تازہ تر ین
ziazia shahid

”ادھر امریکہ سعودی اتحاد،اُدھر ایران, پاکستان کہاں کھڑا ہے؟“ نامورتجزیہ کار ضیاشاہد کی چینل ۵ کے مقبول پروگرام میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ امریکہ نے خود دس گیارہ ماہ قبل ایران کی پابندیاں ختم کر دیں جس کے جواب میں ایران نے اپنا نیو کلیئر پروگرام اوپن کر دیا اور وعدہ کیا کہ وہ نیو کلیئر پروگرام کو توسیع نہیں دے گا۔جس سے ایران امریکہ نئے دور کا آغاز ہوا لیکن ٹرمپ نے آتے ہی پینترا بدل لیااور انہوں نے پورا ملبہ ایران پر ڈال دیا۔ دوسری طرف سعودی عرب جا کر دہشت گردی کے خلاف بننے والے سب سے بڑے مرکز کا افتتاح کیا اور کہا کہ مسلم دنیا ایران کو تنہا کر دے، یہ ہمارے لئے تشویشناک بات ہے۔ ایران پاکستان کا پڑوسی ملک ہے۔ ہمارے ملک میں 24 فیصد آبادی اہل تشیع ہے۔ ہم ایران کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ایک طرف راحیل شریف مسلم اتحادی فوج کے سربراہ بن بیٹھے ہیں دوسری طرف سعودی عرب نے ایران کے خلاف محاذ بنانے کا اعلان کیا ہے تیسری طرف پاکستان کے وزیراعظم اور سرتاج عزیز کھلم کھلا یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم ایران کے خلاف اتحاد میں شریک نہیں ہوں گے۔ امریکہ کی طرف سے بھارت کو سرٹیفکیٹ دینا اور پاکستان کی دہشت گردی میں دی گئی قربانیوں کا ذکر تک نہ کرنا بہت عجیب ہے۔ وزیراعظم کو واپس آتے ہی پارلیمنٹ میں جانا چاہئے کیونکہ ہمیں ایران کے خلاف محاذ آرائی میں دھکیل دیا گیا ہے۔ ہمیں افغانستان، ایران اور بھارت کے بارڈرز پر مشکلات کا سامنا ہے۔ ہم کشمیر میں مشکلات کا شکار ہیں۔ سوائے چین کے ہمارا کوئی بارڈر محفوظ دکھائی نہیں دیتا۔ ایران کے معاملے کو ہم بمشکل گھسیٹ رہے تھے لیکن پچھلے چار دنوں سے ایران کے بارڈر سے بہت زیادہ مشکلات کی اطلاعات آ رہی ہیں۔ ایک جانب ٹرمپ پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ ایران کو تنہا کر دو دوسری جانب شاہ سلمان کا کہنا ہے کہ تمام ممالک کو ایران سے دور رہنا چاہئے تو پھر ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم کس طرف کھڑے ہوں گے یہ بات سب سے اہم ہے ۔ ہمارے تمام محکموں اور انٹیلی جنس اداروں کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہئے کہ ہم اس وقت کس دور سے گزر رہے ہیں اور ہمیں کن مشکلات کا سامنا ہے۔نوازشریف کے ساتھ سفر کرنے والے صحافیوں نے اپنے اخباروں میں لکھا ہے کہ وہ سعودی عرب کانفرنس میں خطاب کریں گے۔ وہاں جا کر وزیراعظم نوازشریف خاموش بیٹھے رہے اور کسی نے انہیں خطاب کی دعوت تک نہیں دی۔ ایک طرف ہمارے ساتھ یہ سلوک کیا گیا ہے دوسری جانب ایران کے خلاف محاذ بنانے میں ہمیں دھکیلا جا رہا ہے جو کہ ہمارے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ امریکہ میں تعینات ہمارے سفیر اعزاز چودھری پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ ٹرمپ نواز ملاقات کا امکان نہیں ہے اور شاید وزیراعظم نوازشریف وہاں خطاب بھی نہ کریں۔ شاید باجوہ صاحب نے یکطرفہ خبر دے دی ہو گی کہ وزیراعظم وہاں جا کر خطاب کر رہے ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ امریکہ میں مقیم سفارت کار کو معلوم تھا کہ نوازشریف خطاب نہیں کریں گے اور ان افراد نے ہوا اڑا دی کہ وہ خطاب کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ کا احترام کرتے ہیں اور اس کے بارے گفتگو کرتے ہوئے محتاط رہنا ہی ہمارے لئے بہتر ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ حکومت کا اپنا پوائنٹ آف ویو ہے اور اپوزیشن کا اپنا موقف ہے۔ پوری قوم نہیں بلکہ پوری دنیا کی نظریں اس پر لگی ہوئی ہیں عدالت سمیت پوری جے آئی ٹی پر عوام نظریں لگائے بیٹھی ہے۔ اور ان کے ایک ایک عمل پر تبصرے ہو رہے ہیں۔ امید ہے عدالت اور جے آئی ٹی انصاف کے تمام تقاضے پورے کرے گی۔ حکومتی پارٹی اس وقت عمران خان کے خلاف کافی سخت زبان استعمال کررہی ہے لیکن عمران خان بھی الزام لگانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور سخت ترین الفاظ استعمال کرتے ہیںدعا ہے سپریم کورٹ جلد کسی نتیجے پر پہنچے اور پانامہ پر فیصلہ دے تا کہ ملک میں بننے والے دو دھڑوں کا خاتمہ ہو۔ اس قسم کی جنگ میں ”سچائی“ کا خون ہوتا ہے۔ اس حوالے سے صوفی تبسم کا شعر ہے۔
”لڑتے لڑتے ہو گئی گم
ایک کی چونچ ایک کی دم“
حکومت اور اپوزیشن ارکان کا حال بھی کہیں ایسا ہی نہ ہو جائے۔نوازشریف اور ان کے بچوں کا معاملہ عدالت میں ہے اس لئے وہ دفاع میں ہیں اور اپنے خلاف لگنے والے الزامات کا دفاع کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں سوشل میڈیا پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ لیکن یہ وقتی ہوتی ہے۔ اسے مکمل طور پر روکنا ممکن نہیں۔ حکومت اور سیاسی جماعتیں حقائق کو چھپانے کی بجائے انہیں سامنے لائیں۔ حالانکہ پوری دنیا میں اس وقت جھوٹ کا دور دورہ ہے۔ سوشل میڈیا کے حوالے سے حکومتی اور عمران خان پارٹی کے افراد کو پکڑے جانے کی خبر آئی ہے۔ لیکن بعد میں ن لیگ نے اس بات کی تردید کر دی۔ایسے معاملات میں آرمی کو درمیان میں لانے کا کیا مقصد ہے۔ لندن سے تجزیہ کار شمع جونیجو نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ لگتا ہے پی آئی اے کو بیچنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ ہیروئن سمگلنگ کے سلسلے میں بار بار پی آئی اے کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد ہے کہ پی آئی اے کو اپنے کسی قریبی دوست یا رشتہ دار کو آسانی سے بیچ دیا جائے۔ برطانیہ میں قومی ایئر لائن سے ہیروئن برآمد ہونے کے بعد اس کے عملے کے پاسپورٹ دو دنوں تک ضبط کر لئے گئے یہاں جھوٹ پکرنے کی مشینیں ہوتی ہیں۔ اور عملے کے افراد کو اس سے بھی گزارا گیا۔ ان دنوں پورا عملہ بہت بُرے حال میں رہا۔ میری اطلاعات کے مطابق پورے عملے کا یہ ٹیسٹ ہوا۔ اس معاملے میں عملہ ملوث نہیں پایا گیا جس پر اسے بری کر دیا گیا۔ جہاز کی چھت سے ہیروئن پکڑی گئی۔ اور یکے بعد دیگر ایسے واقعات بھی ہوئے۔ اس سے لگتا ہے یہ سارا مسئلہ پاکستان میں چل رہا ہے۔ برطانیہ بھی جانتا ہے کہ عملہ ملوث نہیں تھا۔ برطانیہ میں قانون بہت مختلف ہے۔ہر کوئی الطاف حسین نہیں ہے کہ اسے کھلی چھٹی دے دی جائے اگر ایک فیصد بھی عملہ کا قصور سامنے آتا تو اسے چھوٹ نہیں دی جانی تھی۔ یہ بہت بڑی سازش چل رہی ہے۔ جس کا مقصد پی آئی اے کو بیچنا ہے۔ کبھی ہیروئن برآمد ہو رہی ہے، کبھی پائلٹ سو جاتا ہے، کبھی چینی خاتون کو لے کر کاک پٹ میں بند ہو جاتے ہیں۔ یہ سب سازش نظر آ رہی ہے تا کہ پی آئی اے کوفروخت کرنے میں آسانی ہو۔ ریاض سمٹ میں عسکری اور سول قیادت کی بہت زیادہ بے عزتی ہوئی ہے۔ ہم پہلے بھی بات کر چکے ہیں کہ سعودی عرب اتحادی فوج کے اصل سربراہ شہزادہ سلیمان ہیں جبکہ راحیل شریف کو ان کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعدشامل کیا گیا ہے۔ امریکہ میں مقیم مختلف ڈپلومیٹ سے میری بات ہوئی ہے جس میں امریکی اور اسرائیلی ڈپلومیٹ شامل تھے۔ یہی بات سامنے آئی ہے کہ امریکہ ایران کے خلاف کارروائی کرنا چاہتا ہے تا کہ ایران کو ختم کیا جا سکے۔ اوباما انتظامیہ نے اسرائیل پر سختی کی اور ایران کو ڈیل کے ذریعے موقع دیا گیا۔ ایران میں حسن روحانی کا انتخاب کا مطلب ہے کہ عوام چاہتی ہے کہ ایران سے پابندیاں ہٹیں اور ملک آگے بڑھے۔ ریاض میں ہماری بہت زیادہ بے عزتی ہوئی ہے۔ نہ صرف ہمارے وزیراعظم کو بولنے کا موقع نہیں دیا گیا بلکہ وہاں ہونے والے ٹیررازم گلوبل کے افتتاح میںوزیراعظم کو بلایا ہی نہیں گیا۔ وہ شاید سمجھتے ہیں کہ ابھی بھی ہم دہشت گردوں کو پیدا کر رہے ہیں۔ ٹرمپ نے تقریر میں کہا ہے کہ کچھ ملکوں کو اپنی سرحدوں کو دہشت گردی میں استعمال نہیں ہونے دینا چاہئے۔ اس کے نتیجے میں ہمارے آرمی چیف آج امریکی نمائندے سے ملے ہیں اور یقین دلایا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین کو استعمال نہیں ہونے دے گا تمام تر قربانیاں دے کر بھی ہم بُری طرح فیل ہو گئے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بھارت کی لابنگ بہت زیادہ ہے۔ ہمارا سفارتخانہ کچھ بھی نہیں کر رہا 14 اگست ہو یا 23 مارچ پر یو کے میں موجود کسی بھی ڈپلومیٹ کو اپنے کسی تقریب میں مدعو نہیں کرتے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv