تازہ تر ین

عمران خان کے دوست ممالک کے دورے طے کرینگے پاکستان کس رخ جائیگا : ضیا شاہد ، 3 وزیروں کے کرپٹ نکلنے کی خبر درست نہیں ، وزیراعظم نے ایسا کچھ نہیں کی : نعیم الحق کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ عمران خان کوشش کر رہے ہیں آئی ایم ایف کی کڑی شرائط سے نکل جائیں۔ سعودی عرب ماضی میں بھی اوون رئیل دیتا رہا ہے۔ عمران خان پہلے سعودی عرب، چین، پھر ملائیشیا کا دورہ کر رہے ہیں۔ وہاں کے مہاتیر محمد جو عالم اسلام کے بہت بڑے لیڈر ہیں اور انہوں نے بڑے بڑے مسائل پر اپنے انداز میں بات کی ہے۔ مہاتیر محمد نے تو چین کے بارے میں کہا تھا کہ چائنا کا سی پیک یا اس قسم کے دوسرے منصوبوں پر دوسرے ممالک کو دعوت دینا بہت اچھی بات ہے لیکن انہوں نے اس بات پر اعتراض کیا تھا کہ چائنا کے سی پیک کے منصوبوں میں چینی لیبر استعمال کی جاتی ہے لوکل لیبر کو استعمال نہیں کیا جاتا جس سے مقامی طور پر لوگوں کو فائدہ نہیں ملتا۔ عمران خان صاحب کی سعودی عرب کے حکمرانوں سے ملاقات اس کے بعد مہاتیر سے ملاقات اور ملائیشیا اور پھر آخر میں چین جانا۔ چائنا جو ایک بہت بڑی اکنامک پاور ہے اس وقت دنیا کی سپر پاور سے تبادلہ خیال کرنا ہو سکتا ہے کہ ہمیں کسی نہ کسی طریقے سے یا تو آئی ایم ایف سے نجات مل جائے یا کم از کم اتنی کڑی شرائط تسلیم نہ کرنی پڑیں اور ہم یہ جو موجودہ کرائسس ہے اس میں سے نکلنے میں کامیاب ہو سکیں۔ ان دونوں شکلوں میں دوست ممالک کے دورے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ امداد کی شکل آئے۔ ملاقاتوں سے پہلے اندازہ لگانا ہے یہ چند روز کی بات ہے ان چند دنوں میں نکھر کر سامنے آ جائے گی۔ چند روز اہم ہیں کہ کسی دوست سے گرانٹ، مدد یا سہولت مل سکتی ہے تو وہ کتنے فیصد مسائل حل کر سکتی ہے۔
ملائیشیا کے صدر تیسری مرتبہ آئے ہیں۔ ان کا شمار عالم اسلام کے بہت بڑے مدبر شخص کے طور پر ہوتا ہے انہوں نے سیاست چھوڑ دی تھی یہ اپنے گھر چلے گئے تھے۔ ملائیشیا کے حالات دوبارہ اتنے خراب ہوئے کہ گھر جا کر درخواست کر کے ان کی کافی عمر ہو چکی ہے ان کو واپس لے کر آئے ہیں۔ سمجھا جا رہا ہے کہ ان کے بغیر ان کا گزارا نہیں۔ مہاتیر محمد عالم اسلام کے عظیم فلاسفر ہیں۔ بہت ایک عظیم مدبر اکانومسٹ اور بطور انسان بھی وہ پاکستان کے دوست ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ پاکسشتان کے لئے موجودہ حالات جن مسائل میں پاکستان گھرا ہوا ہے مہاتیر ان کے لئے بہتر مشورہ دے سکتے ہیں۔ دوست ممالک کے دورے میں کیا ہو گا۔ بہرحال آنے والے چند روز اہم ہیں۔ ان چند روز میں راستہ طے ہو جائے گا کہ پاکستان کس طرف جا رہا ہے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ پاکستان میں چند صنعتیں ایسی ہیں جن کا انحصار ہی بجلی پر ہے۔ سٹیل انڈسٹری میں سٹیل کو پگھلانا جو ہے اتنی بجلی صرف کرتا ہے کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں اکثر سٹیل ملیں جو ہیں الزام تھا صحیح تھا یا غلط تھا کہ یہ اسی لئے عام طور پر ہی سٹیل مل لگاتے تھے وہ کسی طرح سے بجلی بچا لیتے تھے یا پورا بل ادا نہیں کرتے تھے یا اس کے لئے کوئی نہ کوئی چوری کے ذریعے بنا لیتے تھے کیونکہ سٹیل کی انڈسٹری کا تمام تر انحصار بجلی پر ہے۔ نیپرا کہہ رہا ہے کہ اس ریٹ پر 3.50 روپے اضافہ کرو ہم بجلی سپلائی نہیں کر سکتے۔ عمران خان صاحب کہہ رہے ہیں کہ کیوں نہ بجلی چوری، بجلی چور کو پکڑو۔ کہا جاتا ہے کہ 30 پرسنٹ بجلی چوری ہو رہی ہے۔ اگر ہم چوری کو روک لیں اور کراچی میں اور بہت سے علاقے ہیں سیدھے سیدھے کراچی میں مارکیٹ میں فروخت ہوتے ہیں۔ اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ دو مرتبہ اپنے پروگرام میں وہ اشتہار بھید کھائے ہیں کہ واپڈا نے نوازشریف کی حکومت میں یوسف رضا گیلانی کی حکومت میں یہ اشتہار چھاپے تھے کہ جو لوگ ڈائریکٹ کنڈے لگا رہے ہیں ان کو چاہئے کہ وہ کنڈے ریگولرائز کروا لیں۔ یعنی بجلی چوری پھر بھی کرتے رہیں۔ تھوڑے سے پیسے دے کر جائز قرار دلوا لیں۔ لیکن وہ بھی کوئی کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ چنانچہ کسی بھی علاقے، کسی شہر میں ایک صوبے میں چوری جو ہے کھلم کھلا ہو رہی ہوتی ہے سب کو پتہ ہے ہوتی ہے۔ یہ تضاد ختم ہونا چاہئے۔ یہ کام صرف بدمعاش لوگ کرتے ہیں یہ اثرورسوخ والے لوگ کرتے ہیں۔ یہ حکمران طبقات کرتے ہیں یہ کام وہ لوگ کرتے ہیں جو محکمے سے ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ غریب لوگ بل دیتے ہیں۔ بدمعاش اور بااثر لوگ بجلی چوری کرتے ہیں۔
ضیا شاہد نے نعیم الحق سے سوال کیا کہ مجھے پہلی بار خوشی ہوئی کہ عمران خان صاحب نے اس بات کو لیا ہے کہ کون سے علاقوں میں لوگ کنڈے لگاتے ہیں۔ یہ اتنا بڑا قدم اٹھانے کا اعلان کیا ہے کہ اگر وہ اس بے ایمانی اور بدمعاشی کو دور کر دیں تو بجلی کا ریٹ زیادہ نہیں کرنا پڑے گا۔ 35 فیصد، 40 فیصد لوگ بجلی کا بل دیتے ہی نہیں۔ اس طرح غریب کی جیب سے پیسہ نکالے جائیں اور بااثر طبقات مفت بجلی استعمال کریں۔
نعیم الحق نے کہا کہ جب سے پاکستان بنا ہے حکمران طبقے نے ایسا معاشرہ تشکیل دیا جس میں اپنے مفاد کا تحفظ موجود تھا۔ غریب عوام کے حقوق یا مفاد کی حفاظت نہیں کی گئی نتیجہ یہ ہے اب پاکستان میں دو طبقات ہیں ایک امیر اور غریب طبقہ ہے۔ عمران خان نے 22 سال کوشش کی کہ ملک کے ہر شعبے میں انصاف قائم کیا جائے اور یہ جو دولتکی غیر منصفانہ دولت کی تقسیم ہے اس کو ختم کیا جائے اور غریبوں کو وہ مراعات حقوق دیئے جائیں جن سے وہ آج تک محروم تھے۔ اس لئے ہم غربت مکاﺅ مہم بھی شروع کر رہے ہیں جن کا اعلان انشاءاللہ عمران خان اگلے ہفتے کریں گے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں اور اللہ سے دعا ہے کہ عمران خان نے یہ جو بیڑا اٹھایا ہے اس میں انہیں کامیابی ہو تا کہ جو بل نہیں دیتا وہ بل دینے پر مجبور ہو جائے اور جو بل دیتا ہے اس کو سہولت مل جائے غریب لوگ تو بجلی چوری کر ہی نہیں سکتے۔ آپ کے دائیں بائیں آپ کے وہی لوگ بیٹھے ہیں یہ طبقات ہی دائیں بائیں حکومتوں میں ہوتے ہیں اور کوئی انہیں کچھ نہیں کہتا کیونکہ ان کے تعلقات بہت ہوتے ہیں اور کوئی اللہ کا بندہ ان کو پکڑنے کو تیار نہیں ہوتے۔ اب تو بڑے لوگوں پر ہاتھ ڈالنا ایک خواب و خیال لگتا ہے۔ کہ آپ ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے۔
نعیم الحق نے کہا کہ پچھلے دنوں چیئرمین نیب وزیراعظم سے ملنے آئے تھے تو وزیراعظم عمران خان نے ان کو یہ بات کہی تھی کہ چیئرمین صاحب آپ نے کسی کرپٹ افسر کو نہیں چھوڑنا چاہے اس کا تعلق میری حکومت، میری جماعت سے ہو۔ یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ حکومت میں کرپٹ عناصر موجود رہیں اور عمران خان کے دل میں جن لوگوں نے اس قوم کو لوٹا ہے پچھلے دس سال میں یا بیس سال میں ان کو قانون کے سامنے پیش کرنا چاہئے ان کو اس ملک کو جواب دینا چاہئے، عوام کو جواب دینا چاہئے۔ آپ آڈیٹر جنرل پاکستان کی جو پنجاب اور سندھ کے بارے میں جو رپورٹ ہے سندھ کے بارے میں آڈیٹر جنرل کہتا ہے کہ پچھلے سال 6 سو ارب کے بجٹ میں سے 300 ارب روپے سندھ کی حکومت کھا گئی چوری کر لی غبن کر لیا اور پنجاب کی حکومت کے بارے میں آڈیٹر جنرل پاکستان کہ انہوں نے اربوں روپے 35 ارب روپے یا کچھ زیادہ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہمیں حساب بھی نہیں دیا۔ جن لوگوں نے ملک کی دولت کو لوٹا ہے ہم کیفر کردار تک پہنچا کر رہیں گے۔ قومی دولت صحیح جگہ پر خرچ کریں گے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ آج ایک قومی اخبار نے ایک خبر چھاپ کر کے 3 وزیر جو ہیں کرپٹ نکلے اور عمران خان صاحب نے انکوائری کا بھی آرڈر دے دیا۔ ایک گھنٹے کے بعد اس خبر کی تردید بھی آ گئی۔ لیکن کل 10 گیارہ بجے تک اتنا شور مچا اس پر بتائیں گے کہ کہاں سے خبر شروع ہوئی کہاں سے آ گئی۔ کیسے اس کی تردید ہوئیں۔
نعیم الحق نے کہا کہ عمران خان نے کابینہ اجلاس میں کہا کہ مجھے اطلاعات مل رہی ہیں کہ ہماری وزارتوں میں کچھ کرپٹ عناصر اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہیں، انہوں نے وارننگ دی اگر میری حکومت میں کوئی کرپشن میں پایا گیا تو سختی سے نمٹوں گا اور سزا بھی ملے گی۔ ترجمان وزیراعظم ہاﺅس کا کہنا تھا کہ 3 وزراءکے کرپٹ نکلنے والی خبر میں کوئی حقیقت نہیں۔ وزیراعظم نے ایسا کچھ نہیں کہا۔
ضیا شاہد نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، پانی کے مسئلے پر سمپوزیم میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن اور عمر عطا بندیال نے بھی بڑی محنت کی۔ سب کی تقریریں سن کر بہت خوشی ہوئی، انہوں نے بڑے جوش و جذبے کے ساتھ پانی کے مسئلے پر توجہ دلائی۔ میں نے 4 سال پہلے اپنی کتاب ”راوی و ستلج کا 70 فیصد پانی بند کیوں“میں لکھا تھا کہ بھارت نے ان دونوں دریاﺅں کا پانی بند کر رکھا ہے۔ 1970ءمیں ہونے والے انٹرنیشنل واٹر کنونشن میں یہ طے ہوا تھا کہ کوئی ملک زیریں علاقوں کا پانی بند نہیں کر سکتا۔ صدر مملکت نے بجا فرمایا کہ سندط طاس معاہدے پر نظرثانی کی ضرورت ہے کیونکہ پاک بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم منصفانہ نہیں ہے۔ بڑی خوشی ہوئی آج صدر پاکستان یہ فرما رہے ہیں۔ چیف جسٹس کو میں نے بہت دردمند پاکستانی پایا انہوں نے کہا کہ اگر آئندہ نسلوں کو بچانا چاہتے ہیں تو پانی کے مسئلے پر توجہ دینی ہو گی۔ ڈیم بنانے ہوںگے۔ ضیا شاہد نے کہا حیرت کی بات ہے بھارت نے ڈھائی ہزار سے زائد ڈیم بنا لئے اور پاکستان میں منگلا و تربیلا کے بعد تیسرا ڈیم نہیں بنا۔ بھارت دریائے سندھ، چناب، جہلم، ستلج و راوی پر ڈیم بنا رہا ہے۔ دریائے بیاس کو اس سے پاکستان میں داخل ہی نہیں ہونے دیا۔ راجپوتانہ میں نہریں بنا دیں اور ہمارے چولستان میں پینے کے پانی کا ایک قطرہ نہیں ہے۔ جانور پانی نہ ملنے کی وجہ سے ریت پر مرے پڑے ہیں، انسان وہاں سے پانی کی تلاش میں نقل مکانی کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے ستلج و راوی کے پانی کو مکمل طور پر بند کر رکھا ہے۔ اخبار میں تصویریں شائع کیں، اپنے چینل پر بھی دکھایا کہ بھارت نے کسی طرح شٹر ڈال کر دونوں دریاﺅں کا پانی بند کیا ہوا ہے۔ اس معاہدے پر نظر ثانی کرنا پڑے گی، تاریخ میں سب سے بڑی جنگیں پانی پر ہوئی ہیں۔ دنیا بھر میں کہیں دریاﺅں کا پانی روکا نہیں جاتا۔ 1970ءکا انٹرنیشنل واٹر کنونشن یو این او کے تحت ہوا، وہ دنیا بھر میں نافذ العمل ہے۔ بھارت نے ستلج و راوی کا پانی عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بند کر رکھا ہے۔ نواز، مریم و صفدر کی سزا معطلی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اب سپریم کورٹ نے فیصلہ کرنا ہے، سزا معطلی بحال بھی رہ سکتی ہے اور دوبارہ گرفتاری کا حکم بھی آ سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب کے گورنر کو کیا تکلیف ہے، ملتان کی یونیورسٹیوں سے کیوں ڈرتے ہیں۔ پہلے بھی بہاﺅالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے خودکشی کی کوشش کی، بچ گئے تو کہا میں نے 40 گولیاں غلطی سے کھا لی تھیں، چانسلر کو ایسا ذہنی مریض نظر نہیں آتا۔
نمائندہ ملتان رانا طارق نے بتایا کہ رفیق خالد یونیورسٹی میں پروجیکٹ ڈائریکٹر تعینات ہیں۔ یونیورسٹی سے رہائش گاہ جا رہے تھے۔ راستے میں پولیس نے ناکے پر روکا تو مشکوک حالت میں پایا، تلاشی لی تو شراب کی بوتلیں نکل آئیں۔ انہوں نے پولیس کو اپنا تعارف یونیورسٹی کے رجسٹرار کے طور پر کرایا، پھر دھمکیوں پر اتر آئے اور کہنے لگے کہ میرے گھر پر ڈی آئی جی جیل خانہ جات شوکت فیروز صاحب بیٹھے ہیں اور نون لیگ کے سٹی صدر رانا شاہد الحسن جو سنیٹر رانا محمود الحسن کے بھائی ہیں وہ بھی موجود ہیں میں آپ کی ایسی کی تیسی کر دوں گا لیکن پولیس نے ان کو نہیں چھوڑا۔ تھوڑی دیر بعد رانا شاہد الحسن موقع پر آ گئے۔ انہوں نے پولیس پر دباﺅ ڈالا کہ ان کو چھوڑ دیں، پھر ڈی آئی جی شوکت فیروز نے ایس پی پٹرولنگ ہما نصیب کوو فون کیا اور چھوڑنے کا کہا لیکن پولیس نے نہیں چھوڑا، مسلسل سیاسی اور بیوروکریسی کی مداخلت ہوتی رہی۔ ملزم کا کہنا ہے کہ ان کی رہائش گاہ پر روزانہ کے معمول کے مطابق پارٹیاں منعقد ہوتی ہیں اس لئے شراب کی بوتلیں لے کر جا رہا تھا۔ جب زیادہ دباﺅ آیا تو پولیس نے ان کے میڈیکل کے لئے سیمپل تو لئے لیکن رہا کر دیا اور گزشتہ روز ملزم نے عدالت سے اپنی ضمانت کرا لی۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv