لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ جج صاحب قابل انسان ہیں۔ وہ سمجھداری سے فیصلہ کرتے ہیں۔جو بھی فیصلہ کیا قبول کرنا چاہئے۔ انہوں نے عمران خان کو اہل اور جہانگیر ترین کو نااہل قرار دیا۔لوگ کہتے ہیںپاکستان کے موجودہ حالات میں اگر وہ دونوں کو نااہل قرار دے دیتے تو اس وقت تک سڑکوں پر ہنگامے شروع ہو جاتے۔ آج ایک تاریخی دن ہے۔ ہم نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک کو تو جانا پڑے گا۔ تحریک انصاف کے فواد چودھری نے کہا کہ توازن برقرار رکھنے کے لئے انہیں نااہل قرار دیا گیا ہے۔ تاہم فیصلہ درست نہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور بڑا فیصلہ آ گیا کہ شہباز شریف کو کلین چٹ مل گئی ہے ہم تو پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ اگر شہباز شریف بھی چلے گئے تو پارٹی کس کے پاس ہو گی بظاہر تو عدالت کا فیصلہ سیاسی فیصلہ نظر آتا ہے۔ لیکن ابھی ماڈل ٹاﺅن کیس کھولنا باقی ہے۔ اسحاق ڈار کے بارے اطلاع آئی ہے کہ وہ لندن میں چہل قدمی کر رہے تھے۔ چلو ہم مان لیتے ہیں۔ وہ بیمار ہوں گے۔ عمران خان کو آج کے فیصلے سے زیادہ خوش نہیں ہونا چاہئے کیونکہ سپریم کورٹ نے آج کے فیصلے کے دوسرے حصے میں گیند اٹھا کر الیکشن کمیشن کی گود میں ڈال دی ہے۔ اور کہا ہے کہ وہ 5 سال تک تحقیقات کر سکتے ہیں۔ لہٰذا عمران خان کو ”آدھی“ کلین چٹ ملی ہے۔ فیصلہ کرنے والے کسی کو کلین چٹ نہیں دیتے۔ شہباز شریف کو یہاں سے کلین چٹ مل گئی ہے۔ وہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے سلسلے میں جائیں گے۔ پی پی پی والوں کی رسی دراز ہوئی ہے۔ جہانگیر ترین اگرچہ یہاں سے تو آﺅٹ ہو گئے ہیں۔ لیکن اگر تحریک انصاف کامیاب ہوتی ہے تو ان کو حصہ ضرور ملے گا۔ سنیٹرز یا پارلیمنٹرین نہیں بن سکتے۔ لیکن گورنر تو بن سکتے ہیں۔ نادیدہ قوتیں جو پلڑا لئے بیٹھے ہیں وہ ترازو ایک طرف جھکنے نہیں دیتے۔ آج کل حکومت اور میاں صاحبان کے گھر گھل مل گئے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی اصل میں پی آر او بنے ہوئے ہیں۔ ایک خبر یہ عام ہے کہ لندن میٹنگ میں تمام ساتھیوں نے نوازشریف کو پارٹی صدارت چھوڑنے کا مشورہ دیا ہے لیکن انہوں نے اسے مسترد کر دیا۔ (ن) لیگ تو ہے ہی نواز لیگ۔ ان کے بغیر کیسے قائم رہ سکتی ہے۔ میاں شہباز شریف کو ٹیکنیکل بنیادوں پر کلین چٹ ملی ہے۔ عدالت پہلے ہی نیب پر برہم تھی اور کہہ رہی تھی کہ اتنا عرصہ کیوں سوئے رہے۔ اس وجہ سے کیس کو زائد المیعاد قرار دے کر خارج کر دیا گیا ہے۔ یہ شہباز شریف کی پہلی بڑی کامیابی ہے جبکہ شیخ رشید کی پہلی سب سے بڑی ہار ہے۔ ماڈل ٹاﺅن شہباز شریف کیلئے ایک تھریٹ ہے۔ ہاں اگر وہ کسی طرح اس سے نکل پائے تو بالکل کلین ہو جائیں گے۔ پرویز رشید سے استعفیٰ لیا گیا تب بھی وہ ایک وزیر کی طرح ہی تمام سہولیات لے رہے تھے۔ اسی طرح رانا ثناءاللہ بھی استعفیٰ دے دیں اور ماڈل ٹاﺅن دفتر میں ایک کمرہ لے لیں اور کام کرتے رہیں۔ اسی طرح اقتدار، استعفیٰ کے بعد بھی ان ہی کے پاس رہے گا۔ رانا صاحب 187/H میں چیف ایڈوائزر ن کر بیٹھ جائیں۔ ان کے پاس سکیورٹی بھی رہے گی۔ اَنا کا مسئلہ نہ بنائیں۔میں نے اندازے کی بنیاد پر پیشنگوئی کی تھی کہ عدالت عمران خان کو چھوڑ دے گی اور جہانگیر ترین نااہل ہوں گے۔ حالات اور واقعات کے انسان آسانی سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔ تحریک انصاف کے نعیم الحق نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن بہت عرصے سے ہمارے اثاثے کی چھان بین کر رہا ہے۔ 2009ءسے 2017ءتک تمام اثاثوں کی تفاصیل جو 800 صفحوں پر مشتمل ہے انہیں دے دی ہے۔ ان کے دیگر سوالوں کے جواب بھی دے دیئے ہیں۔ قانون کے تحت باہر سے آیا ہوا غیر قانونی پیسہ عدالت ضبط کر لیتی ہے۔ اس کے علاوہ فارن فنڈنگ کی کوئی اور سزا موجود ہی نہیں۔ عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید نے کہا ہے کہ حدیبیہ کیس پر ان کی ملی بھگت ہے۔ یہ ایک قسم کا ”کو“ ہے آپس میں میٹنگ ہو رہی ہے۔ انہوں نے خاور شاہ کو نوٹیفکیشن ہونے نہیں دی۔ میں اس کے خلاف ریویو میں جاﺅں گا۔