تازہ تر ین

پروڈکشن آرڈر کا مطلب رکن اسمبلی جتنی مرضی لوٹ مار کرے آزاد ہے : معروف صحافی ضیا شاہد کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ 40 ہزار روپے کے پرائز بانڈ کا معاملہ مدت سے زیر بحث تھا بعض لوگوں کا تو خیال تھا اس کو زیادہ نہ لٹکایا جائے ورنہ لوگ جلدی ہی کوئی نہ کوئی ٹھکانہ کر لیں گے۔ اس کے باوجود جو ہوا دیر سے ہوا اچھا ہوا اچھا فیصلہ ہوا ہے اس سے افراط زر میں کمی لانے میں مدد ملے گی اور بلیک منی جو لوگوں نے چھپائی ہوئی اس کی حوصلہ شکنی ہو گی اس کے علاوہ یہ جو پروڈکشن آرڈر کا معاملہ ہے خاص طور پر بہت قابل ذکر ہے ٹھیک ہے اسمبلی کی روایات میں قوانین میں ہے کہ پروڈکشن آرڈر کر دیا جا سکتا ہے جو شحص چاہے بھی جرم میں قید ہو سزا اس کو ہو رہی یا ملنے والی ہو تو اس کو بچایا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسمبلی کے اجلاس کے حوالے سے ملک میں دو قسم کی کلاس پائی جاتی ہے ایک کلاس کا یہ ہے کہ ساتھ چوریاں کر لو اس کو کوئی پوچھ پڑتال نہیں اس کے لئے کہ تم اسمبلی کے ممبر ہے۔ کہاںلکھا ہے کہ اسمبلی کا جو ممبر ہو گا اس کے لئے یہ بھی جائز ہے وہ بھی جائز ہے اس کو پکڑا گیا ہے اس کو چھوڑ دو کہ اسمبلی کا اجلاس ہو رہا ہے وہ کون سا حصہ ڈال رہا تھا کیا وہ پچھلے ایک دو سال میں دکھا سکتا ہے کہ اس نے اسمبلی میں حصہ لیا ہے لوگ کام وام نہیں کرتے تھے یہ محض ڈھکونسلا ہے اپنے اپنے کام کروانے ہوتے ہیں یہ عوام کے مسائل پہ بات کرنے نہیں جاتے۔ سوال یہ ہے کہ اپوزیشن کسی نے اس صورت حال پہ غور کیا کہ ڈالر ریٹ کیوں اوپر چلا گیا ہے مہنگائی کیوں بڑھ رہی ہے۔ برآمدات کیوں کم ہوئی ہیں کوئی کمیشن بیٹھا ہو۔ کوئی رپورٹ آئی ہو کوئی اس سلسلے میں کام ہوا کسی جگہ پر ریسرچ کا آغاز ہوا ہو کوئی بحث اور تقاریر شروع ہوئی ہو کوئی کام نہیں ہوتا۔ جس طرح سے 40 ہزار کا پرائز بانڈ کا آج فیصلہ کرنا پڑا۔ یہ فیصلہ ہے جو بڑی دیر سے رکا ہوا تھا۔ جو کام ملک کے مفاد میں ہے اسے کرنا چاہئے اور ملک کی اکانومی کو محفوظ کرنا چاہئے۔ مزید جو بھی فیصلے ہوں گے وہ بہتری کی طرف آئیں گے۔ رانا ثنائ اللہ کی گرفتاری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے صیا شاہد نے کہا کہ اس کا ڈس کریڈٹ بھی اپوزیشن کو جاتا ہے کسی کو ملک کی اپوزیشن مل کر تحریک چلائے اور بجٹ کا موقع ہو لوگوں کو ایک ایک ووٹ کی ضرورت ہو حکومت نے بجٹ منظور کرانا ہو تو لگ پتہ جاتا ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ وہ سنجیدہ ہی نہیں تھے وہ آپس میں بحث مباحثہ کر رہے تھے وہ کسی بات پر متفق نہیں تھے، محترمہ مریم نواز صاحبہ کہہ رہی تھیں کہ اس کی ضرورت نہیں ہے شہباز شریف کہہ رہے تھے کہ میثاق معیشت ہونا چاہئے۔ مسلم لیگ ن کے صدر کچھ اور کہہ رہے تھے اور بھتیجی اور کہہ رہی تھیں اس قسم کا جو مذاق بنا ہوا تھا اس کا نتیجہ ہونا تھا جو آج کل کی اسمبلیوں کا ہوا ہے قمر الزمان کائرہ کی پریس کانفرنس جس میں انہوں نے الزام لگایا گیا ہے کہ بجٹ پاس کروانے کے لئے بہت سارا پیسہ لگایا گیا ہے ضیا شاہد نے کہا ہے کہ الزامات ہمیشہ لگائے جاتے ہیں۔ اس کا کوئی ثبوت ہے تو سامنے لایا جائے کہ اتنی رقم تھی فلاں جگہ تھی فلاں کے پاس تھی فلاں شخص کو دی گئی اس بنیاد پر دی گئی کہ فلاں کام کروا کر دے گا۔ وہ سارا جو ہے ثبوت سامنے لایا جائے گا۔ ایک سیاسی پارٹی برسراقتدار آئی دوسری کو شکست ہوئی تیسری کو اس سے بھی بری شکست ہوئی، اور چوتھی کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی نااہلی کا سرٹیفکیٹ دے دیا۔ اب لے دے کر ایک ہی بات رہ جاتی ہے جو باقی ماندہ پارٹی بچ گئی ہے شہباز شریف جس کے صدر ہیں وہ اپنی صوابدید پر اس بحران سے نکالنے ہوتے ہوئے چلیں اور 5 سال گزاریں لیکن لگتا ہے کہ ان کی کوئی خاص پیش نہ چلتی اور مریم نواز جو ہیں وہ زیادہ آگے بڑھ رہی ہیں۔ نوازشریف صاحب کے گروپ میں سے چنانچہ لگتا یہی ہے کہ بظاہر جو امکانات ہیں کہ اگر اس قسم کی کوئی واضح اختلاف ہوا تو نوازشریف کے حامی ان کا ساتھ دیں گے نوازشریف کے حامی کا مطلب ہےکہ انتہا پسندی کا نقطہ نظر رکھنے والے لوگ۔ اب محلاتی سیاست کا دور گزر گیا جب میاں صاحبان کا جب فوج کی چھتر چھایا میں ان کے پاس لمبا پریڈ تھا اور اوپر سر پر نگران تھے اس لئے یہ کھیل کھیل رہے تھے۔ اب آٹے دال کا بھا? پتہ چل گیا ہو گا کتنی سیاست ہے ان کی کتنی ان کی بصیرت ہے۔اکیلے پھر رہے ہیں یوسف بے کاررواں ہو کراب تو شہباز شریف اکیلے ہیں جتنی دیر تک جہاں تک مل سکتا ہے لے لیں۔ ان کا مستقبل تابناک نظر نہیں آتا۔ شہباز گل کی پریس کانفرنس کو کیا کسی دل کے مریض کو پالک گوشت، کریلے گوشت کھانے کی اجازت ہوتی ہے اس پر ضیا شاہد نے کہا کہ یہ تو کسی ڈاکٹر سے پوچھنا چاہئے البتہ یہ کہ ظاہر ہے اس کی طبیعت جس طرح سے بتائی جاتی ہے ان کو احتیاط کرنی چاہئے ہماری دعا ہے کہ وہ صحت یاب رہیں اور اللہ نہ کرے کہ جیل کی سختی میں بہرحال ایک آزمائش ہے قدرت کی طرف سے اس میں ان کی طبیعت خراب نہ ہو جائے۔ ایک پرانے دوست کے طور پر میری تو یہی خواہش رہی ہے کہ خدا کرے وہ صحت یاب رہیں انہیں کوئی تکلیف نہ ہو۔ انہیں بھی چاہئے کہ یہ جو زبان کے چٹخارے کے لئے ایسی چیزیں کھانا اچھا لگتا ہے ذرا ٹوہر ٹپہ چلتا رہتا ہے لیکن یہ دیکھنا چاہئے کہ اگر طبیعت ٹھیک ہے تو پھر کھانے میں احتیاط ضرور کرنی چاہئے۔ رانا ثنائ اللہ کی گرفتاری کے حوالے سے کافی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ خود ہی ان کے گھر پر چیزیں رکھ کر ان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ دوسری طرف اے این ایف والے ہیں ہمارے دوست جو اے این ایف میں رہے ہیں ان میں سے بہت لوگوں سے بات ہوئی ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ 1991ئ تک ایک ہی فورس تھی یعنی اے این ایف اور دوسرا ٹاسک فورس، ان دونوں کو 1991ئ میں یکجا کر دیا گیا اور اس وقت سے آرمی کا ایکٹو میجر جنرل اس کا سربراہ ہوتا ہے عام طور پر اے این ایف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جھوٹے مقدمے نہیں کراتی اور کہا جاتا ہے کہ بہت محنت کر کے کوشش کر کے اپنا کیس تیار کرتی ہے اور اب بھی دعویٰ یہی کیا گیا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ فیاض الحسن چوہان صاحب اکثر حوالاتی کا ریمانڈ لے لیا جاتا ہے تا کہ اسے پوچھ گچھ کی جائے لیکن اے این ایف نے بالکل وچھ گچھ سے انکار کر دیا ہمیں کسی پوچھ گچھ کی ضرورت نہیں ہمارے پاس مکمل ٹریل موجود ہے ان کا کہ کب انہوں نے پلان کیا کب انہوں نے چیزیں رکھوائیں کہاں کہاں پہنچائیں کتنے دن ان کو لے کر پھرتے رہے تو اس سلسلے میں اس پرانی تھیوری کو یہ سیاسی انتقام ہے اس کو آپ کسی حد تک سیل کرتے ہیں اور کس حد تک کہ آپ سمجھتے ہیں کہ صرف الزام ہو گا اور اس میں کوئی حقیقت نہیں ہو گی۔ کسی بھی جرم میں گرفتار شخص خود کو بیگناہ ہی قرار دیتا ہے۔ وکیل بھی ملزم سے یہی کہتے ہیں کہ ہر چیز سے انکار کر دو اس سے استغاثہ پر سارا بوجھ آ جاتا ہے اور اسے تمام ثبوت تلاش کرنا پڑتے ہیں۔ پولیس کی گواہیوں پر کیس بنایا جاتا ہے جو ساری خود ساختہ ہوتی ہیں۔ یہی مسئلہ رانا ثنائ اللہ کا ہے جنہوں نے کہہ دیا ہے کہ سارا جھوٹ ہے اے این ایف نے ان پر جھوٹا مقدمہ بنوایا ہے۔ میری اے این ایف کے سابق و موجودہ افسران سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس تمام ریکارڈ موجود ہے کہ اتنے دن سے کون کہاں تھا کیا کر رہا تھا کہاں سے منشیات لی گئی اور کہاں لے جائی جا رہی تھی۔ شکر کا مقام ہے کہ موجودہ حکومت کو بھی زراعت کی بہتری کا خیال تو آ گیا وگرنہ تمام سابق ادوار میں تو سب سے کم دلچسپی زراعت میں لی جاتی رہی۔ پاکستان کی 70 فیصد آبادی کا انحصار زراعت پر ہے اس لئے اس شعبہ کو ہر طرح کی سہولت اور سبسڈی دی جانی چاہئے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv