پشاور (خصوصی رپورٹ) چند ہزار روپوں کے عوض محنت کش بچیوں اور بچوں کو ایڈوانس تنخواہ کے نام پر گھروں میں ٹھیکے پر دینے کا انکشاف ہوا ہے۔ اس حوالے سے باقاعدہ معاہدہ طے پاتا ہے جس میں گھروں کی مالکان بچوں کے والدین یا دیگر رشتہ دار موجود ہوتے ہیں اور مدت ملازمت ،کام کی نوعیت اور دیگر شرائط طے کرکے بچوں کو مالکان کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ اس قسم کے معاہدے خفیہ کیے جاتے ہیں جس میں کوئی کاغذی کارروائی عام طور پر نہیں کی جاتی۔ تاہم پنجاب کے بڑے شہروں میں اس قسم کے معاہدوں کی شرح نسبتاً زیادہ ہے۔ تفصیلات کے مطابق ایڈوانس تنخواہ کے نام پر خریدوفروخت کے معاملے سے گزرنے والی بچیاں اور بچے دن رات وہی رہتے اور انہی سے کھاتے پیتے ہیں یہ محنت کش بچیاں چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر رہتی جس وقت جس طرح کی مشقت کا کام انہیں کہا جاتا ہے وہ کرنے پر مجبور ہوتی ہیں اس دوران ان کی صحت، جسمانی طاقت اور اوقات کار کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا وہ خریدی اور بیچی گئیں، مشقت پیشہ بچیاں نہ تو سر اٹھایت ہیں اور نہ ہی شکایت کر سکتی ہیں اور جب ان کی مدت ملازمت ختم ہو جاتی ہے اور پیسے پورے ہو جاتے ہیں تو نئے معاہدے کرلیے جاتے ہیں ان بچیوں پر ان گھروں میں ہر طرح کا غیر انسانی اور غیر اخلاقی رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ بعض کو جسمانی ذہنی تشدد کے ساتھ ساتھ جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے، تاہم بے کسی اور مجبوری کی تصویر گھروں میں کام کرنے والی بچیاں محنت کشوں کے دنوں، انسانی حقوق، مزدوروں کے حقوق، خوایتن اور بچیوں کے حقوق سے نابلد غربت اور محنت کی چکی میں پسنے پر مجبور ہیں۔ خواتین کے حقوق کے حوالے سے کامکرنے والی خواتین نے کہا ہے کہ بچوں اور بچیوں کی مشقت کرنے پر سختی سے پابندی لگائی جائے اور نہ صرف ان کے والدین بلکہ ایسے مالکان کو بھی سزا دی جائے جو ان معصوموں کی غربت اور مجبوریوں کا سودا کرتے ہیں گھروں میں کام کرنے والی کمسن بچیوں پر تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ گھروں میں بچیوں اور ورکشاپوں، دکانوں میں بچوں کی محنت پر حقیقی معنوں میں پابندی لگائی جائے اور ایسے والدین کو بھی سزا دی جائے جو درجنوں کے حساب سے بچے پیدا کرکے پھر انہیں مختلف قسم کے تشدد کا نشانہ بننے کیلئے دوسروں کے حوالے کردیتے ہیں۔