اسلام آباد سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پر سماعت، جے آئی ٹی رپورٹ پر پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ کے وکلاء نے دلائل مکمل کر لئے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہم پر لازم نہیں کہ جے آئی ٹی کی فائنڈنگ کو تسلیم کر لیں، کسی بھی فریق کے خلاف فائنڈنگ کس طرح تسلیم کریں، بینج نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے ہل میٹل کے حوالے سے جن دستاویزات پر انحصار کیا، وہ تصدیق شدہ نہیں، ضرورت محسوس ہونے پر والیم ٹین بھی کھول دیں گے۔
قبل ازیں شریف خاندان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا میں بتاؤں گا کہ جے آئی ٹی کا کام کیا تھا، جے آئی ٹی رپورٹ نا قابل قبول دستاویزات پر مبنی ہیں، رپورٹ میں قانون کی مکمل خلاف ورزی ہوئی، جے آئی ٹی نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا، رپورٹ کو ثبوت کے طور پر تسلیم نہیں کیا جا سکتا، جے آئی ٹی رپورٹ مسترد کرنے کی درخواست دائر کی ہے، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ خود کو قانونی پہلوؤں تک محدود رکھیں، آپ اپنے دلائل کو ایشوز تک محدود رکھیں۔
جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے اپنے دلائل میں کہا وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں قوم سے غلط بیانی کی، نا اہل قرار دیا جائے۔
عوامی مسلم لیگ کی جانب سے شیخ رشید نے خود دلائل دیتے ہوئے کہا 5 ججز نے قوم کی جو خدمت کی ہے، اللہ اس کا صلہ ضرور دے گا، لوگوں نے کہا جے آئی ٹی کی رپورٹ جنوں کی ہے، ایسی جے آئی ٹی تشکیل دینے پر سلیوٹ کرتا ہوں، میری گزارشات سویٹ، شارٹ اور سمارٹ ہوں گی، شیخ رشید نے کہا ہر کیس کے پیچھے ایک چہرہ ہوتا ہے، جے آئی ٹی رپورٹ میں بے نامیوں کا جمعہ بازار ثابت ہو چکا، شریف فیملی عام قسم کی مخلوق نہیں ہے، ایک بچے کو سعودی عرب، دوسرے کو لندن رکھا گیا، جے آئی ٹی ارکان نے بہت اچھا کام کیا، انصاف کی جیت ہوگی۔
شیخ رشید نے دلائل دیتے ہوئے کہا وزیراعظم کے بچے مستری مجید یا کسی ڈینٹر کے بچے نہیں، جے آئی ٹی کو گالیاں نکالی گئیں، جے آئی ٹی نے گلف سٹیل کا حشر نشر کر دیا، حسن اور مریم نواز اپنے والد کے بے نامی دار ہیں، کسی ملک کا وزیراعظم دوسرا عہدہ نہیں رکھتا، جس عمر میں شناختی کارڈ نہیں بنتا، وزیراعظم کے بچے کروڑوں کے مالک تھے، نوازشریف کے اقامے سے قوم کی ناک کٹ گئی، ہمارا وزیراعظم دوسرے ملک میں نوکری کرتا ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تحقیقات کا معاملہ عدالت اور جے آئی ٹی کے درمیان ہے، رپورٹ پر اپنی معروضات پیش کروں گا، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم کو نا اہل قرار دیا، جے آئی ٹی رپورٹ آنے پر اب فیصلہ عدالت نے کرنا ہے،انہوں نے کہا رپورٹ میں طارق شفیع کے بیان حلفی کو جعلی قرار دیا گیا، گلف سٹیل کے شیئرز فروخت کرنے کے معاہدے کو خود ساختہ قرار دیا گیا، حسین نواز اور طارق شفیع کے گلف سٹیل سے متعلق بیانات میں تضاد ہے، رپورٹ میں قطری خاندان کو 12 ملین درہم دینے کو افسانہ قرار دیا۔
نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا مریم نواز نے تسلیم کیا کہ انھوں نے بیئرر سرٹیفکیٹ نہیں دیکھے، جےآئی ٹی کے مطابق مخصوص فونٹ مارکیٹ میں موجود نہیں تھا، ٹرسٹی کیلئے لازم تھا کہ مریم نواز کے پاس آف شور کمپنی کے سرٹیفکیٹ ہوتے، نواز شریف نے بیان میں قطری سرمایہ کاری کا ذکر نہیں کیا، شریف خاندان 1993 سے 96 کے درمیان لندن فلیٹ میں رہ رہا تھا، شریف فیملی کے اثاثوں کی تقسیم میں لندن فلیٹس کا ذکر نہیں۔
پی ٹی آئی وکیل نے کہا شہباز شریف بھی جے آئی ٹی میں پیش ہوئے، جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف کا بیان ایسا ہے جیسے پولیس افسروں کے سامنے ریکارڈ کیا گیا ہو، شہبا زشریف کے بیان کا دائرہ کار کیا ہوگا، اس کا جائزہ ضابطہ فوجداری کے تحت لیا جاسکتا ہے۔
نعیم بخاری دلائل دہتے ہوئے مزید کہا التوفیق کمپنی کے فیصلے میں الثانی خاندان کا ذکر نہیں،جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا عدالتی فیصلے میں قطری خاندان کا ذکر کیوں ہوتا، نعیم بخاری نے کہا عدالت فیصلہ کرے نا اہل کرنیوالے ججز کے ساتھ اتفاق کرنا ہے یا نہیں ؟، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا نا اہلی کا فیصلہ اقلیت کا تھا، جے آئی ٹی اکثریت نے بنائی۔
پی ٹی آئی وکیل نے کہا جے آئی ٹی کو سعودی عرب سے قانونی معاونت نہیں ملی، رپورٹ میں ذرائع کی معلومات کا بھی ذکر کیا، جسٹس اعجٓز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا ذرائع کی دستاویزات مصدقہ ہیں؟، نعیم بخاری نے کہا وہ دستاویزات تصدیق شدہ نہیں لیکن جے آئی ٹی نے درست قرار دیں۔
نعیم بخاری نے مزید کہا کہ وزیراعظم جدہ سٹیل ملز کی فروخت کی دستاویزات دینے میں نا کام رہے، جدہ فیکٹری 63 ملین کے بجائے 42 ملین ریال میں فروخت ہوئی، جے آئی ٹی نے قرار دیا حسین نواز جدہ مل کے اکلوتے مالک نہیں تھے، عباس شریف اور رابعہ شہباز بھی جدہ فیکٹری کے حصہ دار تھے۔ انہوں نے کہا دوستوں سے قرض لینا بھی ثابت نہیں ہوا، نواز شریف نے حسین نواز کو 7.5 لاکھ ریال سعودی اکاؤنٹ سے بھیجے، جے آئی ٹی کو ہل میٹل آڈٹ رپورٹ بھی نہیں دی گئی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا جے آئی ٹی نے ہل میٹل کے حوالے سے دستاویزات استعمال کیں، جن دستاویزات پر انحصار کیا گیا وہ تصدیق شدہ نہیں ہیں۔
پی ٹی آئی وکیل نے کہا ایف زیڈ ای کمپنی کے دستاویزات قانونی معاونت سے ملے، کمپنی سے نوازشریف کا اقامہ بھی جاری کرایا گیا، جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا نوازشریف کے اقامے کی مدت 2015 تک تھی، نعیم بخاری نے کہا حسن نواز کے مطابق کمپنی 2014 میں ختم کر دی گئی تھی، جےآئی ٹی نے نوازشریف کا کمپنی کے ساتھ ملازمت کا معاہدہ بھی لگایا ، جسٹس اعجاز افضل نے کہا نوازشریف کا اقامہ کہاں ہے؟، نعیم بخاری نے کہا نوازشریف کا اقامہ جے آئی ٹی رپورٹ کا حصہ ہے۔
نعیم بخاری نے مزید کہا کہ نوازشریف ایف زیڈ ای کمپنی کے چیئرمین بورڈ تھے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا ریکارڈ کے مطابق نوازشریف کو تنخواہ ملتی رہی، ریکارڈ سے واضح ہوتا ہے کہ تنخواہ ہر ماہ نہیں ملتی تھی، نعیم بخاری نے کہا نوازشریف کی تنخواہ 10 ہزار درہم تھی، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کیا جےآئی ٹی قانون کے مطابق دستاویزات پاکستان لے کر آئی؟، نعیم بخاری نے کہا کہ اس کا جواب جےآئی ٹی ہی دے سکتی ہے، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ضرورت پڑی تو والیوم 10 کو بھی پبلک کر دیں گے، ہر چیز صاف اور شفاف ہونی چاہیے۔
نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جےآئی ٹی کی فائنڈنگ اور سفارشات عدالت پرلازم نہیں ہیں، نواز خاندان نے جعلی دستاویزات جمع کرائیں، اس پر فوجداری کارروائی بنتی ہے، جسٹس عظمت سعید نے نعیم بخاری سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے نتائج کیا ہوں گے؟، نعیم بخاری نے کہا عدالت نیب کو ریفرنس دائر کرنے کا کہہ سکتی ہے۔
وقفے کے بعد سپریم کورٹ میں سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو جسٹس اعجاز افضل نے پی ٹی آئی وکیل نعیم بخاری سے استفسار کرتے ہوئے کہا قطری خط بوگس ہے؟، اس حوالے سے بنائی گئی کہانی خود ساختہ ہے؟، جس پر نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا میرے خیال میں دونوں ہی بوگس ہیں، حسن نواز کی تمام کمپنیاں خسارے میں تھیں، حسن اور حسین نواز کے بیان میں تضاد ہے، حسن نواز کمپنیوں کے ذرائع آمدن نہیں بتا سکے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے نعیم بخاری سے استفسار کرتے ہوئے کہا مریم نواز سے متعلق دستاویز مصدقہ ہیں؟، نعیم بخاری نے کہا جے آئی ٹی نے دستاویز قانونی معاونت سے حاصل کیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا مریم نواز کے بینی فیشل ثابت ہونے پر نتائج ہوں گے۔ مریم کے زیر کفالت ثابت ہونے پر نواز شریف پر اثر پڑے گا، نعم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا مریم نواز کمپنیوں کی بینی فشل مالک ثابت ہوگئی ہیں، حسین نواز اور مریم کے درمیان ٹرسٹ ڈیڈ بوگس ہے، پی ٹٰی آئی وکیل نعیم بخاری سے استدعا کی عدالت نوازشریف کو طلب کرے، وزیراعظم کو نا اہل قرار دیا جائے، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کیا عدالت جے آئی ٹی دستاویزات پر فیصلہ کر سکتی ہے؟، سوال یہ ہے حاصل دستاویزات کیلئے قانونی تقاضے پورے کیے گئے؟۔