تازہ تر ین

اتحادیوں کے مطالبات اختیارات کی جنگ ،اصولی سیاست نہیں ،ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف سینئر صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ نیب آرڈی نینس کے حوالہ سے سپریم کورٹ نے جو نیب قوانین کے حوالہ سے نوٹس دیا ہے یہ بھی ایسا ہی کیس ہے جیسے اس سے پہلے تین چار بڑے مقدموں میں ہوئے۔ اور وہ مقدمات اسی قسم کے تھے کہ ایک مدت دی جائے کہ اس دوران آپ نئی قانون سازی کر لیں چنانچہ جتنے بھی نیب پر اعتراضات ہیں نیب آرڈی نینس اگر اپنے اندر سے خرابیاں، خامیاں اور کوتاہیاں نکال لے تو پھر ٹیک ہے ورنہ اس کا فیصلہ سپریم کورٹ کرے گی۔ سپریم کورٹ کو نیب سے پہلے بھی بہت سی شکایات رہی ہیں اور وقتاً فوقتاً اس کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ نیب کے سلسلے میں بہت سی بنیادی تبدیلیاں ہونے والی ہیں اور غالباً ان تبدیلیوں کے بعد ہی موجود ڈھانچہ قابل قبول ہو گا۔ 3 مہینے جو ملے ہیں ان میں بہت سا کام ہو جائے گا۔ نیب کی طرف سے اپوزیشن کو شکایت سامنے آتی رہتی ہے نہ حکومت اپنے لوگوں کے بارے میں نرمی برتتی ہے ان کے خلاف اس طرح کارروائی نہیں ہوتی۔ یہ درست ہے یا غلط یہ بات ہے تاہم ایک بات طے ہے کہ ان تین مہینوں میں بہت کچھ ہونے والا ہے۔ عمران خان کی حکومت سے پہلے بھی سپریم کورٹ کے اکثر جج حضرات اور ہائی کورٹ کے جج بھی اکثر اوقات اس قسم کی نیب قانون کے بارے میں شکایات کرتے رہتے تھے البتہ ایک طے شدہ 3 ماہ دے دیئے گئے ہیں کہ 3 ماہ میں اندر کو درست کیا جائے ورنہ سپریم کورٹ خود درست کر دے گا۔ کیا نیب اپنی کوتاہیاں دور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے یا سپریم کورٹ کو ہی بالآخر درست کرنا ہوں گی۔ پاکستان میں سیاسی جماعتیں بادشاہت کا نظام زیادہ پسند کرتی ہیں اور وزیر اور سفیر اور ارکان پارلیمنٹدراصل مکمل اختیارات چاہتے ہیں مسلم لیگ ق کی طرف سے کہا گیا کہ کیوں نہیں ان کو خصوصی ہدایت کی جاتی مسلم لیگ ق کے ارکان کے بارے میں کہ وہ ان کی بات مانیں۔ اختیارات کو استعمال اپنے دائرہ کار میں رکھنا چاہتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ ان کی زیادہ سے زیادہ بات مانی جائیں، یہ گزشتہ برسوں میں پاکستان میں چلتا رہا کہ جو ارکان اسمبلی نے کہا وہ مانا جاتا رہا اب اس سے تھوڑی سی باتا مختلف ہوتی ہے تو سیاسی جماعتوںکو تکلیف محسوس ہو رہی ہے۔ ایم کیو ایم کی ناراضی ان کا مسئلہ ہے کہ ہم کسی کے پاس چل کر کیوں جائیں جس نے آنا ہے وہ ہمارے پاس آئے۔ اختیارات کی جنگ ہے اصولی بات نہیں ہے۔ وہ لوگ اس وقت وہ لوگ بھی جو اپنے کو اپوزیشن سمجھتے ہیں مثال کے طور پر شہبازشریف اور ان کے ساتھی، پیپلزپارٹی کے بلاول اور ان کے ساتھی کوئی بھی نہیںچاہتا کہ دوبارہ الیکشن ہوں اور اسمبلیاں ٹوٹیں۔ خاص حد تک جانے کے بعد وہ رک جاتے ہیں۔ میں نے عمومی بات کی تھی مسلم لیگ ق کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا تھا کیونکہ اب چونکہ رجحان چل نکلا ہے کہ مختلف پارٹیاں اپنے اپنے 2½، 2½، 5، 7 ممبرز کی جو جماعتیں ہیں وہ بھی دباﺅ ڈال رہی ہیں اور زیادہ سے زیادہ حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ ضیا شاہد نے کہا کہ اچانک سردی آئی۔ تین تودے گرنے سے جانی نقصانہوا۔ اس میں کسی کا قصور نہیں۔ قدرتی آفت کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ تیاریاں ہونی چاہئیں کہ کم از کم نقصان ہو۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv