لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چیف ایڈیٹر خبریں گروپ، سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیاشاہد نے چینل فائیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کا ڈان لیکس پر حکومتی نوٹیفکیشن کو مسترد کرنا بڑی سنجیدہ بات ہے۔ اس معاملے میں سب سے بڑی سٹیک ہولڈر فوج تھی اور چند روز پہلے وزیراعظم نواز شریف نے خود کہا تھا کہ ڈان لیکس کے معاملے میں تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے کیونکہ اس سے ایک دن پہلے ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا تھا کہ کسی قسم کی کوئی مفاہمت یا مشاورت نہیں کی گئی معلوم نہیں کہ کمیشن کیا رپورٹ دے رہا ہے۔ پھر یکطرفہ طور پر کمیشن کی ایسی رپورٹ سامنے آئی جس کو فوج نے مسترد کردیا۔ جس کے بعد بڑی سنگین صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ ملک، حکومت اور ریاست کے حق میں یہ بات نہیں ہے۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ ازخود اس معاملے کو دیکھیں، آرمی چیف اور ذمہ داران سے مشاورت کر کے اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اس قسم کی رپورٹ جو بظاہر بے جان نظر آئے، فوج مطمئن نہ ہو، اس سے معاملہ حل ہونے کے بجائے مزید الجھے گا۔ اسحاق ڈار نے جو کہا ہے درست کہا ہوگا لیکن میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی، میرے خیال میں جیسی بھی رپورٹ ہے اس کا متن اب تک سامنے آجانا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ کا یہ کہنا کہ رپورٹ وزیراعظم ہاﺅس نے نہیں وزارت داخلہ نے جاری کرنا تھی، پھر ان کا اس بات پر افسوس کا اظہارکرنا کہ وزیراعظم ہاﺅس سے جاری بیان پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کس طرح اتنے سخت ردعمل کا اظہار کر دیا۔ رپورٹ کس کو جاری کرنا تھی اور کس کو نہیں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہیے بلکہ اس کا متن دیکھنا چاہیے، پھر رپورٹ کے ابھی دوسرے حصے کے آنے کا کہنا مسئلے کو مزید الجھانا ہے۔ حکومت کو کس نے کہا تھا کہ آدھی رپورٹ جاری کر دو، فوج اس کو مسترد کر دے۔ اب خود کو بچانے کےلئے یہ کہنا کہ دوسرا حصہ ابھی آنا ہے، اس قسم کے طور طریقے نہیں آزمانا چاہئیں۔ جمہوری حکومت کو حساس و نازک صورتحال میں پاک فوج کو مکمل طور پر اعتماد میں لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ طارق فاطمی کے بارے میں ایک دن پہلے خود اسحاق ڈار نے کہا کہ انہیں صرف تبدیل کیا کوئی سزا نہیں دی گئی پھر بیان آیا کہ ہٹا دیا گیا، راﺅ تحسین کے بارے میں پہلے کہا گیا کہ ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جائے لیکن اب لگتا ہے کہ حکومت نے دباﺅ میں آ کر دونوں کو فارغ کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ اس قسم کی کوششوں سے معاملہ مزید الجھے گا۔ فوج سے مشاورت کر لینی چاہیے۔ یہ معاملہ کورکمانڈر کانفرنس میں زیربحث آیا تھا اور طے پایا تھا کہ حکومت سے کہا جائے کہ فوری سراغ لگا کر ہمیں مطلع کرے اور ذمہ داروں کو سزائیں دی جائیں۔ اب آرمی چیف تبدیل ہو چکے ہیں لیکن میں نہیں سمجھتا کہ فوج کی اجتماعی سوچ میں کچھ زیادہ بڑا فرق پڑا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ میں پاکستان سے دلچسپی و محبت رکھتا ہوں۔ حکومت و فوج کے درمیان کسی قسم کی غلط فہمی، دوری یا مزاحمتی رویے کے بجائے سب کو ملکر چلنا چاہیے اور سب سے اہم ادارے کو بھی حکومت اعتماد میں لیکر چلے۔ وزیر داخلہ کے بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں تضاد موجود ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اپوزیشن اس تضاد کو مزید ہوا دے، وزیراعظم و وزیرداخلہ کے درمیان جو غلط فہمی پیدا ہوتی نظر آتی ہے اسے مزید بڑھانے کی کوشش کرے، میں اس کے حق میں نہیں ہوں۔ ملکی مفاد میں سمجھتا ہوں کہ وزیراعظم چیف ایگزیکٹو جبکہ وزیرداخلہ انہی کی ٹیم کا حصہ ہیں، داخلی طور پر ان دونوں اداروں میں بھی مکمل مفاہمت ہونی چاہیے کہ ملکر آگے کیسے چلنا ہے؟ اگر اسحاق ڈار نے یہ کہہ دیا کہ رپورٹ کا دوسرا حصہ ابھی آنا ہے تو یہ بات پہلے کیوں نہیں بتائی، وزیرداخلہ نے اپنی پریس کانفرنس میں کیوں نہیں بتایا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی تضاد ضرور ہے۔ اس تضاد کو اور فوج کے ساتھ پیدا ہونے والے تضاد کو ختم کرنا چاہیے۔ ایسے فیصلے کریں جس سے سب اداروں کو ملکر آگے بڑھنے کا موقع ملے۔ وزیراعظم ہاﺅس اور کسی وزارت کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہونا چاہیے۔لوگ سوال کرتے ہیں کہ فوج کے ادارے آئی ا یس آئی اور ایم آئی کے نمائندے کمیٹی میں رہے یا اختلافی نوٹے لکھے۔ انہوں نے کہا حیرت ہے کہ کمیشن کے سربراہ ریٹائرڈ جج عامر رضا نے رپورٹ میں کہا کہ اے پی این ایس ضابطہ اخلاق بنائے۔ کیا سابق جج اتنے لاعلم ہیں کہ انہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ سات سال قبل اخباری تنظیموں نے پرویز مشرف کی وزارت اطلاعات سے مل کر ضابطہ اخلاق فائنل کر دیا تھا۔ یہ ضابطہ اخلاق اس وقت بھی نافذ العمل ہے اور حکومتی ادارہ پریس کونسل آف پاکستان اس کی روشنی میں لوگوں کی شکایات پر اخباروں کو نوٹس کر رہا ہے۔ میں خود اس کمیٹی کا رکن تھا پرویز مشرف دور میں بنی تھی 1½ سال میں سات مختلف اجلاسوں میں فائنل ہوا تھا۔