لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ”ضیا شاہد“ نے کہا ہے کہ سعودی عرب دنیا کے تمام مسلمانوں کے لئے قابل احترام ہے۔ مسلمانوں کا قبلہ ہے۔ یہاں دنیا کے مسلمان اکٹھے ہوتے ہیں، اتحاد اور یگانگت کا منفرد انداز یہاں دکھائی دیتا ہے۔ مسلمان ممالک کی حکومتیں مسائل کھڑے کرتی ہیں۔ جبکہ عوام اور شہری کو آپس میں اتحاد کے خواہاں ہوتے ہیں جبکہ حکومتیں اپنے ذاتی مفادات کی خاطر پالیسیاں بناتی ہیں اور دنیا کی بڑی طاقتوں کے ساتھ ان کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ اس لئے وہ اپنے شہریوں کے نظریات کو خاطر میں نہیں لاتیں۔ موجودہ دور میں تعلیم کا شعور بڑھ رہا ہے۔ اور ایسی صورتحال کا برقرار رہنا اب مشکل ہو گا۔ جو مسلمان حکومتیں عوام کے نظریات کے خلاف چلیں گی۔ عوام انہیں اٹھا کر پھینک دیں گے۔ بینظیر بھٹو قتل کیس میں آنے والا فیصلہ نامکمل فیصلہ ہے اس لئے کہ اگر کوئی ملزم اشتہاری قرار پاتا ہے تو اسے ٹرائل کے بغیر سزا نہیں دی جا سکتی۔ عدالت نے پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دیا ہے اور ان کی جائیدادیں ضبط کرنے کا حکم دیا ہے اور کہا ہے کہ ان کی گرفتاری کے بعد علیحدہ سے ٹرائل ہو گا۔ ایسی صورتحال میں جب تک ملزم عدالت میں پیش نہ ہو جائے اور ٹرائل کے بعد جامع فیصلہ نہ آ جائے تو فیصلہ مکمل نہیں ہو گا۔ اس کیس میں چند بیوروکریٹس نرغے میں آئے۔ انہیں 17، سترہ سال سزا دے دی گئی ہے۔ ان دونوں کو موقعہ واردات سے شواہد مٹانے کی سزا دی گئی ہے۔ یعنی وہ اصل ملزموں تک پہنچنے کے راستے میں رکاوٹ بنے۔ انہیں سخت سزا اس لئے دی گئی ہے کہ اتنے بڑے سانحہ کے شواہد کو مٹانے اور وقت سے قبل دھو دیا گیا۔ اور ثبوتوں کو ضائع کر دیا گیا، وہ قتل میں ملوث نہیں تھے۔ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد طالبان کے سربراہ نے قبول کر لیا تھا کہ یہ قتل انہوں نے کروایا ہے۔ ماہرین قانون کے مطابق مقتول کو قتل کے مقدمے سے خارج کر دیا جاتا ہے ملزم کو انٹرپول کے ذریعے واپس بلایا جا سکتا ہے۔ مشرف کو عدالت کا اشتہاری قرار دینا ہی کافی ہے اور وزارت داخلہ اب انہیں متعلقہ ملک سے واپس اٹھوا سکتی ہے۔ عدالت کے اس فیصلے کے بعد کسی بھی چینل کو مشرف کو لائن پر لینا مشکل ہو جائے گا۔ شیخ رشید کی پٹیشن پر نوازشریف کو نااہل قرار دیا گیا ہے۔ اب انہوں نے شاہد خاقان عباسی کے خلاف درخواست دائر کر دی ہے۔ حکومتی سائیڈ یقینا اسے سنجیدگی سے لے گی۔ شیخ رشید کو امید ہے کہ ان کے دلائل سے دوسرا وزیراعظم بھی اڑ جائے گا۔ اس لئے وہ اپنے کیس کی پیروی بھی خود کرتے ہیں۔ شیخ رشید خود صادق اور امین ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ بھی عدالت کو کرنا چاہئے۔ سیاستدان وقت کے ساتھ ساتھ اپنے بیانات بدلنا اپنا حق سمجھتے ہیں وہ مثال کے طور پر قائداعظم کو پیش کرتے ہیں کہ پہلے وہ کانگرس میں تھے پھر مسلم لیگ بنائی۔ شیخ رشید اس بارات کے دولہا ہیں۔ وہ اس کوشش میں ہیں کہ ایک اور وکٹ گرا لیں۔ طاہرالقادری بھی ان حالات میں خود کو ”اسٹینڈ بائی“ رکھنا چاہتے ہیں اسی میں کوئی چندہ وغیرہ یا کھالیں جمع ہو جاتی ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ ملک میں ن لیگ کی حکومت ہے۔ ان کی بیگم این اے 120 سے کامیاب ہو جاتی ہیں تو بھی ان کی ہی حکومت کو تقویت ملے گی۔ مریم نواز اگر اپنی والدہ کی عیادت کیلئے جانا چاہتی ہیں تو جا سکتی ہیں۔ لیکن ان کے بغیر یہاں الیکشن مہم مکمل نہیں ہو سکتی۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے اے آر وائی اور لینڈ مافیا کا ذکر کیا لیکن نام نہیں لیا شاید میاں صاحب اس لئے ملک ریاض کا نام نہیں لے رہے کہ ان کے بنائے ہوئے تین مرلہ سکیم کے ٹھیکیدار انہیں کے بندے تھے۔ بادشاہ، بادشاہوں سے بگاڑتے نہیں ہیں۔ کوئی پتہ نہیں کسی وقت کسی کی ضرورت پڑ جائے۔ اس لئے شاید وہ کسی کا نام منظر عام پر نہیں لانا چاہتے۔ ماہر قانون جسٹس (ر) ناصرہ جاوید نے کہا ہے کہ جو ملزم عدالت میں پیش نہیں ہوتا اسے اشتہاری قرار دے دیا جاتا ہے ویسے ملزم کی عدم موجودگی میں بھی ٹرائل ہو سکتی ہے۔ لیکن جرم ثابت ہونے تھے اسے مجرم نہیں قرار دیا جا سکتا۔ کسی حد تک تو مشرف کا کردار دکھائی دیتا ہے۔ بینظیر بھٹو نے ایک خط میں لکھا تھا کہ مجھے کچھ ہوا تو اس کا قصور وار مشرف ہو گا اس کے علاوہ سانحے کے فوراً بعد وہاں سے شواہد کو دھو دیا گیا اور لائٹیں بھی بند کر دی گئیں۔ ایسے اقدامات حکومت کی مرضی کے بغیر ممکن نہ تھے۔ تو مشرف کی حکومت تھی۔ اس لئے ذمہ داری تو ان پر جائے گی۔ جن دو بیورو کریٹس کو 17,17 سال سزا دی گئی ہے۔ انہوں نے کسی کے احکامات کی بجا آوری میں ایسا کیا۔ قانون میں درج ہے کہ اگر کوئی غیر قانونی حکم دے تو اسے نہ مانو۔ قانون سزا نہیں دے گا۔ سابق صدر سپریم کورٹ بار یٰسین آزاد نے کہا ہے کہ شیخ رشید اور بڑی پارٹی کے سربراہ کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ ملک کے تمام کاموں کو ایک سائیڈ کر کے صرف اور صادق اور امین کی گردان شروع کر دیں اور وزیراعظم کو نااہل کروانے کیلئے ان کے پیچھے پڑ جائیں یہ دونوں کوشش کر رہے ہیں کہ صرف یہ دو ہی صادق اور امین ہیں اور کوئی بھی نہیں رہا۔ یہ سسٹم کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔ اگر ان دونوں کے خلاف بھی کوئی صادق اور امین کی پٹیشن کر دے تو وہ خود کو بھی صادق اور امین ثابت نہیں کر سکیں گے۔ پارلیمنٹ کے اجلاس میں جب سب پارٹیاں بڑی طاقت کے بیان کے خلاف متحد بیٹھی ہیں یہ دونوں وہاں گئے ہی نہیں۔ شاید ان کا خیال تھا کہ نوازشریف کے جانے کے بعد (ن) کا تکیہ گول ہو جائے گا اور انہیں چانس مل جائے گا۔ اب ایسا نہیں ہوا۔ تو انہوں نے سوچا اب شاہد خاقان کے خلاف چل پڑیں۔ یہ ملک اور قوم کے وقت کا ضیاع ہے۔ یہ دونوں ملک کے سسٹم کے ساتھ بہت بڑی زیادتی کر رہے ہیں۔ سسٹم کو چلتے رہنا چاہئے۔ بینظیر قتل کیس میں کوئی بھی مشرف کا ٹرائل نہیں کر سکتا۔ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے! یہ تو اس وقت قبول کیا جا سکتا ہے جب وہ پرویز مشرف کو گرفتار کروا کر عدالت میں پیش کریں۔ اپنے صدارت اور چیف آف آرمی سٹاف کے دور میں ملنے والی بین الاقوامی دولت مشرف نے باہر اپنے اکاﺅنٹ میں جمع کروائی باجوہ صاحب وہ دولت بھی ان سے واپس لے کر قومی خزانے میں جمع کروائیں۔ تب رول آف لاءنظر آئے گا۔ آج تک پاکستانی قانون کے مطابق کسی بھی ڈکٹیٹر کو سزا نہیں دی گئی۔ ڈکٹیٹر نے آئین اور قانون کو اپنی ذاتی خواہش اور مفاد کی خاطر توڑا اور حکومت کر کے بھاگ گیا۔ مشرف کو بینظیر قتل کیس، اکبر بگٹی قتل کیس اور غیر ملکی رقوم کی وصولی کی سزا کے طور پر عدالتوں میں پیش کیا جانا چاہئے اور کسی قسم کی رعایت ان کے ساتھ نہ کی جائے۔ اس نے 2007ءمیں عدلیہ کی بے حرمتی کی وہ آئین سے بالاتر کیوں ہے؟ اور کھلم کھلا کہتا ہے کہ آرمی چیف اور دیگر فوجی افسران نے مجھے نکالا۔ اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔