تازہ تر ین

مریم کے چیلنجز

تاریخ دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ دنیامیں جب سے بادشاہتیں قائم ہوئی ہیں عورت کی حکمرانی بھی ساتھ ساتھ ہی چلی ہے۔ مصرکی قدیم ترین تاریخ میں بھی خواتین کے بادشاہ بننے کے شواہد ملتے ہیں۔اورپھر مصرکی آخری فرعون قلوپطرہ کو دیکھیں تو اس وقت فرعونوں کی سلطنت زوال پذیرتھی لیکن قلوپطرہ نے اپنی سلطنت کو مضبوط کرنے کے لیے وہ کام کرنے کا فیصلہ کیا جو اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔قلوپطرہ نے اپنی دشمن سلطنت روم کے بادشاہ جولیس سیزراور مارک انٹونی کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرلیے تھے۔اسی طرح ’’ایمپرس تھیوڈورا ‘‘بازنطینی سلطنت کی طاقتورترین خاتون بادشاہ سمجھی جاتی ہیں۔پھر روس کی ملکہ کیتھرائن دی گریٹ کو دیکھ لیں جس نے روس کوماڈرنائزکردیا۔انہوں نے ملک میں تعلیمی اصلاحات کی بنیاد رکھی۔ان خواتین کے علاوہ بھی بہت سی خواتین حکمرانوں کا نام تاریخ میں اچھے الفاظ میں ملتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ محترمہ بے نظیربھٹوانیس سو اٹھاسی میں ملک کی وزیراعظم بنی تو ملک میں ہاہاکار مچ گئی ۔ کہاں کہاں سے فتوے آنا شروع ہوگئے کہ عورت کی حکمرانی جائز نہیں ہے۔ اس سے ملک میں تباہی آئے گی ۔اس وقت ظفرہلالی یمن میں پاکستان کے سفیر تھے۔ظفر ہلالی یمن کے مفتی اعظم کا ایک فتویٰ لے کر پاکستان آگئے۔یمن کے مفتی اعظم کا فتویٰ تھا کہ عورت کی حکمرانی نہ اسلام میں حرام ہے اور نہ ہی کسی جگہ اس کی ممانعت ہے۔اس فتوے کے بعد آہستہ آہستہ یہ مسئلہ ٹھنڈاہوا اور ہم نے بے نظیر بھٹو کو ایک جمہوری حکمران کے روپ میں دیکھا ۔بے نظیر دومرتبہ پاکستان کی وزیراعظم بنیں۔اب پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی صوبے کی وزیراعلیٰ ایک خاتون بننے جارہی ہیں۔
پچاس سالہ مریم نوازشریف نے پنجاب اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھاکر اپنی پارلیمانی سیاست کا آغازکردیا ہے۔ان سے صرف اس صوبہ پنجاب کو ہی نہیں بلکہ ان کی اپنی پارٹی کو بھی بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ مریم نوازایسے وقت میں وزارت اعلیٰ کامنصب سنبھال رہی ہیں جب مسلم لیگ ن کے گڑھ سنٹرل پنجاب میں انکی پارٹی کو پہلی مرتبہ شکست ہوئی ہے۔گوکہ ان کی پارٹی صوبے میں سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے اور یہ بات ان کے لیے بھی حوصلہ افزا ہے کہ انہیں حکومت سازی کے لیے کسی پر انحصار نہیں کرنا پڑرہا۔
مریم نوازگوکہ پہلی بار پارلیمان کا حصہ بنی ہیں ۔انہوں نے اس سے پہلے کبھی الیکشن نہیں لڑالیکن ان کی سیاسی جدوجہد سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔انہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتیں پارٹی کے اندرمنوائی ہیں۔وہ ایسے وقت میں پارٹی کولے کر عوام میں گئیں جب مسلم لیگ ن عمران خان صاحب کے زیرعتاب تھی۔جب ان کے والد بھی جیل میں تھے اور چچاشہبازشریف بھی جیل میں تھے اور ٹی وی پر ان کا نام تک لینے پر پابندی تھی۔مجھے یاد ہے کہ مریم نوازنے مختلف شہروں میں ریلیاں نکالنا شروع کیں وہ صبح سے شام تک کبھی منڈی بہاؤلدین کبھی اوکاڑہ اور پاکپتن تک بڑے بڑے جلوسوں کے ساتھ عوام میں جاتیں لیکن ٹی وی پر ان کی خبرتک چلانا منع تھا۔انہوں نے ایسے وقت میں پارٹی کو سنبھالااوراپنے ٹوئٹرکے ذریعے پی ٹی آئی حکومت کو ٹف ٹائم دیے رکھا۔انہوں نے’’ مزاحمت ہوگی تو ہی مفاہمت ہوگی‘‘ اور ’’طاقت ہی طاقت سے بات کرتی ہے‘‘ جیسے محاورے اپنی گفتگو کے دوران بولے جو ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرگئے اور پھر ایسا ہی ہوا۔انہوں نے مزاحمت کی اور بدلے میں مفاہمت پائی ۔انہوں نے اپنے والدنوازشریف کوانصاف دلانے کی باقاعدہ تحریک چلائی ۔ لیول پلینگ فیلڈ اور ترازو کے پلڑے برابر کرنے کا مطالبہ کیا تو اس کا بھی اثر ہوا اور آج ن لیگ کے لیے آسانیاں ہیں ۔ان کے والد نہ صرف وطن واپس آئے بلکہ ان کے مقدمات ختم ہوئے اور تاحیات نااہلی کا بھی خاتمہ ہوا اور آج وہ الیکشن لڑ کر دوبار ہ قومی اسمبلی کے رکن ہیں۔اس کا کریڈٹ مریم نوازکو بھی جاتا ہے۔
نوازشریف نے خود وزیراعظم بننے کی بجائے شہبازشریف کو مرکز میں بھیج کر اپنی بیٹی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ نامزدکیا ہے۔سیاسی پنڈٹ اس کو اپنی سیاسی وراثت بیٹی کو منتقل کرنے کا نام دے رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہا جارہاہے کہ نوازشریف پیچھے بیٹھ کر مریم نوازکی حکومت چلانے میں مددکریں گے۔ان کے سامنے بڑے بڑے چیلنجز ہیں ۔پنجاب میں گورننس کے دوماڈ ل ہمارے ذہنوں میں تازہ ہیں۔ایک ماڈل شہبازاسپیڈکا ہے جس میں بہت ہی متحرک وزیراعلیٰ ہے۔جو صبح بہت جلد کام پر لگ جاتا ہے ۔بیوروکریسی کے ذریعے صوبہ چلاتا ہے اور ایک طاقتورایڈمنسٹریٹر ہے ایک اچھا پراجیکٹ مینجر ہے۔اس کی ترجیح صوبے کا انفراسٹرکچر بنانا ہے۔شہبازشریف نے پنجاب میں قدموں کے گہرے نشان چھوڑے ہیں۔دوسرا ماڈل بزدار ماڈ ل ہے ۔اس ماڈل نے پنجاب کے لوگوں کو کچھ زیادہ متاثر نہیں کیا۔ بزدار کا دورپنجاب میں کمزورگورننس کا دور ہے۔
مریم کامقابلہ بزدارسے کرنا تو زیادتی ہوگی کہ بزدار کی حکومت کو تو ان کی اپنی پارٹی بھی تسلیم کرنے سے انکاری ہوتی ہے اس لیے مریم کا مقابلہ اپنے چچا کے گورننس ماڈل سے ہوگااور پنجاب کے لوگ دوبارہ ترقی کی دوڑ میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ شہبازدورمیں ایک شکایت سامنے آتی رہی ہے کہ انہوں نے جنوبی پنجاب کا بجٹ کم کرکے لاہور اور سنٹرل پنجاب کو زیادہ اہمیت دی ۔اب مریم کے سامنے یہ بھی چیلنج ہوگا کہ پنجاب میں مساوی ترقی ہو۔بڑے شہروں کی ضرورتیں بحرحال زیادہ ہوتی ہیں لیکن اس وجہ سے چھوٹے شہرمحروم نہیں رہنے چاہئیں۔ترقیاتی پراجیکٹ لوگوں کی ضرورت ہوتے ہیں ان کو بھی جاری رہنا چاہئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسانی ترقی کے پراجیکٹ زیادہ ضروری ہیں۔ اس وقت پورا ملک مہنگائی کی لپیٹ میںہے ۔بجلی ،گیس اور پٹرول کی مہنگائی صوبوں کے کنٹرول میں نہیں ہوتی لیکن صوبے اس سے متاثر ضرورہوتے ہیں اس مہنگائی سے لوگوں کو بچانے کے اقدامات کرنے بحرحال صوبائی حکومتوں کے کام ہوتے ہیں ۔اس کے علاوہ جو مصنوعی مہنگائی ہوتی ہے اس کوکنٹرول کرنے کی ساری ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہوتی ہے ۔مریم کے سامنے مارکیٹ کمیٹیوں کے ذریعے موثر نگرانی کا سسٹم بنانا اور اس کو فعال رکھنا بہت بڑا چیلنج ہوگا۔یہ وہ کام ہیں جس سے عام آدمی کی حکومت کے بارے میں مثبت یا منفی رائے قائم ہوتی ہے۔حکومت نے منافع خوروں کے دلوں میں قانون کا ڈر قائم کرنا ہوتا ہے ۔بزدار دورمیں ہم نے دیکھا کہ حکومت کے ہونے کا جو ڈر تھا وہ ختم ہوگیا تھا اس لیے کبھی یہاں چینی کا بحران دیکھا گیا اورکبھی آٹے کا بحران آیا۔
اس کے علاوہ ن لیگ عمران خان کے صحت کارڈ کی ناقد اور مخالف رہی ہے لیکن تعلیم اور صحت اب مکمل طوپرصوبوں کی ذمہ داری ہیں تو مریم نوازکو صحت اور تعلیم کواپنی ترحیجی لسٹ میں نہ صرف ڈالنا ہوگا بلکہ ان دوشعبوں کے لیے بہترین اور قابل عمل پالیسی بنانا ہوگی۔بہتر ہے صحت کارڈوغیرہ جیسے نمائشی اقدامات کرنے کی بجائے سرکاری اسپتالوں کی حالت بہتر بنائی جائے اورموجوداسپتالوں پر رش کم کرنے کے لیے مزید اسپتال بنائے جائیں اور اسپتالوں میں ادویات اور علاج مکمل فری کردیا جائے ۔اسی طرح تعلیم کے شعبے پر بھی توجہ دی جائے ۔
مریم نوازکی سنجیدگی اور ترجیحات کا پتہ ان کی ٹیم کی سلیکشن سے ہی چلے گا۔ان کی ٹیم سلیکشن ہی ان کی صوبہ چلانے کی ترجیحات طے کرے گی کیونکہ مریم نوازکے سامنے چیلنج صرف گورننس اور پنجاب کی ترقی ہی نہیں بلکہ صوبے میں غیرمقبو ل ہوتی ان کی پارٹی کی ساکھ بھی ہے۔مریم نوازکا دورحکومت پنجاب میں ن لیگ کے ووٹ بینک کا مستقبل بھی طے کرے گا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv