تازہ تر ین

ملزم نے سبحان کو زیادتی کے بعد سر میں پتھر مار کر قتل کیا تھا، اس نے جرم بھی قبول کر لیا: مہناز رفیع ، اب تو کمسن بچوں سے زیادتی ہونے لگی ، مجرموں کو سر عام پھانسی ہونی چاہیے : ضیا شاہد کی چینل ۵ کے پروگرام ” ہیومن رائٹس “ میں گفتگو

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک)لاہور سی آئی اے کوتوالی کی بڑی کارروائی ، چینل فائیو کے پرگرام ہیومین رائٹس واچ میں باٹا پور میں بچے سے زیادتی کا معاملہ اٹھانے پر ملزم کو گرفتار کر لیا گیا چینل۵ ہمیشہ مظلوموں کی آواز بنتا ہے۔ملزم نے دس سالہ سبحان سے زیادتی کے بعد سر میں پتھر مار کر اسے قتل کر دیا تھا ملزم نے اپنا جرم قبول کر لیا ہے۔ملزم نے اقرار جرم کرتے ہوئے بتایا کہ اس پر کوئی جن آ گیا تھا اس نے ہوش و حواس کھو دیے تھے اسی دوران اس سے بچے سے زیادتی اور قتل ہو گیا اس کے بعد جن اس کے اندر سے نکلا تو اسے ہوش آیا یہ کیا کر دیا۔ چیئرمین ہیومین رائٹس مہناز رفیع نے کہا ہے کہ ضیائ شاہد اور ان کا چینل پوری کوشش کرتے ہیں کہ ملزم گرفتار ہوں حالانکہ یہ حکومت کا کام ہے۔بہتر تفتیش کی جائے تو ملزم جلد پکڑے جائیں بچوں سے زیادتی اور قتل کی واردات بڑی خوفناک ہے ماں باپ پر کیا گزرتی ہو گی۔ضیائ شاہد صاحب دوردراز علاقوں میں ہونے والے جرائم پر آواز اٹھاتے ہیں۔جرم کرنے والوں کو سرعام سزا ملنی چاہئے تاکہ مجرم عبرت پکڑیں۔جو ہوا اس پر انسانیت لرز جاتی ہے۔وکلا بھی اپنے کلانئٹ کو کہتے ہیں عدالت میں بیان دو مجھ پر جن آ گیا تھا حالانکہ یہ سب جھوٹی باتیںہیں۔آخر یہ کیا وحشی پن ہے کیوں بچوں سے زیادتی کی جاتی ہے۔ایسے کیسز جلد نمٹانے چاہئیں۔میں ضیائ صاحب سے درخواست کرتی ہوں مل کر وزیراعلی سے درخواست کریں بچوں سے زیادتی کے ملزمان کو سزا دینے کے لئے سپیشل ججز لگائیں مجرموں کو جلد از جلد مال روڈ پر لٹکایا جائے۔ایسے سلوگن لگائے جائیں کہ اسلام میں ایسے جرائم کی کیا سزا ہے۔لوگ پولیس کے پاس جانے سے ڈرتے ہیں پولیس کی تربیت ہونی چاہئے۔جرائم کی بڑی وجہ آبادی میں اضافہ بھی ہے لوگوں کو شعور دلایا جائے تعلیم و تربیت بہت ضروری ہے۔ایک دو آرگنائزیشن ہیں کو سکولوں میں بچوں کو جنسی زیادتی کے بارے میں شعور دیتے ہیں کہ ایسے افراد سے کیسے بچا جائے۔عموما عزیز رشتہ دار بھی ان جرائممیں ملوث ہوتے ہیں۔سینئر صحافی ضیائ شاہد نے کہا کہ ہمارے ہاں فرانزک رپورٹ میں وقت لگتا ہے لیکن جونہی رپورٹ آئی باٹا پور میں بچے سے زیادتی کا ملزم گرفتار ہو گیا۔وزیر اعلی نے خود نوٹس لیا تھا اس لئے جلد کارروائی ہو گئی۔جرم کے ارتکاب اور سزا کے درمیان گیپ سے ملزم کو حوصلہ مل جاتا ہے سالوں کیس چلتا رہتا ہے۔گزشتہ دنوں میرے ایک ایک دوست کی چودہ سال بعد رہائی ہوئی۔ضیائ الحق کے دور میں پپو کے قاتلوں کو سرعام سزا دی گئی جس کے بعد مجرم سہم گئے کافی عرصہ تک جرائم رکے رہے۔اب تو چھ چھ ماہ کی بچیوں سے زیادتی ہو رہی ہے ایسا شخص انسان نہیں درندہ ہے اسے الٹا لٹکا دیا جائے وہیں اس کی موت ہو جائے تو لوگ ضرور عبرت پکڑیں گے خفیہ پھانسیوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔پولیس کی بڑی ڈیوٹی پروٹوکول ڈیوٹی پر مامور ہے جس سے اصل کام متاثر ہوتا ہے۔بچوں سے زیادتی کے ملزم کو صرف سزائے موت ہونی چاہئے الگ سے ججز تعینات کئے جائیں تاکہ جج کی توجہ نہ بٹے۔پہلے ادوار میں واقعات کم ہوتے تھے مگر اب بڑھ گئے ہیں کہیں تو گڑ بڑ ہے اس وجوہات جاننا بہت ضروری ہے پہلے تو دوماہ کی بچی سے زیادتی کا کسی کے ذہن میں نہیں آتا تھا۔امریکہ گیا تو مجھے بتایا گیا کہ وہاں کی فارن پالیسی یونیورسٹیوں میں بنتی ہے۔ہماری یونیورسٹیوں میں بھی یہ کام ہو سکتا ہے لیکن ہمارے ہاں کوئی تحقیقات نہیں ہوتی طالبعلموں کو بے کار تھیسس دیے جاتے ہیں بچوں سے زیادتی کے کیسز پر تحقیقات ہونی چاہئیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv