تازہ تر ین
parliment

پاکستان میں نیا سیاسی بحران شروع, 2018ءسے پہلے الیکشن

اسلام آباد، لندن (مانیٹرنگ ڈیسک، بی بی سی) ذرائع کے مطابق ڈان لیکس پر حکومت کی تحقیقاتی رپورٹ مسترد کرنے کے بعد پاک فوج نے معاملے کی خود تحقیقات کرنے پر سنجیدگی سے غور کرنا شروع کردیا۔ پاک فوج ڈان لیکس کی خود تحقیقات کرنے پر سنجیدگی سے غور کررہی ہے کیونکہ پاک فوج کے خیال میں رپورٹ میں پوری حقیقت سامنے نہیں آئی اور فوج معاملے کی مکمل تحقیقات کروانا ضروری سمجھتی ہے جبکہ بی بی سی کے مطابق حکومت کی جانب سے سنیچر کو ڈان لیکس کی انکوائری رپورٹ کے حوالے سے جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن اور اس کے بعد فوج کی جانب سے اس کی تردید کے بارے میں ٹویٹ کے بعد تجزیہ نگاروں نے کہا کہ فوج کا بیان غیر معمولی اور نامناسب تھا۔پاکستان مسلم لیگ کے سابق رکن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے آئی ایس پی آر کی ٹویٹ کے بارے میں کہا کہ ‘یہ بہت ہی غیر معمولی بات ہے اور یہ اس چیز کی نشاندہی کرتی ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان تناو¿ بڑھ جائے گا اور اس کا نتیجہ شاید پاناما پیپرز کی تفتیش میں نکلے گا جہاں وزیر اعظم کا فوج کے نمائندوں سے سامنا ہو سکتا ہے۔ ‘ایاز امیر نے مزید کہا کہ شاید سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے نواز حکومت کو بہت اختلافات تھے لیکن نئے سربراہ جنرل قمر باجوہ تو بالکل غیر سیاسی شخصیت ہیں اور حکومت سے فوج کے تناو¿ کی کوئی کیفیت نہیں تھی۔انھوں نے کہا کہ حکومت کو اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ ڈان لیکس کا معاملہ فوج کے لیے کتنا ضروری ہے لیکن حکومت نے اس معاملے کو اتنا ضروری نہیں سمجھا کہ جلد حل کیا جائے۔ایاز امیر نے کہا کہ ’لگتا یہی ہے کہ حالات مستقبل میں شاید مزید گھمبیر ہو جائیں۔ فوج کی طرف سے دیا جانے والا یہ بیان بہت غیر معمولی ہے اور مجھے نہیں یاد پڑتا کہ پہلے ایسا کوئی بیان دیا ہو۔ فوج نے حکومتیں الٹائیں ہیں لیکن ایسے بیانات نہیں دیے ہیں۔ دفاعی تجزیہ نگارنے بی بی سی بات کرتے ہوئے فوج کے رد عمل کے بارے میں کہا کہ ‘یہ نا مناسب تھا۔ آئی ایس پی آر کو ایسے بات نہیں کرنی چاہیے تھی اور اس سے ایک بار پھر دونوں جانب تعلقات کشیدہ ہو جایئں گے۔‘آئی ایس پی آر کی ٹویٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نئے ہیں اور شاید اتنے تجربہ کار نہیں ہیں لیکن بات یہ ہے کہ اختلاف ضرور ہے دونوں فریقین کے درمیان اور فوج کی شکایت جائز ہے۔ فوج کی تنبیہ کرنا ٹھیک ہے لیکن ڈھکی چھپی بات نہیں کرنی چاہیے۔انھوں نے مزید کہا کہ اگر معاملے کی تہہ میں جائیں تو جب یہ واقعہ ہوا تھا تو فوج نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔کی تنبیہ کرنی تھی تو کھل کر کرتے او ر وہ کوئی ایسی بات نہیں ہوتی لیکن یہ چھپ کر کام کرنا اچھی بات نہیں تھی اور کیونکہ ہمارے ملک میں رواج نہیں ہے کہ فوج کو اس طرح بولا جائے جس پر وہ برا مان گئے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت جو پاناما پیپرز کے مقدمے پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے بعد پہلے ہی شدید دباو¿ اور سیاسی بحران کا شکار نظر آتی ہے اس کے لیے سنیچر کو وزیر اعظم کی طرف سے ڈان لیکس کی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن سے سیاسی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔وزیر اعظم کےنوٹیفیکیشن، فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کا ٹویٹر پر جاری ہونے والا بیان اور پھر وزیر داخلہ کی وضاحتی پریس کانفرنس نے نہ صرف فوج اور حکومت کے درمیان ڈان لیکس کے معاملے پر شدید اختلافات کو طشت از بام کر دیا ہے بلکہ اس تاثر کو بھی تقویت بخشی کہ ڈان لیکس کے پیچھے اصل عناصر وہ نہیں جنہیں حکومت بلی چڑھا رہی ہے۔اس ساری صورت حال میں یہ بات اور واضح نظر آتی ہے کہ وزیر اعظم ہاو¿س میں ملکی سکیورٹی سے متعلق انتہائی اہم اجلاس کی کارروائی کی خبر ڈان اخبار کے رپورٹ سرل المائڈہ کو لیک کرنے والے عناصر اتنے اہم ہیں جن کو بچانے کے لیے حکومت کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔موجودہ صورت حال جس میں حکومت پاناما مقدمے کے فیصلے کے بعد شدید دباو¿ میں ہے اور وزیر اعظم سے مستفعی ہونے کے مطالبوں کا شور شدت اختیار کرتا جا رہا ہے حکومت ڈان لیکس کی تحقیقاتی رپورٹ پر پوری طرح عملدرآمد کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔بعض مبصرین کا خیال ہے کہ حکومت اپنے پانچ سالہ دور کے آخری سال میں کوئی ایسا کام کرنا چاہتی ہے جسے وہ آئندہ انتخابات میں عوام کے سامنے اپنے آپ کو ایک سیاسی شہید اور مظلوم بن کر پیش کر سکے۔ اس کے علاوہ تجزیہ نگاروں نے پیشین گوئی کی ہے کہ ڈان لیکس کی رپورٹ آنے کے بعد حکومت، پاک فوج میں کشیدگی بڑھ گئی ہے اور 2018ءسے پہلے الیکشن ہوسکتے ہیں کیونکہ محاذ آرائی کا بگل بج چکا ہے۔ اس حوالے سے حکومتی کیمپ میں یہ مشورے کیے جارہے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں میں سے کچھ کو ساتھ ملا کر آنے والے سیاسی طوفان کا مقابلہ کیا جائے تاہم حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ کیا حکومت سرنڈر کرے یا بات بڑھے گی؟ یہ آنے والا وقت بتائے گا۔



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv