سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کے معاملہ پر عدالتی فیصلے اورالیکشن ایکٹ کی ترمیم میں تضاد پر نوٹس لیتے ہوئے اٹارنی جنرل اور تمام صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹسز جاری کردیئے، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اگر کسی کی سزا ختم ہوجائے تو تاحیات نااہلی کیسے برقرار رہ سکتی ہے؟ تاحیات نااہلی کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے، دونوں میں سے ایک کسی ایک کوبرقرار رکھنا ہوگا۔
پیر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے میر بادشاہ قیصرانی کی جعلی ڈگری میں تاحیات نااہلی کیس کی سماعت کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کی تاحیات نااہلی کے معاملے پر دو آراء ہیں، سنگین غداری جیسے جرم پر نااہلی پانچ سال ہے تو نماز نہ پڑھنے والے یا جھوٹ بولنے والے کی تاحیات نااہلی کیوں؟
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ انتخابات کے حوالے سے کوئی غیر یقینی صورتحال نہیں، اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو یہ سپریم کورٹ کی توہین ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بننے کے بعد اس آئینی تشریح پر کم سے کم پانچ ججز کا بنچ بننا چاہیے، آپ کے توسط سے یہ کنفیوژن دور ہوجائے گی۔
سپریم کورٹ نے معاملہ تین رکنی کمیٹی کو بھیجتے ہوئے کہا کہ کمیٹی طے کرے گی لارجر بنچ پانچ رکنی ہوگا یا سات رکنی۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ کیس کی سماعت جنوری 2024 میں ہوگی، موجودہ کیس کوانتخابات میں تاخیرکے آلہ کار کے طورپر استعمال نہیں کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے عدالتی حکم نامے کی نقل الیکشن کمیشن کو بھی ارسال کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ کوئی سیاسی جماعت اس کیس میں فریق بننا چاہے توبن سکتی ہے۔