی میں جانے والی ہیں۔ پی پی پی جوائن کرنے کے بعد شاید وہ عمران خان پر کیچڑ اچھالیں گی۔ روس کے ایک ایٹمی سائنسدان استانیر پیروف انتقال کر گئے جنہوں نے 1983ءمیں ایٹمی جنگ ہوتے ہوئے بچا لی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کی تربیت کی وجہ تھی کہ اس نے ایسا رویہ اختیار کیا۔ معروف صحافی و تجزیہ نگار خالد چودھری نے کہا کہ اقتدار کی جنگ میں کوئی رشتہ داری نہیں ہوتی۔ چودھری نثار علی چاہتے ہیں کہ شہباز شریف ان کے ساتھ آ کر میں اور ہم اپنی قوت دکھائیں لیکن پی پی پی کی تاریخ دیکھتے ہوئے شہباز شریف اس پر راضی نہیں۔ مصطفی کھر بھٹو کے بعد طاقتور سمجھے جاتے تھے۔ ڈاکٹر غلام، کوثر نیازی جب پارٹی سے باہر نکلے تو وہ صفر ہو گئے۔ ووٹ پارٹیوں کے ہوا کرتے ہیں۔ بھٹو دور میں جو ووٹ پی پی پی کا تھا۔ وہی بینظیر بھٹو کو ملا۔ اسی طرح (ن) لیگ کا ووٹ نواز شریف کا ووٹ ہے۔ وہ شہبازشریف یا کسی اور کو نہیں مل سکتا۔ پنجاب میں 1988ءسے ن لیگ کا ووٹ قائم ہے۔ این اے 120 کا الیکشن اسٹیبلشمنٹ نے نہیں لڑا۔ اگر وہ درمیان میں ہوتے نہ فارم (14) ملتا نہ اس طرح معلومات عوام تک پہنچ پاتیں۔ ہر ایم این اے وزیراعظم بننے کا اہل ہے۔ ہمارے سیاستدان عمرہ تک سرکاری خزانے پر کرنے جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ اعلان کیا تھا کہ میڈیا کے اپنے خرچے جایا کریں گے لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ حکمران عوام کے ٹیکس پر عیاشی کرنا بند کریں۔ سیاستدان اپنے گریبان میں جھانکیں جب یہ پیدا ہوتے تھے تو منہ میں پلاٹینم کا چمچ لے کر پیدا ہوتے تھے۔ جب ان کا اقتدار ختم ہوا تو یہ پرائیویٹ فلائٹ میں دوسرے ملک چلے جائیں گے۔ سیاست ایسا حمام ہے جس میں سب ننگے ہیں۔ بھگوڑے سیاستدان بھی واپس آ کر رقم کا کچھ حصہ لوٹا دیتے ہیں اور پھر اقتدار پر نظریں رکھتے ہیں۔ مشرف کے پاس کم دولت نہیں۔ ہر ملک اپنا مفاد پہلے دیکھتا ہے۔ مودی کو عرب ممالک میں کیسا پروٹوکول ملا وہ مسلمان تو نہیں تھا، ہمارے ملک کی خواتین مظلوم ہوتی ہیں۔ اسے طلاق ہوئی تو عمران خان بھی طلاق یافتہ ہے۔ توصیف احمد خان نے کہا کہ وقت نے ثابت کیا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد کوئی کسی کا نہیں ہوتا۔ باپ بیٹے کا نہیں ہوتا۔ بھائی بہن کا نہیں ہوتا۔ اور کوئی بھی کسی کو نہیں بخشتا۔ بادشاہ صرف بادشاہ ہوتا ہے اس کا خاندان نہیں ہوتا۔ وہ پنے خاندان کو بھی نہیں بخشتا شہبازشریف کی کارکردگی پر نواز شریف کا ووٹ بنا ہے۔ چودھری نثار علی خان کبھی بھی وزیراعظم شپ کا امیدوار نہیں رہا۔ وہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا امیدوار پہلے بھی تھا اور اب بھی ہے۔ (ن) لیگ شہباز شریف کو وزیراعظم بنانا چاہتے تھے۔ شاید فوج بھی اس حق میں تھی پارٹی کے اندر صفائی سے مراد ایسے عناصر ہی ہیں جو پارٹی کے خلاف چل رہے ہیں وزیراعظم دوسرے ممالک جا کر شاہانہ خرچ کرتے ہیں۔ ہمارے ملک سے قرض لینے کیلئے جو وفد باہر جاتا ہے وہ تو 7 سٹار ہوٹل میں رہائش کرتا ہے جبکہ قرض دینے والے آ کر 3 اسٹار سے بڑے ہوٹل میں نہیں ٹھہرتے۔ ریحام خان کو کسی سیاسی پارٹی نے گھاس نہیں ڈالی۔ مسلم لیگ کی طرف گئی تو کسی نے نہ پوچھا۔ جماعت اسلامی کے دھرنے میں گئی تو کسی نے اس کو منہ نہیں لگایا اب اگر وہ پی پی پی کی طرف جاتی بھی ہے تو اسے کچھ نہیں ملنے والا۔ عمران خان پر ڈالنے کیلئے اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔امجد اقبال نے کہا مسلم لیگ (ن) کے اندر اس وقت چوہدری نثار علی خان کے اوپر بہت بحث ہو رہی ہے انہوں نے کسی حد تک ٹھیک کہا کہ اپنا گھر ٹھیک ضرور کریں لیکن اس کا پرچار نہ کریں۔ وزیراعظم اور خواجہ آصف کا بیان درست ہے کہ اپنے ملک کو ٹھیک کرنے کیلئے صفائی ضروری ہے۔ خاندان کا ہر شخص بادشاہ بننے کا امیدوار ہوتا ہے۔ اسی طرح طاقت آگے منتقل ہوتی ہے۔ چوہدری نثار علی خان کی ”سینئر موسٹ“ رکن ہونے کی وجہ سے خواہش تھی کہ انہیں وزیراعظم بنایا جائے۔ لیکن ایسا ہو نہ سکا اور وہ ناراض ہو گئے۔ ہمارا کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ اور تجارتی خسارہ انتہائی خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے اب نئے قرضے بھی نہیں ملیں گے۔ پچھلے قرضوں کی واپسی بھی ہونی ہے۔ ہماری معیشت تباہ ہو رہی ہے۔ اور ہمارے وزیراعظم باہر جا کر شاہانہ اخراجات کر رہے ہیں۔ یہ ہر گز انہیں زیب نہیں دیتا۔ پاکستان کے غریب ملک کا رویہ اس طرح شاہانہ اخراجات میں نہیں اڑایا جانا چاہئے۔ شہنشاہوں کی طرح حرچ کرنا غریب ملک کے وزیراعظم کو زیب نہیں دیتا۔ ہماری خارجہ پالیسی خرابی کا شکار ہے۔ ریحام خان کا نہ سیاسی قد ہے۔ نہ اتنی بڑی اینکر ہیں کہ وہ پی پی پی میں چلی جاتی ہیں تو انہیں عمران خان کے خلاف آلے کے طور پر استعمال کریں گے۔